Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینتوں کی طالب ہو تو آئو، میں تمہیں دے دلا کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں
4۔ آگے کا مضمون۔ آیات 28۔ 35 اوپر کے پیرے میں عام مسلمانوں کو اللہ اور رسول کی اطاعت پر مجتمع کرنے کے بعد آگے ازواج نبی ﷺ کو خطاب کرکے ان کو منافقین اور منافقات کے فتنوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین فرمائی ہے کہ ان کی کو ششیہ ہے کہ ازواج نبی ؓ کے دلوں میں بھی طلب دنیا کی بیماری پیدا کریں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی رفاقت کے لئے اس لئے چنا ہے کہ وہ اس کتاب و حکمت کی تعلیم کا ذریعہ نہیں جو اللہ کے رسول سے انہیں حاصل ہو رہی ہے۔ اللہ کے ہاں ان کا مرتبہ بہت اونچا ہے اگر انہوں نے اپنے فریضہ منصبی کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ اسی طرح ان کے لئے سزا بھی بہت ہی سخت ہے اگر ان سے کوئی جرم صادر ہوا…اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ 5۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدارالاخرۃ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجرا عظیما (28۔ 29) ہمارے مفسرین نے ان آیات کا پس منظر یہ بتایا ہے فتح خیبر کے بعد جب مسلمانوں کو فی الجملہ معاشی کشادگی حاصل ہوئی تو آنحضرت ﷺ کی ازواج نے بھی آپ سے مطالبہ کیا کہ ان کو بھی زندگی کی راحتوں اور زینتوں سے متمتع ہونے کا موقع دیا جائے۔ ان کے اس مطالبہ پر بطور عتاب یہ آیات نازل ہوئیں۔ ہمارے نزدیک کئی پہلوئوں سے یہ بات نہایت کمزور ہے۔ اول تو قرینہ دلیل ہے کہ یہاں جن حالات پر تبصرہ ہو رہا ہے وہ ہجرت کے چوتھے یا پانچویں سال سے تعلق رکھنے والے ہیں اور غزوہ خندق اور بنو قریضہ کے حالت زیر بحث آئے ہیں آگے حضرت زید ؓ اور حضرت زینب ؓ کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ان تمام واقعات کا تعلق 5 ھ؁ سے ہے۔ خیبر ابھی فتح نہیں ہوا تھا۔ اوپر آیات 67 کیا لفاظ اور ضا لم تطئوھا کے تحت خود مفسرین ہی نے یہ تصریح کی ہے کہ یہ فتح خیبر کی پیشگی بشارت ہے۔ دوسرا یہ کہ مطالبہ اگر مجرد نان نفقہ میں فی الجملہ توسیع کے لئے تھا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس پر ان کو یہ نوٹس دے دیا جائے کہ ان کو دے دلا کر ہمیشہ کے لئے رخصت کردیا جائے۔ اس طرح کی بات پر اول تو کسی تنبیہ کیسزاوار ہی نہیں تھیں اور اگر تمہیں بھی تو زیادہ سے زیادہ اس نصیحت کی مستحق تھیں کہ نبی کی معیت مطلوب ہے تو انہیں صبرو قناعت کی زندگی اختیار کرنی پڑے گی۔ تیسرا یہ کہ امہات المومنین ؓ کے متعلق یہ سوء ظن نہیں کیا جاسکتا کہ ان پر دنیا کی راحتوں اور زنیتوں کا شوق کسی دور میں اتنا غالب آگیا ہو کہ وہ اس کا مطالبہ لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ہوں اور معاملہ اتنا سنگین ہوگیا ہو کہ خود اللہ تعالیٰ کو اس میں مداخلت کرنی پڑی ہو اور نوبت اس نوٹس تک پہنچ گئی ہو جو ان آیات میں ان کو دیا گیا۔ بہرحال یہ شان نزول ہمارے نزدیک قابل توجہ نہیں ہے۔ نہ آیت کے الفاظ سے اس کی تائید ہوتی ہے، نہ وقت کے حالات سے۔ ہم یہاں اس سورة کی روشنی میں وقت کے بعض خاص حالات کی طرف اشارہ کریں گے جن سے ان آیات کا صحیح موقع و محل سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس پوری سورة پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں منافقین کی ریشہ دوانیاں جس طرح عام مسلمانوں کو اسلام اور نبی ﷺ سے بدگمان و برگشتہ کرنے کے لئے بہت بڑھ گئی تھیں اسی طرح منافقات کے ذریعے سے انہوں نے آنحضرت ﷺ کی گھریلو زندگی کے سکون کو درہم برہم کرنے کے لئے بھی بڑی خطرناک مہم چلا رکھی تھی۔ منافق عورتیں امہات المومنین ؓ کے گھروں میں جاتیں اور نہایت ہمدردانہ انداز میں ان سے کہیتیں کہ آپ لوگ شریف اور معزز گھرانوں کی بٹیاں ہیں لیکن آپ لوگوں کی زندگی ہر راحت و لذت سے محروم، بالکل قیدیوں کی طرح گزر رہی ہے۔ اگر آپ دوسرے گھروں میں ہوتیں تو آپ کی زندگی بیگمات کی طرح نہایت عیش و آرام اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ گزرتی۔ ساتھ ہی وہ یہ وسوسہ اندازی بھی کرتیں کہ اگر یہ (محمد ﷺ آپ کو طلاق دے دیں تو بڑے بڑے رئیس اور سردار آپ لوگوں سے نکاح کریں گے اور آپ لوگوں کی زندگیاں قابل رشک ہوجائیں گی۔ آگے کی آیات سے یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ منافقین کو بھی جب کبھی نبی ﷺ کے گھروں میں جانے اور آپ کی ازواج مطہرات سے بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر انکے اندر کچھ نہ کچھ وسوسہ اندازی کی ضرور کوشش کرتے۔ ان کوششوں سے ان کا اصلی مقصد تو آنحضرت ﷺ کی گھریلو زندگی کے اندر کوئی اس طرح کا فتنہ کھڑا کرنا تھا جس طرح کا فتنہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے متعلق کھڑا کردیا تھا، جس کی تفصیلات سورة نور میں آپ پڑھ چکے ہیں، ورنہ ادنیٰ درجے میں یہ فائدہ تو ان کو بد یہی طور پر نظر آتا تھا کہ اس سے ازواج نبی ؓ کے اندر بےاطمینانی پیدا ہوگی اور کیا عجب کہ اس طرح کوئی ایسی شکل نکل آئے کہ وہ آپ کی ازواج کے ساتھ نکاح کرنے کا جو مذموم ارادہ رکھتے ہیں وہ پورا ہوجائے۔ منافقین و منافقات کی ان چالوں سے اگر یہ امہات المومنین ؓ بالکل بیخبر نہیں تھیں، بعض تلخ تجربے ان کو ہوچکے تھے، لیکن شریف، کریم النفس اور باحیا لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص ان کے سامنے اگر ہمدردی و خیر خواہی کے انداز میں بات کرتا ہے تو وہ اس کے کھوٹ سے واقف ہوتے ہوئے بھی، اس کو جواب نرمی ہی سے دیتے ہں۔ امہات المومنین ؓ بھی اپنی کریم النفسی کے سبب سے ان لوگوں کو نرمی ہی سے جواب دیتیں جس سے یہ کمینے لوگ اس طمع خام میں مبتلا ہوجاتے کہ ان کا پروپیگنڈا کامیاب ہو رہا ہے اور وہ بہت جلد اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ حالات تھے جن میں یہ آیات اتری ہیں۔ ان میں جو باتیں فرمائی گئی ہیں ان کو سنانا تو مقصود ہے دراصل ان منافقین اور منافقات کو جن کو ریشہ دوانیوں کے تاروپودا ان میں بکھیرے گئے ہیں، لیکن وہ پس پردہ تھے اس وجہ سے قرآن نے ان کو مخاطب کرنے کے بجائے نبی ﷺ اور ازواجِ نبی ؓ کو مخاطب کرکے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا۔ یہاں بلاغتِ کلام کے اس اسلوب کو یاد رکھیے کہ بسا اوقات ظاہر الفاظ کے اعتبار سے کلام میں خطاب کسی سے ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی عتاب مضمع ہوتا ہے تو اس کا رخ کسی اور طرف ہوتا ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھ کر اب آیات کے مفہوم پر غور کیجئے۔ نبی ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا کہ اے نبی ! تم اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کے عیش اور اس کی زینتوں کی طالب ہو تو آئو، میں تمہیں دے دلا کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں اور اگر تم اللہ، اس کے رسول اور دار آخرت کی کامرانیوں کی طالب ہو تو یاد رکھو کہ تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے والی اور آخرت کی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر پہنچانے والی ہوں گی، اللہ نے ان کے لئے جو اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے آزادی کا یہ اختیار نامہ ازواجِ مطہرات کے سامنے رکھ دیا اور سب سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے سامنے رکھا جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ آپ ﷺ نے ان کو یہ ہدایت بھی فرمائی کہ وہ اس کے جواب میں جلدی نہ کریں بلکہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کرلیں، اس کے بعد جواب دیں۔ لیکن حضرت صدیقہ ؓ نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا کہ مجھے اس معاملے میں کسی کے مشورے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں ! منافقین نے سب سے زیادہ جادو تو انہی پر چلانے کی کوشش کی ہوگی، جب ان کا جواب ان کی تمام توقعات پر پانی پھیر دینے والا ثابت ہوا تو تابہ و دیگراں چہ رسدً اس طرح قرآن نے ایک طرف تو منافقین کی ان ریشہ دوانیوں کا ہمیشہ کے لئے سدِ باب کردیا جو وہ ازواج مطہرات کے درمیان کر رہے تھے دوسری طرف اس امتحان کے ذریعے سے یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ ازواج مطہرات ؓ ، سب بلا استثناء اللہ و رسول اور آخرت کی طالب تھیں۔ اسی چیز نے ان کو اللہ کے رسول کے ساتھ وابستہ کیا تھا اور یہ وابستگی اتنی مستحکم تھی کہ اس نیا کی کوئی طمع اس کو توڑ نہیں سکتی تھی۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ ان آیات میں ازواج مطہرات ؓ پر دنیا طلبی کے جرم میں کوئی عتاب نہیں ہوا ہے، جیسا کہ لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ یہ اللہ و رسول کی طرف سے ان کو آزادی کا پروانہ دے کر ان کے اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کرایا گیا تاکہ ان منافقین کے حوصلے ہمیشہ کے لئے پست ہوجائیں جو اس طمع خام میں مبتلا تھے کہ ازواج نبی ؓ کو دنیا کی کسی طمع کے پھندے میں پھنسا کر اپنی طف مائل کیا جاسکتا ہے۔ اس اعلانِ تخیر کے بعد گویا ہر ایک کو حوصلہ آزمائی کا موقع دے دیا گیا لیکن سب پر ثابت ہوگیا کہ اہل بیت رسالت کا انتخاب خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس حرم کے اندر کسی کے لئے کسی دراندازی کی گنجائش نہیں ہے۔ ’ وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرہ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجرا عظیما۔ لفظ ’ احسان ‘ یہاں حسن و خوبی اور اخلاص دراستبازی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے حقوق اور طلب آخرت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اس آیت میں کچھ مضمون مخدوف ہے جس پر اس کا اسلوب بیان دلیل ہے۔ اس اسلوب کا پورا حق ادا کیجئے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی طالب اور دار آخرت کی کامرانیاں چاہنے والی ہو تو نہایت خوبی اور مستعدی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور طلب آخرت کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں سرگرم رہو اور یہ اطمینان رکھو کہ تم میں سے جو ان حقوق و فرائض کو ’ احسان ‘ کے ساتھ ادا کرنے والی ہوں گی اللہ نے ان کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ اس سے ضمناً یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ ازواجِ نبی ؓ کے لئے بھی مجرد نبی ﷺ کے ساتھ نسبت کوئی کام آنے والی چیز نہیں ہے بلکہ اصل چیز عمل و اطاعت ہے اور عمل و اطاعت بھی ’ احسان ‘ کے ساتھ۔
Top