Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Anbiyaa : 41
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَ : اور لَقَدِ اسْتُهْزِئَ : البتہ مذاق اڑائی گئی بِرُسُلٍ : رسولوں کی مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے فَحَاقَ : آگھیرا (پکڑ لیا) بِالَّذِيْنَ : ان کو جنہوں نے سَخِرُوْا : مذاق اڑایا مِنْهُمْ : ان میں سے مَّا : جو كَانُوْا : تھے بِهٖ : اس کے ساتھ (کا) يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے تھے
اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ استہزاء ہوتا رہا ہے تو جو لوگ ان میں سے تمسخر کیا کرتے تھے ان کو اسی (عذاب) نے جس کی ہنسی اُڑاتے تھے آگھیرا
انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہیں جو ستایا جارہا ہے، مذاق میں اڑایا جاتا ہے اور جھوٹا کہا جاتا ہے اس پر پریشان نہ ہونا، کافروں کی یہ پرانی عادت ہے۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی انہوں یہی کیا جس کی وجہ سے آخرش عذابوں میں پھنس گئے۔ جیسے فرمان ہے آیت (وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ 34؀) 6۔ الانعام :34) ، تجھ سے پہلے کے انبیاء بھی جھٹلائے گئے اور انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی۔ اللہ کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آچکی ہیں۔ پھر اپنی نعمت بیان فرماتا ہے کہ وہ تم سب کی حفاظت دن رات اپنی ان آنکھوں سے کررہا ہے جو نہ کبھی تھکیں نہ سوئیں۔ من الرحمان کا معنی رحمان کے بدلے یعنی رحمان کے سوا ہیں عربی شعروں میں بھی من بدل کے معنی میں ہے۔ اسی ایک احسان پر کیا موقوف ہے یہ کفار تو اللہ کے ہر ایک احسان کی ناشکری کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کے منکر اور ان سے منہ پھیرنے والے ہیں ؟ یعنی وہ ایسا نہیں کرسکتے ان کا گمان یہ محض غلط ہے، بلکہ ان کے معبودان باطل خود اپنی حفاظت کے بھی مالک نہیں۔ بلکہ وہ ہم سے بچ بھی نہیں سکتے۔ ہماری جانب سے کوئی خبر ان کے ہاتھوں میں نہیں۔ ایک معنی اس جملے کے یہ بھی ہیں کہ نہ تو وہ کسی کو بچا سکیں نہ خود بچ سکیں۔
Top