Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ١ۚ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
اَوَلَمْ : کیا نہ يَهْدِ : ہدایت ملی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَرِثُوْنَ : وارث ہوئے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد اَهْلِهَآ : وہاں کے رہنے والے اَنْ : کہ لَّوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہتے اَصَبْنٰهُمْ : تو ہم ان پر مصیبت ڈالتے بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَنَطْبَعُ : اور ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے ہیں
کیا ان لوگوں کو جو اہل زمین کے مرجانے کے بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں ؟ اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ کچھ سن ہی نہ سکیں۔
آیت نمبر 100 تا 108 ترجمہ : اور کیا ان لوگوں پر کہ جو زمین کے سابق مالکان کی ہلاکت کے بعد سکونت کے اعتبار سے زمین کے وارث بنے یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کے گناہوں کے سبب عذاب میں پکڑ لیں أن مع اپنے مابعد (لونشاءُ ) کے یَھْدِ کا فاعل ہے اور أن مخففہ عن الثقیلہ ہے اور (أن) کا اسم محذوف ہے تقدیر عبارت أنَّہٗ ہے، جیسا کہ ہم نے ان سے پہلے والوں کو پکڑ لیا، ہمزہ چاروں جگہ توبیخ کیلئے ہے اور جو فاء اور واؤ اس پر داخل ہیں عطف کیلئے ہیں ایک قرأت میں واؤ کے سکون کے ساتھ ہے، پہلی جگہ اَوْ کے ذریعہ عطف کرتے ہوئے، اور ان کے دلوں پر مہر (بند) لگا دیں کہ وہ نصیحت کو غور و فکر کے خیال سے نہ سن سکیں اے محمد مذکورہ بستیوں کے باشندوں کے کچھ واقعات ہم آپ کو سنا رہے ہیں ان کے رسول ان کے پاس کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے مگر جس چیز کا پہلے انہوں نے انکار کردیا پھر وہ اس چیز کے پیش آنے کے بعد اس چیز کو ماننے والے نہیں تھے بلکہ وہ اس کا انکار ہی کرتے رہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے اور اکثر لوگوں میں ہم نے عہد کا (پاس) نہ پایا یعنی یوم میثاق کے عہد کی وفانہ پائی، اور ہم نے اکثر لوگوں کو حد سے تجاوز کرنے والا ہی پایا اِنْ مخففہ عن الثقیلہ ہے، مذکورہ رسول کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہماری نو نشانیاں دے کر فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا تو ان لوگوں نے ان کا انکار کیا تو دیکھئے، کفر کی وجہ سے ان مفسدوں کا کیسا انجام ہوا (یعنی) ان کی ہلاکت، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے فرعون میں رب العلمین کی طرف سے تیری طرف بھیجا ہوا ہوں مگر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، میرے لئے یہی مناسب ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں اور ایک قراءت میں عَلیٰ کے بجائے عَلَیَّ تشدید کے ساتھ ہے، اس صورت میں حقیق مبتداء ہوگا اور أن اور اس کا مابعد اس کی خبر، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل لے کر آیا ہوں سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ شام بھیج دے اور (فرعون) نے ان کو غلام بنا رکھا تھا، فرعون نے کہا اگر تم اپنے دعوے پر کوئی دلیل لے کر آئے ہو تو پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصاء ڈالا دیا تو وہ دفعۃً ایک بڑا اژدھا بن گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے (گریبان میں اپنا ہاتھ داخل کرکے) نکالا تو وہ اچانک دیکھنے والوں کی نظر میں اپنے گندم گونی رنگ کے برخلاف روشن چمکدار تھا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : یَتَبَیَّنْ ۔ سوال : یَھْدِ کا صلہ لام نہیں آتا یہاں، للذیْنَ ، میں یھد کا صلہ لام استعمال ہوا ہے۔ جواب : مفسر علام نے یَھْدِ کی تفسیر یَتَبیَّنْ ، سے کرکے اسی شبہ کا جواب دیا ہے، یعنی یَھْدِ یتبیَّنْ کے معنی میں ہے اور یتبیَّنْ کا صلہ لام آتا ہے۔ قولہ : بالسکنیٰ ۔ سوال : لفظ سکنیٰ کا اضافہ کس مقصد سے کیا ہے ؟ جواب : چونکہ ملک کا تحقق محض سابق قوم کی ہلاکت سے نہیں ہوتا اس کیلئے سکونت اور قبضہ ضروری ہے، اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مفسر علام نے لفظ سکنی کا اضافہ کیا ہے۔ قولہ : أن فَاعِلٌ، أن اپنے مابعد سے ملکر یَھْدِ کا فاعل ہے، نَھْدِ نون کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، نون کی قراءت کی صورت میں اللہ فاعل ہوگا، اور نھد کا مفعول أن لو نشاء اَصَبْنَاھم بذنوبِھِمْ ہوگا، ای أنَّ الشان ھو ھذا، اور یَھْدِ ، یاء کی قراءت کی صورت میں فاعل، أن لونشاءُ اَصَبْناھم بذنوھم ہے، (تسہیل) أنْ مخففہ عن الثقیلہ ہے اس کا اسم ہٗ ضمیر شان محذوف ہے ای أنّہٗ ، اور جملہ لَوْ نشاءُ اس کی خبر، أنَّ اور اس کا مابعد یَھْدِ کا فاعل ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یَھْدِ کا فاعل اس میں ضمیر مستتر ہو اور اس ضمیر کا مرجع وہ ہوگا جو سیاق کلام سے مفہوم ہے، ای اَوَلم یَھْدِ ما جری للامم السابقۃ، اس صورت میں أن اور اس کا مابعد بتاویل مصدر ہو کر محل میں مفعول کے ہوگا، پہلی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی، اَوَلم یَھدِ اللہ ویبین للوارثین مآلھم وعاقبۃ امرھم اصابتنا اِیّاھم بذنوبھم ویکون المفعول بہ محذوفًا کما قدرناہ، اور ثانی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی، اَوَلم یُبین فی وضح اللہ ما جریٰ للامم اصَابتنا اِیّاھم لو نشاء ذلک۔ قولہ : فی مَوَاضِعِ الاَرْبَعۃِ ان میں پہلا اَفَاَمِنَ اھل القریٰ ہے اور آخری اَوَلم یَھْدِ ہے، دو فاء کے ساتھ ہیں اور دو واؤ کے ساتھ۔ قولہ : الوَ اوُ الدَاخِلَۃُ عَلَیھا للِعَطْفِ ۔ سوال : ہمزوہ استفہام کا حرف عطف پر داخل ہونا منع ہے۔ جواب : ممانعت عطف مفرد علی المفرد میں ہے نہ کہ عطف جملہ علی الجملہ میں اسلئے کہ جملہ بعد الجملہ کلام مستانف ہوتا ہے۔ تفسیر و تشریح اولم یھد۔۔۔ الارض (الآیۃ) یہاں ایک بات تو یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کردیا، ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہاری بد اعمالیوں کے صلہ میں ہلاک کردیں، دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق کی آواز سننے کیلئے ان کے کان بند ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے نصیحت اور انذار ان کیلئے سب بیکار و بےاثر ہوتے ہیں۔ قوموں کی تاریخ سے سبق : ہلاک و برباد ہونے والی قوم کی جگہ جو دوسری قوم آتی ہے اس کیلئے اپنی پیش روقوم کے زوال میں کافی رہنمائی موجود ہوتی ہے اور اگر عقل سے کام لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدت پہلے جو لوگ اس جگہ داد عیش دے رہے تھے اور جن کی عظمت کا جھنڈا یہاں لہرا ریا تھا انھیں فکر و عمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا ؟ اور یہ بھی محسوس کرسکتا ہے کہ جس بالا اقتدار نے کل انھیں ان کی غلطیوں پر پکڑا تھا اور ان سے یہ جگہ خالی کرائی تھی وہ آج کہیں چلا نہیں گیا، اور نہ اس سے کسی نے یہ مقدر چھین لی ہے کہ اس جگہ کے موجود ساکنین اگر وہی غلطی کریں جو سابق ساکنین کر رہے تھے تو وہ ان سے بھی اسی طرح جگہ خالی نہ کرا سکے گا جس طرح ان سے خالی کرائی تھی۔ ونطبع۔۔۔۔ لایسمعون، جب کوئی قوم تاریخ اور عبرتناک سبق آموز آثار و مشاہدات سے سبق نہیں لیتی اور اپنے آپ کو خود فریبی میں مبتلا رکھتی ہے تو پھر خدا کی طرف سے بھی انھیں سوچنے سمجھنے اور کسی ناصح کی نصیحت سننے کی توفیق نہیں ملتی خدا کا قانون فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے تو اس کی بینائی تک آفتاب کی روشن کرنیں نہیں پہنچ سکتیں اور جو خود سننا نہ چاہے بھلا اسے کوئی سنا سکتا ہے ؟ ولقد جاءتھم رسلھم بالبینت (الآیۃ) اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جب پیغمبر خدا کا پیغام لے کر اس کے پاس آئے تو وہ اس وجہ سے ان پر یمان نہیں لائے کہ وہ اس سے قبل حق کی تکذیب کرچکے تھے، یہی جرم ان کے عدم ایمان کا سبب بن گیا، اور ایمان لانے کی توفیق ان سے سلب کرلی گئی، اسی کو آئندہ جملے میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وما وجدنا۔۔۔۔۔ لفسقین، اس عہد سے بغض نے عہد الست مراد لیا ہے، جو عالم ارواح میں لیا گیا تھا، اور بغض نے ہر قسم کا عہد مراد لیا ہے، یعنی ان لوگوں نے کسی قسم کے عہد کا پاس لحاظ نہیں کیا، نہ اس فطری عہد کا جس میں پیدائشی طور پر ہر انسان خدا کا بندہ پروردہ ہونے کی حیثیت سے بندھا ہوا ہے، نہ اس اجتماعی عہد کا پاس جس میں ہر فرد و بشر انسانی برادری کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے بندھا ہوا ہے، اور نہ اس ذاتی عہد کا پاس جو آدمی مصیبت اور پریشانی کے لمحوں میں یا کسی جذبہ خیر کے موقع پر خدا سے بطور خود باندھا کرتا ہے ان ہی تینوں عہدوں کو توڑنے کو یہاں فسق کہا گیا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ عہد سے مراد الست ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا عہد سے مراد عہد ایمان وطاعت ہے۔ یہاں تک پچھلے انبیاء اور ان کی قوموں کے پانچ واقعات بیان کرکے موجودہ لوگوں کو ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کیلئے تنبیہات فرمائی گئی ہیں، اس کے بعد چھٹا قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جس میں واقعات کے ضمن میں سینکڑوں احکام و مسائل اور عبرت و نصیحت کے بیشمار مواقع ہیں اور اسی لئے قرآن کریم میں اس واقعہ کے اجزاء بار بار دھرائے گئے ہیں۔
Top