Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ١ۚ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
اَوَلَمْ : کیا نہ يَهْدِ : ہدایت ملی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَرِثُوْنَ : وارث ہوئے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد اَهْلِهَآ : وہاں کے رہنے والے اَنْ : کہ لَّوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہتے اَصَبْنٰهُمْ : تو ہم ان پر مصیبت ڈالتے بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَنَطْبَعُ : اور ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے ہیں
کیا سبق نہیں ملا ان لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوئے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ابھی آپکڑیں اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیں وہ سننے سمجھنے سے رہ جائیں۔
اَوَلَمْ یَھْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ اَھْلِھَا اَنْ لَّوْ نَشَآئُ اَصَبْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ ج وَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ۔ (الاعراف : 100) ” کیا سبق نہیں ملا ان لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوئے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ابھی آپکڑیں اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیں وہ سننے سمجھنے سے رہ جائیں “۔ دلوں پر مہر اللہ کے عذاب تمہید ہے اس آیت کریمہ میں نام لیے بغیر قریش سے خطاب فرمایا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اے قریش کے لوگو ! تم جس سرزمین پر آباد ہو اس زمین پر تم سے پہلے دوسری قومیں آباد رہ چکی ہیں اور تم یہ بات سن چکے ہو کہ جب انھوں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ماننے سے انکار کیا تو ہم نے انھیں کس طرح پکڑا ؟ ان کی تاریخ بار بار تمہیں سنائی جا چکی ہے اور خود تمہارے اندر بھی آج تک ان کے انجام کے قصے سینہ بہ سینہ چلاتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود تم آخر یہ بات کیوں نہیں سوچتے کہ جس جرم کی پاداش میں تم سے پہلے لوگ پکڑے گئے اور وہ تمہارے لیے آج عبرت بنے ہوئے ہیں تم اگر وہی جرم کرو گے اور جیسا کہ کر رہے ہو اور اللہ کے آخری رسول کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرو گے جو انھوں نے کیا تھا تو تم آخر اللہ کی گرفت سے کیسے بچ جاؤ گے یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ اس نے تمہیں ڈھیل دے رکھی ہے ورنہ پروردگار کے لیے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ جب چاہے تمہیں آپکڑے اس لیے تمہارے جرائم وہی ہیں جو سابقہ امتوں کے تھے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ ڈھیل دینے میں بہت زیادہ نرم اور سخی واقع ہوئے ہیں اس لیے تم برابر ڈھیل پا رہے ہو لیکن یاد رکھو ہوسکتا ہے ابھی عذاب آنے میں کچھ وقت لگے لیکن تمہارے اس رو یے کے باعث یہ بات تو کسی وقت بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ کی طرف سے تمہاری محرومی کا فیصلہ ہوجائے اور تمہارے دلوں پر مہر کردی جائے جس کے بعد تم قبولیت حق کی استعداد سے محروم ہوجاؤ کیونکہ ہر قوم پر عذاب آنے سے پہلے یہ سزا ہمیشہ اصل عذاب کا پیش خیمہ بنتی رہی ہے۔ تم اب تک اس عذاب سے بچے ہوئے ہو لیکن کسی وقت بھی تم اس سزا سے دوچار ہوسکتے ہو۔ اس وارننگ کے بعد اگلی آیت کریمہ میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے نہایت حکیمانہ انداز میں پھر وہ بنیادی باتیں دھرا دی گئی ہیں جو سراسر اللہ کے حلم اور بردباری پر دلالت کرتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ قریش نے ہر طرح سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیا ہے لیکن پھر بھی ان کو سوچنے سمجھنے کا موقع دیا جا رہا ہے کہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اٹھا لو چناچہ ان بنیادی حقائق کو دھراتے ہوئے ارشاد فرمایا :
Top