Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ١ۚ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
اَوَلَمْ : کیا نہ يَهْدِ : ہدایت ملی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَرِثُوْنَ : وارث ہوئے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد اَهْلِهَآ : وہاں کے رہنے والے اَنْ : کہ لَّوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہتے اَصَبْنٰهُمْ : تو ہم ان پر مصیبت ڈالتے بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَنَطْبَعُ : اور ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے ہیں
کیا وہ لوگ اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے جو آج ان بستیوں کے رہنے والوں کے وارث ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیتے ۔ ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور وہ (حق کی بات) نہیں سنتے۔
لغات القرآن آیت نمبر (100 تا 102 ) ۔ یرثون (وہ مالک ہوتے ہیں) ۔ اصبنھم (ہم نے ان کو پہنچایا۔ مصیبت میں ڈالا) ۔ نطبع (ہم مہر لگا دیتے ہیں) ۔ لا یسمعون (وہ نہیں سنتے ہیں) ۔ تلک القری (یہ بستیاں ) ۔ نقص (ہم بیان کرتے ہیں ) ۔ انباء (خبریں ) ۔ تشریح : آیت نمبر (100 تا 102) ۔ ” جیسا کہ گذشتہ آیات میں سمجھایا گیا ہے کہ قوموں کی تباہی ان کے گناہوں اور بد اعمالیوں کی سزا ہے جب وہ ضد اور ہٹ دھرمی میں بہت دور نکل جاتی ہیں۔ جب اصلاح کی تمام امیدیں ختم ہوجاتی ہیں، زلزلہ، طوفان، قحط، آتش زدگی، آتش فشانی، جنگ، وبا، وغیرہ یہ محض موسمی، جغرافیائی طبعیاتی، اتفاقی، حادثاتی یا جیسا کہ کارل مارکس وغیرہ نے سمجھایا ہے عمل اور ردعمل کی مسلسل زنجیر نہیں یا جیسا کہ سائنس نے سمجھایا ہے کہ ان کا تعلق جزا و سزا سے نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا خاص تعلق کفر، ضد، ہٹ دھرمی اور ظلم سے ہے جیسا کہ اوپر پانچ اقوام کی مثالیں دی گئی ہیں۔ جس وقت یہ آیات نازل ہوئیں اہل عرب خصوصاً اہل قریش دولت اور اقتدار کی فروانی میں بہکے ہوئے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی تبلیغ سے ان کے ہوائی قلعے مسمار ہوتے نظر آرہے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ ایک بات کو حق اور سچ سمجھنے کے باوجود ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ تمام منطق اور معقولیت کے باوجود ایمان نہ لانے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے ان کا دنیاوی مفاد۔ ان کی آنکھیں اس دنیا سے آگے نہیں دیکھ رہی تھیں ان کے دماغ اس دنیا کی لذتوں سے آگے نہیں سوچ رہے تھے۔ اس آیت میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ کا ایک تازیانہ اچانک آئے گا اور تم ذلیل و رسوا ہو کر اپنے کھیتوں، دوکانوں، مکانو اور عیش عشرت کی جگہوں سے رخصت ہو جائو گے۔ یہ قومیں جو تم سے زیادہ با اثر اور باثروت تھیں صرف ایک جھٹکے میں جہنم کے قریب پہنچ گئیں ۔ اسی طرح تم بھی پہنچ سکتے ہو۔ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ : جب کوئی انسان پہلی مرتبہ گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ سا لگ جاتا ہے وہ جتنے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے اتنے ہی سیاہی کے نقطے لگتے جاتے ہیں یہاں تک کہ تمام دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس دل سے نیکی اور بدی کا امتیاز اٹھ جاتا ہے ضمیر مردہ ہوجاتا ہے اب اس کے لئے ہر معقو لیت اور نصیحت کی بات بیکار ہو کر وہ جاتی ہے (اگر وہ اللہ سے معافی مانگ لے تو اللہ اس دل کی سیاہی کو دور فرمادیتے ہیں) ۔ اس کو قرآن کریم نے دلوں پر مہر کردینے سے تعبیر فرمایا ہے۔ دل پر مہر لگ جانے کی ایک خاص پہچان ہے کہ اگر کہیں اس نے ایک مرتبہ ” نہیں “ کہہ دیا تو خواہ ہزار مرتبہ اس ” نہیں “ کو غلط ثابت کردیا جائے وہ اپنی جھوٹی ان اور وقار کی خاطر مان کردینے والا نہیں ہے اور اس کی ” نہیں “ ” ہاں “ سے بدلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے اس طرز عمل سے اپنے آپ کو اپنے اہل ضانہ اور دوست احباب کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ ” میں ایک عقل مند انسان ہوں اور اپنی کوئی رائے رکھتا ہوں “ اگر میں نے اپنے آپ تردید کردی تو اس کے عقلمندی کے دعوے میں سوراخ پڑجائیں گے۔ جب دلوں پر اس طرح کی مہر لگ جاتی ہے جس کو انسان اپنی عقل مندی کا نام دیتا ہے تو پھر کوئی حق و صداقت کی بات اس کے دل تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس جگہ جس عہد کا ذکر ہے اس کے متعلق حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد ” عہد الست “ ہے یعنی وہ عہد جو روز اول تمام مخلوق نے اللہ سے وعدہ کیا تھا وہی عہد مراد ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا ہے کہ یہاں عہد سے مراد ” عہد ایمان “ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا وہ دشمن جو کٹر دشمن ہے اس پر بھی جب کوئی آفت آتی ہے تو وہ عہد وفا کرلیتا ہے لیکن حالات سدھر تے ہی وہ بدل جاتا ہے۔ جس طرح قریش مکہ نے قحط کے زمانہ میں اللہ سے عہد کیا مگر پھر ہی دنوں میں اس کو بھلا کر پھر سے اپنے کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے۔
Top