Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی
قُلْ
: فرمادیں
لِّاَزْوَاجِكَ
: اپنی بیبیوں سے
اِنْ
: اگر
كُنْتُنَّ
: تم ہو
تُرِدْنَ
: چاہتی ہو
الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا
: دنیا کی زندگی
وَزِيْنَتَهَا
: اور اس کی زینت
فَتَعَالَيْنَ
: تو آؤ
اُمَتِّعْكُنَّ
: میں تمہیں کچھ دے دوں
وَاُسَرِّحْكُنَّ
: اور تمہیں رخصت کردوں
سَرَاحًا
: رخصت کرنا
جَمِيْلًا
: اچھی
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کردوں
اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ آیت یایھا النبی قل لازواجک ہمارے علماء کہا : یہ آیت اس گزری ہوئی کلام کے معنی کے ساتھ متصل ہے جس میں نبی کریم ﷺ کو اذیت دینے سے روکا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو اپنی ازواج مطہرات میں سے بعض سے اذیت پہنچی تھی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ازواج مطہرات نے نبی کریم ﷺ سے دنیاوی مال کا مطالبہ کیا تھا (
1
) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : نفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کیا تھا (
2
) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : انہوں نے ایک دوسرے پر غیرت کا اظہار کر کے آپ ﷺ کو اذیت دی تھی (
3
) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ ان پر اس آیت کو تلاوت کریں اور دنیا وآخرت میں انہیں اختیار دیں (
4
) ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : جو آدمی ایک بیوی کا مالک ہو اس پر اسے اختیار دینا لازم نہیں۔ نبی کریم ﷺ کا حکم دیا گیا کہ وہ اپنی عورتوں کو اختیار دیں تو ازواج مطہرات نے حضور ﷺ کو اختیار کیا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے اختیار دیا کہ چاہیں تو آپ بادشاہ نبی ہوں اور دنیا کے خزانوں کی چابیاں پیش کیں اور چاہیں تو مسکین نبی ہوں نبی کریم ﷺ نے حضرت جبریل امین سے مشورہ کیا تو انہوں نے نبی کریم ﷺ کے مسکنہ کا مشورہ دیا۔ تو حضور ﷺ نے مسکنہ کو اپنا لیا۔ جب حضور ﷺ نے اسے اختیار کیا تو یہ سب سے بلند مقام بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنی ازواج کو اختیار دیں۔ بعض اوقات ان سے ایسی بات ظاہر ہوتی ہے جس سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ اس تنگدستی کے عالم میں حضور ﷺ کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس امر کی وجہ سے اختیار دیا گیا وہ یہ تھا کہ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے ایک نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ آپ ﷺ اس کے لیے سونے کا ایک حلقہ بنوائیں حضور ﷺ نے اس کے لیے چاندی کا ایک حلقہ بنوایا اور اس پر سونے کا پانی چڑھوایا۔ ایک قول یہ کیا گیا : زعفران کا رنگ چڑھوایا، تو اس نے لینے سے انکار کردیا مگر اس صورت میں کہ سونے کا ہو۔ تو یہ آیت تخییر نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے انہیں اختیار دیا۔ ان سب نے کہا : ہم اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتیں ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان میں سے ایک نے فراق کو اپنا یا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے جب کہ الفاظ مسلم کے ہیں (
1
) سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت طلب کرتے ہیں آپ نے لوگوں کو حضور ﷺ کے دروازے پر پایا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان میں سے کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ کہا : حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اجازت مل گئی تو ہو داخل ہوئے پھر حضرت عمر آئے انہوں نے اجازت طلب کی توا نہیں بھی اجازت مل گئی۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : نبی کریم ﷺ کے خاموش بیٹھے ہوئے پایا آپ کے ارد گرد ازواج مطہرات موجود تھیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : اللہ کی قسم ! میں ایسی بات کروں گا جو حضور ﷺ کے ہنسا دے گی۔ عرض کی : یا رسول اللہ ! اگر میں بنت خارجہ کو پائوں جو مجھ سے نفقہ کا سوال کرے تو میں اس کی طرف اٹھوں گا اور اس کی گردن دبوچ لوں گا۔ رسول اللہ ﷺ یہ بات سن کی ہنسنے لگے۔ فرمایا : ” یہ میرے ارد گرد ہیں جس طرح تو دیکھتا ہے وہ مجھ سے نفقہ کا سوال کر رہی ہیں “۔ حضرت ابوبکر صدیق حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف ان کی گردن دبانے کے لیے اٹھے اور حضرت عمر حضرت حفصہ ؓ کی گردن دبانے کے لیے اٹھے۔ دونوں کہہ رہے تھے : تم رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کا سوال کرتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ سب نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم رسول اللہ ﷺ سے کبھی بھی ایسی چیز کا سوال نہیں کریں گی جو آپ کے پاس موجود نہ ہو۔ پھر آپ نے ان سے ایک مہینہ یا انتیس دن علیحدگی اختیار کرلی، پھر یہ آیت نازل ہوئی : آیت یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلاوان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدارلاخرۃ فان اللہ اعد للمحسنات منکن اجرا عظیما حضور ﷺ نے حضرت عائشہ سے اس ختیار کو شروع کیا۔ فرمایا : ” اے عائشہ ! میں تجھ پر ایک ایسا امر پیش کرنے کا ارادہ کرتا ہوں میں پسند کرتا ہوں تو اس بارے میں جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلے “۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ وہ کیا ہے تو حضور ﷺ نے اس آیت پر تلاوت کی۔ عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا میں آپ کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟ بلکہ میں اللہ، اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کرتی ہوں۔ میں آپ سے سوال کرتی ہوں کہ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ آپ اپنی دوسری بیویوں کو نہیں بتائیں گے۔ فرمایا : ” ان میں سے جو بیوی بھی مجھ سے اس کا سوال کرے گی میں اسے بتادوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے معنت (ہلاکت میں ڈالنے والا) اور متعنت ( غلطی کی جستجو کرنے والا) بنا کر نہیں بھیجا بلکہ مجھے معلم اور سہولت دینے والا بنا کر بھیجا ہے “ امام ترمذی نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنی بیویوں کو اختیار دیں تو آپ نے مجھ سے اس کا آغاز فرمایا : ” اے عائشہ ! میں تیرے لیے ایک امر کا ذکر کروں تجھ پر کوئی حرج نہیں ہوگا کہ تو جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلے “ (
1
) ۔ حضرت عائشہ نے کہا : حضور ﷺ خوب جانتے تھے کہ میرے والدین مجھے آپ ﷺ سے فراق کا حکم دینے والے نہیں تھے۔ پھر عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا پھر حضور ﷺ نے کہا : اللہ تعالیٰ حکم ارشاد فرماتا ہے : آیت یا ایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلاوان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدارلاخرۃ فان اللہ اعد للمحسنات منکن اجراعظیما میں نے عرض کی : کیا میں اس معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟ میں اللہ تعالی، اس کے رسول اور دار آخرت کا ارادہ رکھتی ہوں۔ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات نے وہی کہا جو میں نے کہا تھا۔ کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ علماء نے کہا : جہاں تک نبی کریم ﷺ کا حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے والدین سے مشورہ کرے اس لیے تھا کیونکہ حضور ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ سے محبت کیا کرتے تھے۔ آپ خوف رکھتے (
2
) تھے کہ جوانی کا عالم انہیں اس امر پر بر انگیختہ نہ کرے کہ وہ حضور ﷺ سے فراق کو ہی اختیار نہ کرلیں اور آپ ﷺ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے والدین آپ کو فراق کا مشورہ نہیں دیں گے۔ مسئلہ نمبر
2
۔ قل لازواجک نبی کریم ﷺ کی کئی ازواج تھیں۔ ان میں سے کچھ وہ تھیں جن سے حضور ﷺ نے حقوق زوجیت ادا کیے تھے، کچھ سے صرف عقد نکاح کیا تھا اور حقوق زوجیت ادا نہیں کیے تھے۔ اور کچھ وہ تھیں جن کو وعوت نکاح دی مگر ان کے ساتھ عقد نکاح مکمل نہ ہوا۔ (
1
) حضرت خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب۔ حضور ﷺ کے ساتھ عقد نکاح سے پہلے آپ ابو ہالہ کے عقد میں تھیں اس کا نام زرارہ بن نباش اسدی تھا اس سے قبل عتیق بن عائذ کے عقد میں تھیں ان سے ایک بچہ پیدا ہوا تھا جس کا نام عبد منان تھا اور ابو ہالہ سے اس کا بیٹا ہند بن ابی ہالہ پیدا ہوا۔ طاعون کے زمانہ تک زندہ رہا اور اس میں مرگیا۔ ایک قول یہ کیا جاتا ہے : جو بچہ طاعون کے زمانہ تک زندہ رہا وہ ہند بن ہند تھا جب یہ فوت ہوا تو اس وقت حضرت خدیجہ سے یہ بین سنا گیا وا ھند بن ھنداہ، واربیب رسول اللہ ہائے ہند بن ہند، ہائے رسول اللہ کے پر وردہ۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ الکبری کی موجودگی میں کسی عورت سے شادی نہ کی یہاں تک کہ وہ وصال فرما گئیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کی تو اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی۔ یہ وہ پہلی عورت تھیں جو حضور ﷺ پر ایمان لائی تھیں۔ حضور ﷺ کی تمام اولاد ان سے تھی صرف حضرت ابرہیم (علیہ السلام) ۔ حکیم بن حزام نے کہا : حضرت خدیجہ کا وصال ہوا تو ہم نے انہیں گھر سے نکالا یہاں تک کہ حجون میں ان کو دفن کیا۔ حضور ﷺ خود ان کی قبر میں اترے ان دنوں نماز جنازہ پر ھنے کا طریقہ نہ تھا (
3
) ۔ (
2
) حضرت سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس العامریہ۔ یہ قدیمی مسلمان تھیں انہوں نے بیعت کی۔ وہ اپنے چچا زاد بھائی کے عقد میں تھیں جس کو سکران بن عمر و کہا جاتا وہ بھی مسلمان ہوگیا تھا۔ دونوں نے دوسری ہجرت میں حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ جب یہ مکہ مکرمہ آئے تو خاوند فوت ہوگیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ حبشہ میں ہی فوت ہوگیا تھا۔ جب ان کی عدت ختم ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں دعوت نکاح دی۔ ان سے نکاح کرلیا اور مکہ مکرمہ میں ہی انہیں اپنے حرم میں داخل کرلیا اور ان کے ساتھ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔ جب یہ بوڑھی ہوگئیں تو حضور ﷺ نے انہیں طلاق دینے کا ارادہ کیا تو حضرت سودہ نے یہ عرض کی کہ آپ ایسا نہ کریں، اسے اپنی ازواج میں رہنے دیں اور انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ صدیقہ کو دے دی، جیسا صحیح مذکور ہے تو حضور ﷺ نے آپ کو اپنے پاس روک لیا۔ ان کا وصال مدینہ طیبہ میں شوال سن چون ہجری کو ہوا۔ (
3
) حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابوبکر صدیق ؓ۔ ان کی نسبت جبیر بن مطعم سے تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعوت نکاح بھیجی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! مجھے موقع دیجئے کہ میں جبیر سے اس کو نرمی سے آزاد کر الوں۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں ہجرت سے دو سال قبل نکاح کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے (رح) : تین سال قبل نکاح کیا اور مدینہ طیبہ میں انہیں حرم میں داخل کیا جب ان کی عمر نو سال تھی اور نو سال تک یہ آپ ﷺ کے پاس رہیں حضور ﷺ کا وصال ہوا تو ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ ان کے علاوہ حضور ﷺ نے کسی بھی باکرہ عورت سے شادی نہیں کی۔ ان کا وصال
59
یا
58
ھ کو ہوا۔ (
4
) حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب قریشی عدوی ؓ رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کی پھر انہیں طلاق دی تو حضرت جبریل امین آئے اور کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ حضرت حفصہ سے رجوع کرلیں، کیونکہ وہ روزے دار اور راتوں کو قیام کرنے والی ہیں (
1
) ۔ تو حضور ﷺ نے ان سے رجوع کرلیا۔ واقدی نے کہا ـ :ـ ان کا وصال شعبان
45
ھ میں حضرت امیر معاویہ کے دورحکومت میں ہوا ان کی عمر ساٹھ سال تھی (
2
) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کا وصال حضرت عثمان غنی ؓ کے دور میں مدینہ طیبہ میں ہوا۔ (
5
) حضرت ام سلمہ ؓ ان کا نام ہند بنت ابی امیہ مخزومی تھا۔ ابو امیہ کا نام سہیل تھا۔ حضور ﷺ نے ان سے نکاح
4
ھ میں شوال میں کیا۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کا نکاح ان کے بیٹے سلمہ نے کیا (رح)۔ ان کے بیٹے کی عمر چھوٹی تھی۔ ان کا وصال
59
ھ میں ہوا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کا وصال
62
ھ میں ہوا ؛ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ حضرت سعید بن زید نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت ابوہریرہ نے پڑھائی، ان کی قبر بقیع میں ہے اس وقت ان کی عمر چوراسی سال تھی۔ (
6
) حضرت ام حبیبہ ؓ ان کا نام رملہ بنت ابو سفیان ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ آپ کی جانب سے حضرت ام حبیبہ کو دعوت نکاح دے تو نجاشی نے نبی کریم ﷺ کا نکاح حضرت ام حبیبہ سے کردیا یہ ہجرت کا ساتواں سال تھا۔ نجاشی نے نبی کریم ﷺ کی جانب سے انہیں چار سو دینار مہر کے طور پر دیئے اور حضرت شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ انہیں نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں بھیج دیا (رح)۔ ان کا وصال
44
ھ میں ہوا (
1
) ۔ وار قطنی نے کہا : حضرت ام حبیبہ عبید اللہ بن حجش کے عقد میں تھیں وہ حبشہ کے علاقہ میں نصرانی کی حیثیت سے مرا۔ نجاشی نے حضرت ام حبیبہ کا نکاح نبی کریم ﷺ سے کردیا اور چار ہزار مہر مقرر کیا۔ اور شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ انہیں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں بھیج دیا (
2
) ۔ (
7
) حضرت زینب بنت جحش بن رئاب اسد یہ ؓ ان کا نام برہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام زینب رکھا۔ ان کے باپ کا نام برہ تھا۔ عرض کی : یارسول اللہ ! میرے باپ کا نام بدل دیجئے کیونکہ برہ حقیر چیز ہے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں ارشاد فرمایا : ” اگر تیرا باپ مومن ہوتا تو ہم اس کا نام اپنے اہل بیت کے نام پر رکھتے لیکن میں نے اس کا نام حجش رکھا ہے اور حجش برہ میں سے ہے “۔ دار قطنی نے اس حیث کا ذکر کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے
5
ھ میں شادی کی۔ ان کا وصال
20
ھ میں ہوا جب کہ عمر ترپن سال تھی۔ (
8
) حضرت زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبد اللہ بن عمر و بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصہ ہلالیہ اور ان کو دور جاہلیت میں ام المساکین کا لقب دیا جاتا، کیونکہ یہ مساکین کو کھانا کھلایا کرتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے مدینہ طیبہ میں شادی کی جب کہ ہجرت کو اکتیس ماہ گزرچکے تھے یہ صرف آٹھ ماہ تک حضور ﷺ کے حرم میں رہیں اور آپ کی زندگی میں ہی ربیع الا ول کے آخر ہجرت کے انتالیسویں ماہ میں وصال ہوگیا ان کو بقیع میں دفن کیا گیا۔ (
9
) حضرت جویریہ بنت حارث بن ابی ضرار خزاعیہ مصطلقیہ ان کو غزوہ بنی مصطلق میں گرفتار کیا گیا۔ یہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے حصہ میں آئیں جنہوں نے ان کے ساتھ عقد مکاتبہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مکاتبہ کا مال عطا کردیا اور ان سے شادی کرلی۔ یہ ہجرت کے چھٹے سال شعبان میں ہوئی، اس کا نام برہ تھا رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام جویریہ رکھا یہ
6
ھ ربیع الاول
56
ھ میں فوت ہوئیں۔ ایک قول یہ کیا گیا :
50
ھ میں فوت ہوئیں جب کہ ان کی عمر اکسٹھ سال تھی۔ (
10
) حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ہارونی۔ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے انہیں گرفتار کیا اور اسے اپنے لیے چن لیا۔ وہ مسلمان ہوگئیں اور اسے آزاد کردیا۔ حضور ﷺ نے اس کی آزادی کو ہی اس کا مہر مقرر فرمایا۔ صحیح میں ہے کہ یہ حضرت دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں رسول اللہ ﷺ نے اسے سات حصوں کے برابر خریدا (
3
) ، اور یہ
50
ھ میں وفات پاگئیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے :
52
ھ میں ان کا وصال ہوا اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔ (
11
) حضرت ریحانہ بنت زید بن عمرو بن خنافہ جو بنو نضیر سے تعلق رکھتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے گرفتا کیا اور اسے آزاد کردیا اور
6
ھ میں ان سے شادی کی۔ یہ حجۃ الوداع کے موقع لوٹتے ہوئے فوت ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بقیع میں دفن کیا۔ واقدی نے ذکر کیا : یہ
16
ھ میں فوت ہوئیں حضرت عمر ؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ابو الفرج جوزی نے کہا : میں نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا : حضور ﷺ نے اس کو آزاد نہیں کیا تھا بلکہ یہ آپ ﷺ کی لونڈی کی حیثیت سے ہی رہتی تھیں (
1
) ۔ میں کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ابو القاسم عبدا لرحمن سہیلی نے اسے حضور ﷺ کی ازواج میں شمار نہیں کیا۔ (
12
) حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے عقد نکاح سرف کے مقام پر کیا جو مکہ مکرمہ سے دس میل دور ہے۔ یہ عمرہ قضاء میں
7
ھ کو ہوا۔ یہ وہ آخری عورت ہیں جن سے نبی کریم ﷺ نے شادی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے یہ مقرر کیا کہ جہاں حضور ﷺ نے اسے اپنے حرم میں داخل کیا وہیں ان کا وصال ہوا اور وہیں ان کو دفن کیا گیا۔ ان کا وصال
61
ھ میں ہوا۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ
63
ھ میں ہوا۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ
68
ھ میں ہوا۔ نبی کریم ﷺ کی یہی مشہور ازواج ہیں۔ یہی وہ بیویاں ہیں جن کے ساتھ حضور ﷺ نے حقوق زوجیت ادا کیے۔ ؓ جہاں تک ان عورتوں کا تعلق ہے جن کا ساتھ حضور ﷺ نے نکاح کیا اور ان کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہیں کیے، ان میں سے کلابیہ ہے۔ اس کے نام میں علماء نے اختلاف کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس کا نام فاطمہ تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا نام عمرہ تھا (رح)۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس کا نام عالیہ تھا۔ زہری نے کہا : حضور ﷺ نے فاطمہ بنت ضحاک کلابیہ سے نکاح کیا۔ اس نے حضور ﷺ سے پناہ مانگی تو حضور ﷺ نے اسے طلاق دی۔ وہ کہا کرتی تھی : میں شقیہ ہوں۔ حضور ﷺ نے
8
ھ میں ذی قعدہ میں نکاح کیا یہ ساٹھ ہجری میں فوت ہوئی (
2
) ۔ ان میں سے اسماء بنت نعمان بن جون بن حارث کندیہ ہے یہی جو نیہ ہے۔ قتادہ نے کہا : جب حضور ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے تو اسے دعوت دی تو اس نے کہا : آپ ادھر آئیں تو حضور ﷺ نے اسے طلاق دے دی۔ دوسرے علماء نے کہا : اس نے حضور ﷺ سے پناہ مانگی تھی۔ بخاری شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا۔ جب اسے حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا تو حضور ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا، گویا اس نے اسے ناپسند کیا (
3
) ۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو امیہ کو فرمایا اس کا سامان تیار کرے اور کپڑے دے۔ دوسرے الفاظ یہ ہیں حضرت ابو اسید نے کہا : جو نیہ کو حضور ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ جب حضور ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے تو فرمایا : ھبی لی نفسک اپنی ذات کو میرے لیے ہبہ کر دو ۔ اس نے کہا : ھل تھب الملکۃ نفسھا للسوقۃ کیا مالکہ اپنا آپ رعیت کو ہبہ کرتی ہے۔ حضور ﷺ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ اس پر رکھیں تاکہ وہ سکون پائے۔ اس نے کہا : اعوذ باللہ منک میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ فرمایا : ” تو نے اس ذات کی پناہ چاہی جس کی پناہ چاہی جاتی ہے۔ “ پھر حضور ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے فرمایا : ” اے ابا سید ! اسے دو سفید رازقی کپڑے دے دو اور اس کو اس کے گھر والوں کی طرف بھیج دو “۔ قتیلہ بنت قیس۔ یہ اشعث بن قیس کی بہن تھی۔ آپ ﷺ سے اس کی شادی اس کے بھائی اشعث نے کی پھر وہ حضرموت چلا گیا۔ وہ اسے سوار کر کے حضور ﷺ کی بارگاہ میں لایا تو اسے حضور ﷺ کے وصال کی خبر ملی تو وہ واپس اپنے علاقہ میں لے گیا وہ مرتد ہوگیا اور یہ بھی مرتد ہوگئی پھر اس سے حضرت عکرمہ بن ابو جہل سے شادی کی تو اس سے حضرت ابوبکر صدیق کو سخت رنج ہوا۔ حضرت عمر ؓ نے آپ سے عرض کی : اللہ کی قسم ! یہ رسول اللہ کی ازواج میں سے نہ تھی (
1
) ۔ حضور ﷺ نے نہ انہیں اختیار دیا اور نہ ہی حجاب میں لیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ارتداد کے ساتھ اسے حضور ﷺ سے بری کردیا۔ حضرت عروہ اس سے انکار کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اس سے نکاح کیا ہو۔ ام شریک ازدیہ۔ اس کا نام غزیہ بنت جابر بن حکیم تھا۔ اس سے قبل یہ ابوبکر بن ابی سلمی کے عقد میں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اسے طلاق دے دی اور اس سے حقوق زوجیت ادا نہیں کیے۔ یہی وہ عورت تھی جس نے اپنے آپ کو آپ پر پیش کیا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس عورت نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ پر پیش کیا تھا وہ خولہ بنت حکیم تھی۔ خولہ بنت ہذیل بن ہبیرہ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے نکاح کیا اور آپ تک پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوگئی۔ شراف بنت خلیفہ۔ یہ حضرت دحیہ کی بہن تھی حضور ﷺ نے اس سے نکاح کیا اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہیں کیے۔ یعلی بنت خطیم۔ یہ قیس کی بہن تھی حضور ﷺ نے اس سے نکاح کیا یہ بڑی غیور تھی اس نے نکاح کے ختم کرنے کا مطالبہ کیا تو حضور ﷺ نے اس کے ساتھ عقد نکاح کو ختم کیا۔ عمرہ بنت ہادیہ کندیہ۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے نکاح کیا۔ شعبی نے کہا : کندہ کی ایک عورت سے نکاح کیا۔ حضور ﷺ کے وصال کے بعد اسے لایا گیا۔ ابنۃ جندب بن ضمرہ جندعیہ۔ بعض نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس سے نکاح کیا اور بعض نے اس کے وجود کا انکار کیا۔ غفاریہ۔ بعض علماء نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے بنو غفار کی ایک عورت سے شادی کی حضور ﷺ نے اسے حکم دیا تو اس نے اپنے کپڑے اتارے تو حضور ﷺ نے سفیدی دیکھی تو فرمایا : ” تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا “ (
2
) ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سفیدی آپ نے کلابیہ میں دیکھی تھی۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن سے حضور ﷺ نے عقد نکاح کیا اور ان سے حقوق زوجیت ادا نہیں کیے۔ جہاں تک ان عورتوں کا تعلق ہے جن کو حضور ﷺ نے دعوت نکاح تو دی مگر عقد نکاح نہ ہوا اور جن عورتوں نے اپنے آپ کو حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ ان میں سے حضرت ام ہانی بنت ابی طالب ؓ ان کا نام فاختہ تھا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں دعوت نکاح دی تو انہوں نے عرض کی : میں بچوں والی ہوں اور آپ ﷺ کی خدمت میں معذرت پیش کی تو آپ نے ان کی معذرت قبول کی لی۔ ان میں سے ایک ضباعہ بنت عامر بھی تھی۔ ان میں سے ایک صفیہ بنت بشامہ بن نضلہ تھی، نبی کریم ﷺ نے انہیں دعوت نکاح دی ان کو حضور ﷺ نے گرفتار کیا نبی کریم ﷺ نے انہیں اختیار دیا۔ فرمایا : ” اگر تو میرے پاس رہنا چاہے تو میرے پاس رہے اور اگر تو چاہے تو اپنے خاوند کے پاس چلی جا ؟ (
1
) “ اس نے عرض کی : میں اپنے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بھیج دیا۔ بنو تمیم نے اس پر لعن طعن کیا ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ ان میں سے ایک ام شریک تھی۔ جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ ان میں سے ایک لیلی بنت خطیم تھی اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ ان میں سے ایک خولہ بنت حکیم بن امیہ تھی اس نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ہبہ کیا۔ حضور ﷺ نے اس معاملہ کو موخر کردیا تو اس نے حضرت عثمان بن مظعون سے شادی کرلی۔ ان میں سے ایک جمرہ بنت حارث بن عوف مری ہیں نبی کریم ﷺ نے انہیں دعوت نکاح دی تو اس کے باپ نے کہا : اس میں بیماری ہے جب کہ اس میں بیماری نہیں تھی اس کا باپ اس کے پاس واپس آیا تو وہ برص کی بیماری میں مبتلا ہوچکی تھی۔ یہ شبیب بن برصاء شاعر کی ماں تھی۔ ان میں سے سودہ قرشیہ تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے دعوت نکاح دی یہ بچوں والی تھی اس نے عرض کی : مجھے ڈر آتا ہے کہ میرے بچے آپ کے سر کے پاس شور کریں گے۔ حضور ﷺ نے اس کی تعریف کی اور اس کے حق میں دعا کی۔ ان میں سے ایک عورت ایسی تھی جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ مجاہد نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو دعوت نکاح دی اس نے عرض کی : میں اپنے باپ سے مشورہ کروں گی۔ وہ اپنے باپ سے ملی تو باپ نے اجازت دے دی وہ رسول اللہ ﷺ سے ملی تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : قد التحفنالحافنا غیرک (
2
) ہم نے تیرے سوا کوئی اور لحاف اپنا لیا ہے۔ نکاح کا ارادہ ترک کرنے سے کنایہ ہے۔ یہ سب نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات ہیں۔ لونڈیوں میں سے دو لونڈیاں تھیں : (
1
) حضرت ماریہ قبطیہ، حضرت ریحانہ، یہ قتادہ کا قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : چار لونڈیاں تھیں حضرت ماریہ، حضرت ریحانہ، جمیلہ جو آپ نے قیدیوں میں سے پائی۔ ایک لونڈی جو حضرت زینب بنت جحش نے آپ کو پیش کی۔ مسئلہ نمبر
3
۔ آیت ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا، ان شرطیہ ہے اس کا جواب فتعالین ہے۔ تخییر کو شرط کے ساتھ معلق کیا۔ یہ کلام اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تخییر اور طلاق جو شرط پر معلق کی جائیں تو دونوں صحیح ہوں گی، وہ دونوں نافذ ہوں گی اور ان کا حکم جاری ہوجائے گا۔ جاہل اور بدعتی اس کی مخالفت کرتے ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ ایک مرد جب اپنی بیوی سے کہے : انت طالق اذا دخلت الدار اگر بیوی گھر میں داخل ہو بھی جائے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، کیونکہ طلاق شرعی وہ ہوتی ہے جو فی الحال نافذ ہوجائے اس کے علاوہ کوئی طلاق نہیں۔ مسئلہ نمبر
4
۔ آیت فتعالین یہ جواب شرط ہے۔ یہ بہت سی عورتوں کا فعل ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یہ امر کی طرف متوجہ کرنے کے لیے دعوت ہے۔ یہ کہا جاتا ہے : تعال یہ اقبل کے معنی میں ہے۔ اس کے لیے وضع کیا گیا ہے جس کے لیے جلالت اور رفعت ہو۔ پھر یہ لفظ ہر اس بلانے والے کے لیے استعمال ہونے لگا جو کسی کی توجہ چاہتا ہو۔ جہاں تک اس محل کا تعلق ہے تو یہ اپنی اصل پر ہے کیونکہ داعی رسول اللہ ﷺ ہیں۔ آیت امتعکن سورة بقرہ میں متعہ کے بارے میں گفتگو گزرچکی ہے۔ اسے امتعکن عین کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اسی طرح اسرحکن حاء کے ضمہ کے ساتھ ہے یہ جملہ مستانفہ ہے۔ سراح جمیل سے مرادیہ ہے کہ اسے طلاق سنت دے دی جائے نہ اسے تکلیف دی جائے اور نہ اس کا حق روکا جائے۔ مسئلہ نمبر
5
۔ علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی بیویوں کو کس طرح اختیار دیا۔ (
1
) حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں اختیار دیا کہ وہ بیوی کی حیثیت سے باقی رہیں یا وہ طلاق لے لیں، تو انہوں نے بیوی کی حیثیت سے رہنے کو پسند کیا ؛ یہ قول حضرت عائشہ صدیقہ، مجاہد عکرمہ، شعبی، ابن شہاب اور ربیعہ کا تھا۔ ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جنہوں نے کہا : حضور ﷺ نے انہیں دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کا اختیار دیا۔ وہ دنیا کو پسند کریں تو حضور ﷺ ان سے جدائی اختیار کرلیں گے اگر وہ آخرت کو پسند کریں تو حضور ﷺ انہیں اپنے پاس روک لیں گے تاکہ ان کے لیے بھی مرتبہ بلند ہو جس طرح ان کے خاوند کا مرتبہ بلند ہے۔ حضور ﷺ نے انہیں طلاق میں اختیار نہیں دیا ؛ یہ قول حضرت حسن بصری اور قتادہ کا بھی ہے (
1
) ۔ صحابہ میں سے حضرت علی شیر خدا ؓ کا قول ہے جس قول کو امام احمد بن حنبل نے ان سے روایت کیا ہے۔ کہا : رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو اختیا ردنیا اور آخرت کے بارے میں دیا۔ میں کہتا ہوں : پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول ہے جب ان سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو اختیار دیتا ہے تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اختیار دیا تھا، کیا وہ طلاق تھی (
2
) َ ؟ ایک روایت میں ہے کہ ہم نے حضور ﷺ کی اختیار کیا تو حضور ﷺ نے اسے طلاق شمار نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ سے تخییر ثابت نہیں جس کا آپ کو حکم دیا گیا وہ نکاح کی بقا اور طلاق کے درمیاں اختیار تھا، اسی وجہ سے فرمایا : ” اے عائشہ ! میں تیرے سامنے ایک ایسے امر کا ذکر کرنے والا ہوں تجھ پر کوئی حرج نہیں کہ تو اس میں جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلے “ (
3
) ۔ اس سے یہ معلوم ہے کہ حضور ﷺ نے دنیا اور اس کی زینت کو آخرت پر ترجیح دینے کے حوالے سے مشورہ کا ارادہ نہیں کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ فرقت اور نکاح کے بارے میں ہونا تھا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر
6
۔ علماء نے اس عورت کے بارے میں اختلاف کیا ہے جس کو اختیار دیا گیا تھا تو اس نے خاوند کو اختیار کیا۔ سلف صالحین میں سے جمہور علماء، دوسرے علماء اور ائمہ فتاوی نے کہا : اسے طلاق لازم نہیں ہوئی۔ نہ ایک نہ زیادہ ؛ یہ حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول ہے تابعین میں سے علماء، مسروق، سلیمان بن یسار، ربیعہ اور ابن شہاب کا قول ہے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ اور حضرت زید سے یہ بھی مروی ہے اگر اس نے اپنے خاوند کو اختیار کیا تو ایک طلاق بائنہ ہوگی ؛ یہ حضرت حسن بصری اور لیث کا قول ہے۔ خطابی اور نقاش نے اسے امام مالک سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے اس سے استدلال کیا ہے کہ اس کا قول : اختاری طلاق واقع کرنے سے کنایہ ہے۔ جب اس نے اس کی نسبت عورت کی طرف کی تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ جس طرح اس کا کہنا : انت بائن صحیح پہلا قول ہے کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول ہے : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اختیار دیا (
1
) ۔ تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کو اختیار کیا تو حضور ﷺ نے اسے طلاق شمار نہ کیا۔ صحیحین نے اسے نقل کیا ہے۔ ابن منذر نے کہا : حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ وہ عورت جس کو اختیار دیا گیا تھا جب وہ اپنے خاوند کو اختیار کرلے تو وہ طلاق نہ ہوگی، اور اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو اختیار کرلے تو اسے طلاق ہوجائے گی خاوند رجوع کا مالک ہوگا، کیونکہ یہ جائز نہیں کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر طلاق دیں ؛ یہ قول حضرت عمر، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ ابن ابی لیلی، ثوری اور امام شافعی کا بھی یہی نقطہ نظر ہے۔ ابن خویذ منداد نے امام مالک سے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔ حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ جب عورت نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا تو اسے تین طلاقیں ہوجائیں گی، یہ حضرت حسن کا قول ہے، امام مالک اور لیث کا بھی یہی قول ہے کیونکہ ملکیت تو اسی طرح عورت کو حاصل ہوتی ہے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ سے مروی ہے : جب عورت اپنے آپ کو اختیار کرے تو کچھ بھی واقع نہ ہوگا (
2
) ۔ ان سے یہ بھی مروی ہے : جب وہ اپنے خاوند کو اختیار کرے تو اسے طلاق رجعیہ واقع ہوگی (
3
) ۔ مسئلہ نمبر
7
۔ مدینہ طیبہ کی ایک جماعت اور دوسرے علماء اس طرف گئے ہیں کہ تملیک اور تخییر برابر ہیں۔ دونوں میں فیصلہ ایک ہی ہوگا ٰٗ ٰٗ ٰٗ ٰٰٗٗٗ ؛ یہ عبدالعزیز بن سلمہ کا قول ہے۔ ابن شعبان نے کہا : یہ ہمارے اصحاب میں سے کثیر لوگوں کا نقطہ نظر ہے۔ یہی اہل مدینہ کی ایک جماعت کا قول ہے۔ ابو عمرو نے کہا : اکثر فقہاء کی یہی رائے ہے۔ امام مالک کا مشہور مذہب یہ ہے کہ آپ دونوں میں فرق کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالک کے نزدیک تملیک یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو کہتا ہے : قد ملکتک مطلب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک، دو یا تین طلاق کا اختیار دیا ہے میں تجھے اس کا مالک بناتا ہوں۔ جب یہ جائز ہے کہ وہ اسے بعض کا مالک اور بعض کا مالک نہ بنائے اور اس وہ کا دعوی بھی کرے تو جب وہ عورت کے ساتھ جھگڑا کرے تو قسم کے ساتھ قول اس کا معتبر ہوگا۔ اہل مدینہ میں سے ایک طائفہ نے کہا : خاوند کو تملیک اور تخییر میں جھگڑا کرنے کا برابر حق ہے جب کہ وہ عورت مدخول بھا ہو ؛ پہلا قول امام مالک کا مشہور قول ہے۔ ابن خویز منداد نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے کہ خا وند کو حق حاصل ہے کہ تین طلاقوں میں مخیرہ عورت سے جھگڑا کرے یہ ایک طلاق بائنہ ہوگی، جس طرح امام ابوحنیفہ نے کہا ؛ ابو جہم نے بھی یہی کہا ہے۔ سخنون نے کہا : یہی ہمارے اکثر اصحاب کا نقطہ نظر ہے۔ امام مالک کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ عورت جس کو اختیار دیا گیا جب وہ اپنے آپ کو اختیار کرے اور اس کے ساتھ خاوند نے حقوق زوجیت ادا کیے ہوئے ہوں، تو اسے کلی طلاق ہوجائے گی۔ اگر خاوند اس کا انکار کرے تو اسے انکار کا کوئی حق نہ ہوگا۔ اگر وہ ایک طلاق کو اختیار کرے تو کچھ بھی نہ ہوگا۔ اختیار قطعی طلاق کا تھا چایے اپنا لے، چاہے ترک کردے، کیونکہ تخییر کا معنی تسریح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت تخییر میں فرمایا : آیت فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا تسریح کا معنی قطعی طلاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :۔ آیت الطلاق مرتنفامساک بمعروف او تسریح باحسان (البقرہ :
229
) تسریح باحسان سے مراد تیسری طلاق ہے ؛ نبی کریم ﷺ یہی مروی ہے، جس طرح پہلے گزرا ہے معنی کے اعتبار سے اس کا قول : اختارینی یا اختاری نفسک تقاضا کرتا ہے کہ جب عورت اپنے آپ کو اختیار کرلے تو خاوند کو اس پر کوئی حق نہ ہو اور خاوند اس سے کسی چیز کا مالک نہ ہو، کیونکہ خاوند نے معاملہ اس کے سپرد کردیا ہے کہ خاوند اس کے بارے میں جس چیز کا مالک ہے اس سے نکل جائے یا وہ عورت اسی کے ساتھ رہے جب وہ اپنے خاوند کو اختیار کرے۔ جب عورت نے طلاق میں سے بعض کو اختیار کیا تو اس نے لفظ کے مقتضی پر عمل نہ کیا۔ یہ اس کے قائم مقام ہوگیا جس کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو اس نے ان کے علاوہ کسی اور چیز کو اختیار کیا۔ جہاں تک اس عورت کا تعلق ہے جس کے ساتھ اس نے دخول نہیں کیا تھا تو اسے تخییر اور تملیک میں اس کے ساتھ جھگڑا کا حق ہے جب وہ اپنے آپ کو ایک طلاق دے، کیونکہ وہ فی الحال جدا ہوجاتی ہے۔ مسئلہ نمبر
8
۔ امام مالک سے روایت میں اختلاف ہے کب تک اس کو اختیار ہوگا ؟ ایک دفعہ کہا : اسے مجلس میں اس وقت تک خیار ہوگا جب تک وہ اس سے نہ اٹھے اور ایسے کام میں مشغول نہ ہو جو اعراض پر دلالت کرے اگر اس نے اختیار کو نہ اپنایا اور کوئی فیصلہ نہ کیا یہاں تک کہ وہ مجلس میں جدا ہوگئے تو اسے جو اختیار دیا گیا تھا وہ باطل ہوجائے گا ؛ یہ اکثر فقہاء کا نقطہ نظر ہے۔ ایک دفعہ فرمایا : اسے ہمیشہ کے لیے اختیار ہوگا، جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے اختیار کو ترک کردیا ہے اس کا ترک اس طرح معلوم ہوتا ہے تو وہ خاوند کو وطی اور مباشرت کا موقع دے۔ اس تعبیر کی بنا پر اگر وہ اپنے آپ کو خاوند سے روکے اور کسی شی کو اختیار نہ کرے تو خاوند کو حق حاصل ہوگا کہ وہ حاکم کے پاس معاملہ لے جائے کہ وہ عورت اس اختیار کو واقع کرے یا اس کو ساقط کرے اگر وہ عورت ایسا کرنے سے انکار کر دے تو حاکم اس کی تملیک کو ساقط کر دے گا۔ پہلے قول کی بنا پر جب وہ اس کے علاوہ کسی اور کام میں شروع ہوگئی جیسے کسی بات میں، کسی عمل میں یا وہ چل پڑی یا ایسے کام میں شروع ہوگئی جس کا تخییر سے کوئی تعلق نہ تھا، جس طرح ہم نے ذکر کیا تو اس کی تخییر ساقط ہوجائے گی۔ اس قول کے قائل ہمارے بعض اصحاب نے اس آیت سے استدلال کیا ہے : فلا تقعدو معھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ ( النساء :
140
) ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ خاوند نے اس کے لیے قول مطلق کیا تھا تاکہ عورت کی جانب سے پسند سامنے آئے، تو یہ اس طرح ہوگیا جس طرح دونوں کے درمیاں عقد ہوتا ہے۔ اگر قبول کرے تو ٹھیک ورنہ وہ ساقط ہوجائے گا۔ جس طرح کوئی کہتا ہے : قد وھبت لک یا بایعتک اگر وہ قبول کرلے تو ٹھیک ورنہ ملکیت اپنی جگہ باقی رہے گی ؛ یہ ثوری، کو فیوں، اوزاعی۔ لیث، شافعی اور ابو ثور کا قول ہے، یہ ابن قاسم کا ختیار ہے دوسری روایت کی دلیل یہ ہے کہ یہ امر عورت کے قبضہ میں ہوگیا اور خاوند کے مالک بنانے کی وجہ سے عورت اس کی مالک بن گئی جب عورت اس کی مالک بن گئی تو ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں باقی رہے جس طرح اس کے خاوند کے ہاتھ میں یہ رد باقی تھا۔ میں کہتا ہوں : یہ ہی صحیح ہے کیونکہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا : ” میں تجھ سے ایسے امر کا ذکر کرنے والا ہوں تجھ پر کوئی حرج نہیں ہوگا کہ تو اس میں جلدی نہ کرے یہاں تک کہ تو اپنے والدین سے مشورہ کرلے “ (
1
) ۔ اسے صحیح نے روایت کیا ہے۔ امام بخاری نے اسے نقل کیا ہے۔ امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ باب کے شروع میں یہ بحث گزرچکی ہے۔ یہ اس کے لیے حجت ہے جو یہ کہے : جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اختیار دے یا اسے مالک بنائے تو عورت کو حق حاصل ہوگا کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کرے اگرچہ وہ مجلس سے جدا ہوجائیں، یہ حضرت حسن بصری اور زہری سے مروی ہے۔ امام مالک نے اپنی دو روایتوں میں سے ایک میں کہا : ابو عبید نے کہا : اس باب میں ہمارے نزدیک یہ ہے اس حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے معاملہ ہی کی پیروی سنت کی اتباع ہے۔ جب حضور ﷺ نے ان کے اختیار کو یوں بنایا تو وہ اپنے والدین سے مشورہ کریں اور ہم نے مجلس سے اٹھنے کو اختیار سے نکلنا شمار نہیں کیا۔ مروزی نے کہا : میرے نزدیک یہ سب سے صحیح قول ہے : یہ ابن منذر اور طحاوی کا قول ہے۔
Top