Tafseer-e-Haqqani - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
پھر آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے جیسے نہ ہوجائیں جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا اور وہ بہت ہی غمگین تھا۔
ترکیب : اذا العامل فیھا معنی قولہ کصاحب الحوت یرید لاتکن کصاحب الحوت حال ندائہ وذلک لانہ فی ذلک الوقت کان مکظومافکانہ قیل لاتکن مکظوماً ۔ وھومکظوم الجملۃ حال من ضمیر نادٰی وعلیھا یدور النھی لاعلی النداء لانہ امرمستحسن۔ تدارک فعل ماض مذکر حمل علی معنی النعمۃ لان تانیث النعمۃ غیرحقیقی موصوف من ربہ صفۃ والمجموع فاعل تدارک والضمیر فی تدار کہ مفعولہ۔ ھذاقراۃ الجمہور وقریٔ بتشدید الدال تدار کہ وھو مضارع ادغمت التاء فی الدال والاصل تتدارک بتائین وقریٔ تدارکۃً بتاء التانیث لنبذ جواب لولا تقدیر الآیۃ لولاھذہ النعمۃ لنبذبالعرا مع وصف المذمومیۃ فلما حصلت ھذہ لنعمۃ لم یوجد النبذ بالعراء مع ھذا الوصف لانہ لمافقد ھذا الوصف فقد المجموع وانھی المخففۃ من المثقلۃ واللام فی لیزلقونک دلیل علیھا۔ قراء الجمہور بضم الیاء وقراء نافع و اہل المدینۃ بفتحھا والاول من ازلق والثانی من زلق ومعناھماواحد وھوالتنحی من موضع (لغزش) بابصارھم والباء اماللتعدیۃ واماللسبببیۃ لماسمعوا الذکر ولماظرفیۃ منصوبۃ بیزلقونک وقیلھی حرف وجوابھا محذوف ای لماسمعوا الذکر کادوایز لقونک وما ھو الخ الجملۃ مستانفۃ اوفی محل نصب علی الحال من فاعل یقولون ای والحال انہ تذکیر۔ تفسیر : کفار کے طریق کی مذمت بیان فرما کر آنحضرت ﷺ کو صبرواستقلال کی تاکید کرتا ہے اور ضمناً ایک نبی کی جلدبازی پر عتاب ہونے کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔ فقال فاصبر لحکم ربک ولاتکن کصاحب الحوت کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کر کہ انجام ان کفار کا کیا ہوتا ہے۔ ان پر عذاب آنے کے لیے جلدی نہ کر جیسا کہ مچھلی والے نے کی تھی یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) نے ان کا نام نہ لیا مچھلی والا کہہ کر یہ بتا دیا کہ اس جلدبازی کا نتیجہ مچھلی کے پیٹ میں جانا ہوا۔ پھر حضرت یونس (علیہ السلام) کا مختصراً تذکرہ کرتا ہے۔ اذنادٰی وھو مکظوم کہ اس نے اپنے رب کو مچھلی کے پیٹ میں پکارا، نہایت غم و الم کی حالت میں اور لا الٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین کہا (مکظوم مشتق ہے کظم سے جس کے معنی ہیں برتن کے بھر دینے کے کہتے ہیں کظم السقاء اذا ملائہ۔ جب رنج و غم سے بھر جاتا ہے تو اس کو بھی کا ظم کہتے ہیں اور مکظوم بھی اور اسی طرح غصے سے بھرے ہوئے کو بھی) ۔ فائدہ : ان کا قصہ کئی جگہ بیان ہوا چکا ہے کہ شہر نینوا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ فلاں روز تم پر عذاب آئے گا۔ لوگوں نے یقین کر کے رونا اور توبہ کرنا شروع کیا جس لیے وہ آتا ہوا عذاب ان سے ٹل گیا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو غصہ ہوا کہ میں جھوٹا ہوا اس لیے نینوٰی شہر چھوڑ کر کہیں کو چل دیے۔ ایک کشتی پر سوار ہوئے، دریا میں ڈالے گئے، مچھلی نے لقمہ کرلیا اس لیے پیٹ میں آپ نے پھر اپنے رب کو پکارا تو مچھلی نے ایک کنارے پر جا کر اگل دیا۔ اللہ نے وہاں کدو کے پتوں سے ان پر سایہ کیا اور پھر ان کو سمجھایا کہ ہم کو اپنی مخلوق پر رحم ہے ہم ایسا جلد انہیں کیونکر ہلاک کردیتے ؟ پھر خدائے پاک میں اور ان میں مصالحت و صفائی 1 ؎ ہوئی اور شہر نینویٰ کی طرف بھیجے گئے۔ اس بات کو مجملاً بیان فرماتا ہے۔ لولا ان تدار کہ۔ کہ اگر رحمت الٰہی اس کے لیے دستگیر نہ ہوتی تو میدان میں مچھلی کے پیٹ سے برے حال میں ڈالے جاتے یا وہیں مرجاتے۔ پھر قیامت کے دن میدان میں برے حال میں لائے جاتے مگر اس کو اللہ نے برگزیدہ کرلیا یعنی نواز دیا۔ اس سے درگز کی اور پھر نینویٰ کی طرف بھیجا پھر وہ بہت صلاحیت پر آگیا، وہ تیزی جاتی رہی (ورنہ نیک تو پہلے سے تھے کس لئے) نبی تھے اور اجتباء کے معنی بھی یہی ہیں کہ ان کو نوازا۔ ان کی جلدبازی سے درگزر گیا پھر اسی نبوت کے کام پر بھیجے گئے کس لیے کہ وہ اول سے نبی تھے یہ نہیں کہ بعد میں ہوئے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا حال بیان فرما کر پھر آپ کی وہ حالت بیان فرماتے ہیں کہ جو قوم کے ہاتھوں پیش آرہی تھی اور جس سے آپ کا جلدی کرنا اور یونس (علیہ السلام) کی طرح دل میں پیچ و تاب لانا ممکن تھا۔ فقال وان یکادالذین کفروا لیز لقونک بابصارھم لماسمعوا الذکر۔ کہ تحقیق نزدیک تر تھا کہ کافر تجھ کو اپنی آنکھوں سے ڈگمگا دیں، صبر و استقلال کے مقام سے کہ ان کی تیز تیز نگاہیں دیکھ کر آپ کو بھی غصہ آجائے اور مضطرب ہو کر یونس (علیہ السلام) کی طرح قبل از وقت ان کے لیے دعائے بد کریں اور نزول عذاب کے منتظر ہوجائیں اور یہ کب کرتے ہیں۔ لماسمعوا الذکر جبکہ قرآن مجید سنتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ عین نصیحت کے وقت جو سراسر خیرخواہی کا وقت ہوتا ہے، ایسی سخت مخالفت ناصح کو جوش میں لے آتی ہے اور یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے جو حضرت ﷺ کا نہایت محبوب تھا اور اپنی برائی سننے سے اس قدر غصہ نہیں آتا جس قدر کہ محبوب کی تحقیر سن کر آتا ہے۔ یہ ان کی ایک بات ہے جو آنکھوں سے متعلق ہے اس پر بس نہیں کرتے بلکہ زبان سے بھی برا بھلا کہتے ہیں۔ ویقولون انہ لمجنون۔ اور کہتے ہیں تحقیق یہ شخص یعنی محمد ﷺ دیوانہ ہے۔ حالانکہ کوئی جنون اور دیوانگی کی بات آپ میں یا آپ کے کلام میں نہیں پاتے۔ کس لیے کہ جو کلام کہ آپ لوگوں کو سناتے ہیں وما ھوا الاذکر للعالمین۔ وہ نہ صرف ایک قوم یا ایک ملک یا ایک خاندان کے لیے نافع اور سودمند ہے بلکہ تمام جہان کے لئے۔ کس لیے کہ اس عہد میں تمام جہان بت پرستی و بدکاری کی نجاست میں آلودہ تھا اور قرآن مجید میں تمام نجاستوں کو دور کرنے والی چیز ہے۔ اس کے علاوہ مکارم اخلاق و اصول حسنات و ارکان سعادت دارین کے زیور اور لباس سے مزین کرنے والی بھی ہے۔ پھر جب ایک قوم یا ایک شخص کو نصیحت وسعادت سکھانے والے کو مجنون نہیں کہا جاتا تھا تو تمام جہان کے ناصح اور مسلّم سعادت کو کیونکر دیوانہ کہہ دیا اور وہ کیونکر دیوانہ ہوسکتا ہے۔ ا ؎ معاذاللہ حضرت یونس (علیہ السلام) خدائے پاک پر کیا غصہ ہوتے اور کون اس سے لڑجھگڑ سکتا ہے مگر اس کے خاصوں میں اور اس میں محبت کے گلے اور شکایات اور رنج و غصہ بھی ہوا کرتے ہیں اس حالت کا مبدل ہونا باہمی صلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس بات سے کوئی حضرت یونس (علیہ السلام) پر طعن نہ کرے اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا ہے مجھے یونس ( علیہ السلام) پر تفضیل نہ دو اس سے یہی غرض ہے ورنہ آپ کو جمیع انبیاء (علیہم السلام) پر خدا نے فضیلت دی ہے یہ آپ کی کسرنفسی اور دوسرے نبی کی توقیر ہے یہ نہیں کہ اپنے سے تمام اگلے انبیاء (علیہم السلام) کو چور اور راہزن کہہ دیا جیسا کہ انجیل میں ہے۔ 12 منہ اکثر مفسرین لیزلقونک بابصارھم کے یہ بھی معنی بیان کرتے ہیں کہ وہ تیزتیز اور غصہ بھری نگاہوں سے آپ کو دیکھتے تھے اور اس سے آپ کو مقام صبرواستقلال سے پھسلانا چاہتے تھے اور کلام عرب میں اس قسم کی تیز اور غصہ بھری نگاہ کو گرا دینے والی، کھا لینے والی کہتے ہیں۔ من قولھم نظر اتی نظرًا یکادیصرعنی ویکادیاکلنی کہتے ہیں۔ ایسا دیکھتا ہے جیسا کہ مجھے کھا جائے گا یا گرا دے گا۔ ایک شعر میں یہ مضمون آیا ہے۔ یتقارضون اذا التقوا فی موطن نظر ایزل موطیٔ الاقدام اور ابن عباس ؓ نے بھی ایسے محل پر ایک شعر پڑھا ہے ؎ نظروا الی باعین محمّرۃٍ نظر التیوس الی شفار الجاذرً (کبیر) مگر اہل روایت کے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کفار مکہ نے دیکھا کہ آپ کی نبوت کے ابطال میں کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو بنی اسد کے قبیلے میں سے جو نظربد کے حق میں مشہور تھا ایک شخص کو لائے جو اس قبیلے میں بھی ممتاز تھا اور وہ جب تین روز بھوکا رہ کر کسی چیز کو دیکھتا اور یہ کہتا تھا کہ واہ کیا خوب ہے ! تو اس میں فوراً اثر ہوجاتا تھا۔ اس کو بہت کچھ طمع دی اور اس نے تین روز کا فاقہ کیا اور جہاں آپ قرآن مجید سنا رہے تھے وہاں گیا اور آپ کو دیکھ کر اسی نیت سے کہا، واہ کیا خوب شکل اور کیا خوب آواز ہے مگر آپ پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا اور اپنا سا منہ لے کر چلا آیا۔ ان آیات میں اسی قصے کی طرف اشارہ ہے۔ اب قابل بحث یہ بات ہے کہ آیا دراصل نظر میں کوئی ایسا اثر ہے کہ جس کو دیکھا جائے اس پر کوئی برا اثر پہنچے جس کو اصابۃ العین کہتے ہیں ؟ معتزلہ کہتے ہیں نہیں کس لیے کہ ایک جسم کا اثر دوسرے تک بغیر مماستہ کے پہنچ نہیں سکتا اور نظر میں یہ بات ہوتی نہیں۔ پھر محض تو ہم باطل ہے جس کا اثر متوہم کو محسوس ہوتا ہے اور توہمات کا اثر انسان پر محسوس ہونا بدیہی بات ہے۔ محققین قائل ہیں کہ اثر ہوتا ہے کہ علاوہ مماستہ اجسام کے نفوس میں بھی ایک خاص اثر ہے جس کو دوسرے نفوس قبول کرلیتے ہیں جس کی نظیر عمل مسمریزم ہے۔ روحانی اثر جسمانی اثر سے بڑے قوی ہوتے ہیں۔ روح طیبات کے آثار معجزات و کرامات ہیں۔ ارواح خبیثیہ کا اثر ویسا ہی خبیث ہوتا ہے۔ پھر اس اثر کی علت گفتگو ہے کوئی کہتا ہے نظر کرنے والے کی آنکھ میں اجزائے لحمیہ ہوتے ہیں جو شعاع بصری کے ساتھ نکل کر مرئی پر برا اثر کرتے ہیں مگر یہ ٹھیک نہیں۔ اب تک کوئی علت معین نہیں ہوئی ہے۔ احادیث سے بھی نظربد کا اثر ثابت ہوتا ہے۔ حضرت امام بصری (رح) فرماتے ہیں انہیں آیات وان یکاد الخ کا پڑھ کر دم کرنا بہت سریع الاثر علاج ہے۔ اور جس کی نظر بد کا اثر پہنچا ہے اس کے ہاتھ پائوں اعضاء دھلا کر پانی سے مریض نظر کو غسل دینا بھی عمدہ علاج ہے۔ کہیں نظر والے کے پائوں کی مٹی بھی لے کر آگ میں ڈالتے ہیں، کہیں سرخ مرچیں آگ میں جلاتے ہیں۔ ہندوستانی خیالات نے اس کو ازحد ترقی دی ہے۔ پھر کہیں نظر کے لیے گنڈا ڈالتے ہیں، کہیں فال کھولتے ہیں، کہیں سیاہ ٹیکے لگاتے ہیں اور کیا کیا کرتے ہیں۔ جاہل قوموں میں بقدر جہل اس کا زیادہ چرچہ ہے۔
Top