Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
(مومنو !) کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے) قائل ہوجائیں گے (حالانکہ) ان میں سے کچھ لوگ کلام خدا (یعنی تورات) کو سنتے پھر اس کے بعد سمجھ لینے کے اس کو جان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں ؟
(75) اب یہود میں سے جو لوگ منافقین ہیں یا نچلے طبقہ کے لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور جماعت صحابہ ؓ سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے نبی پر ایمان لائے اور ان کی جو نشانیاں ہماری کتابوں میں درج ہیں اس کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور جب یہ نچلے طبقہ کے لوگ اپنے سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے سردار جب ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کے پاس وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری کتاب میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق اور آپ کے اوصاف کے متعلق بیان فرمائی ہیں تاکہ وہ تمہارے پروردگار کے سامنے تم سے جھگڑیں کیا تم سمجھ داری سے بالکل ہی عاری ہو ؟۔
Top