Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 38
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ١ۚ قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً١ۚ اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ
ھُنَالِكَ : وہیں دَعَا : دعا کی زَكَرِيَّا : زکریا رَبَّهٗ : اپنا رب قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب ھَبْ لِيْ : عطا کر مجھے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس ذُرِّيَّةً : اولاد طَيِّبَةً : پاک اِنَّكَ : بیشک تو سَمِيْعُ : سننے والا الدُّعَآءِ : دعا
وہیں دعا کی زکریا نے اپنے رب سے کہا اے رب میرے عطا کر مجھ کو اپنے پاس سے اولاد پاکیزہ54 بیشک تو سننے والا ہے دعا کو  
54:۔ ایک شبہ کا جواب :۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے یہاں ایسی عمر میں بچے کے پیدا ہونے سے جس میں عادۃ بچہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ عیسائی اس شبہ میں پڑگئے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو کچھ تصرف اور اختیار حاصل تھا۔ جس کی وجہ سے ان کے یہاں بڑھاپے میں بیٹا پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی۔ ھُنَالِکَ ظرف ہے زمان اور مکان دونوں کے لیے یہاں مکان کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے پاس بےموسم کے میوے دیکھے تو وہیں اللہ سے دعا کی اور خیال کیا کہ جو اللہ مریم کو بےموسم کا پھل دے سکتا ہے وہ مجھے بھی اس بڑھاپے میں فرزند عطا کرسکتا ہے (روح ج 3 ص 144) اس سے معلوم ہوا کہ ان کے تصرف واختیار میں تو کچھ نہیں تھا۔ بیٹے کے لیے تو وہ اللہ سے دعا کر رہے تھے۔ اس لیے وہ مالک ومختار یا متصرف کس طرح ہوسکتے ہیں۔ اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَاءِ یہ بھی ان کی دعا ہی کا حصہ ہے۔ حرف تاکید اور جملہ اسمیہ لا کر حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اللہ کے سامنے اعتراف کیا اے اللہ دعائیں قبول کرنے والا اور آرزوئیں بر لانے والا صرف تو ہی ہے۔ تیرے سوا اور کوئی حاجت روا اور مشکلکشا نہیں۔ بھلا جو اس طرح اللہ سے التجا کرے وہ کس طرح معبود اور کارساز ہوسکتا ہے۔
Top