Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
پس آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجئے اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائیے ، جب اس نے پکارا اس حال میں کہ وہ غم و غصہ کو پینے والا تھا
آپ ﷺ اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجئے اور صاحب حوت کی طرح نہ ہوں 48 ؎ نبی نبی ہوتا ہے اگرچہ اس کو خود ہی اس بات کا علم نہ ہو کہ میں نبی ہونے والا ہوں۔ ہم پیچھے عرض کرچکے ہیں کہ ہم جب بھی کسی گزشتہ نبی و رسول کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے بچپنے کے حالات حریر کرتے ہوئے بھی اس کو نبی ہی لکھتے اور کہتے ہیں حالانکہ ایک دو کے سوا کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ہم ہونے والے نبی ہیں۔ اس لئے اس سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ کسی نبی کے نبوت کے پہلے کی زندگی کی کوئی بات کی جا رہی ہو تو وہ اس کی نبوت کے زمرہ میں نہیں آتی۔ یہ بات ہم نے اس لئے کہی ہے کہ صاحب حوت یعنی یونس (علیہ السلام) ابھی مبعوث نہیں ہوئے تھے لیکن چونکہ آپ ہونے والے نبی و رسول تھے اس لئے آپ کی زندگی دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) کی طرح بلاشبہ مثالی تھی اور نبوت ملنے سے پہلے ہی قوم کو وعظ و درس دیتے تھے اور برائیوں سے ان کو روکتے اور ٹوکتے تھے۔ آپ قوم کو سمجھاتے رہے لیکن قوم نے آپ کیا یک نہ مانی اور انجام کار آپ قوم کو چھوڑ کر نکل گئے ، ابھی زیادہ دور نہ گئے ہوں گے کہ حکومت وقت نے اپنی حکومت کے لوگوں کی کایا پلٹنے کے لئے ایسے انتظامات کئے جو یونس (علیہ السلام) کی دی گئی تعلیم کے بالکل مطابق تھے۔ قوم نے یونس (علیہ السلام) کی تلاش کی کہ شاید یہ آپ ہی کی تبلیغ وتعلیم کا اثر ہے اور حکومت نے آپ کی دی ہوئی تعلیم کی روشنی میں احکام عوام تک پہنچانے کا انتظام کیا ہے اس وقت اگر آپ موجود ہوتے تو بلاشبہ آپ کو خوشی ہوتی۔ یونس (علیہ السلام) نے اتنی جلدی کی کہ گھومنے نکلے اور دریا کے کنارے چلنے لگے جب ایک جگہ سے کشتی پر جو لوگ سوار ہوتے دیکھے تو انہوں نے دوڑنا بھاگنا شروع کردیا کہ جس طرح بھی ہو اس کشتی میں میں بھی سوار ہو جائوں۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح آپ بھی دوڑ بھاگ کر کشتی میں سوار ہوگئے لیکن کشتی اس وقت اتنی بھر چکی تھی کہ جسے کہا جاتا ہے کہ اس میں تل بھر بھی خالی جگہ نہیں تھی۔ بہرحال آپ جب سوار ہوئے تو آپ کو بھی کنارے پر بالکل ایسی جگہ بیٹھنے یا کھڑے ہونے کو جگہ ملی جہاں سے دریا میں گرنے کا بہت خطرہ تھا کہ آدمی ایسی جگہ کا ذہن میں خیال رکھے اور جب دریا میں جا رہا ہوں تو اس کے گرنے کا تصور ہی اس کو لے ڈوبے لیکن آپ نے کشتی میں سوار ہوتے ہی اس کی ذرہ بھر پرواہ نہ کرتے ہوئے کہ میں اس وقت کتنے نازک مقام پر کھڑا ہوں اٹھے اور کھڑے ہو کر وعظ کرنا شروع کردیا اور وعظ کی ابتدا ایسے پیرایہ میں کی کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کشتی والوں میں سے کسی شخص کو بھی گویا آپ کا خطاب نہیں بلکہ آپ خود بخود اپنی ذات کو وعظ کر رہے ہیں اور اگر کسی دوسرے کے ساتھ ہیں تو وہ ان لوگوں میں موجود نہیں۔ آپ نے وعظ شروع ہی کیا تھا کہ لوگوں نے آپ کو اس خطرناک مقام سے اٹھا کر ایک محفوظ جگہ پر کھڑا کردیا اور آپ کا انداز بیان ایسا انوکھا تھا کہ کسی آدمی نے آپ کے وعظ و نصتحد کو برا محسوس نہ کیا اور وقت پورا ہوگیا۔ لوگ کشتی سے اترنے لگے اور سب کے سب اتر گئے اور اپنی اپنی راہ لی لیکن یونس (علیہ السلام) کی تو کوئی منزل ہی نہ تھی وہ تو محض اتفاقاً نکل آئے تھے اور آتے ہی کشتی مل گئی ، سوار ہوگئے اور پھر دریا سے پار ہو کر آپ جاتے تو آخر کہاں ؟ لوگ چلے گئے اور آپ افسردہ خاطر پھر اس دریا کے کنارے چل پڑے کہ اچانک اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت و رسالت کے لئے منتخب کرلیا اور آپ کو اس قوم کی طرف مبعوث کیا گیا جس قوم کی طرف سے بھاگ کر نکل آئے تھے۔ اب حکم الٰہی پا کر یونس (علیہ السلام) دوبارہ اسی قوم کی طرف چلے اور ان کو جا کر تبلیغ شروع کی ، وہ لوگ تو پہلے ہی رام ہوچکے تھے اور آپ کی تلاش میں تھے۔ وہ یونس (علیہ السلام) کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اس طرح ایک وقت گزرنے کے بعد بعض پریشانیاں دیکھنے کے بعد آپ دوبارہ خوش و خرم وعظ و درس کا کام کرنے لگے۔ زیر نظر آیت میں یونس (علیہ السلام) کے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یونس (علیہ السلام) کی طرح جلدی سے کام نہ لیں بلکہ آہستہ آہستہ تبلیغ کا کام جاری رکھیں کیونکہ اس میں دیر ضرور لگتی ہے لیکن اندھیر نہیں ہوتا خصوصاً جب لوگ آپ کی تعلمازت کو نہ صرف یہ کہ نہیں مانتے بلکہ آپ کی مخالفت بھی کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس طرح انسان کا دل تنگ پڑتا ہے لیکن پھر بھی صبر و ثبات سے کام لینا ہی زیادہ مفید رہتا ہے۔
Top