Jawahir-ul-Quran - Maryam : 25
وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا٘
وَهُزِّيْٓ : اور ہلا اِلَيْكِ : اپنی طرف بِجِذْعِ : تنے کو النَّخْلَةِ : کھجور تُسٰقِطْ : جھڑ پڑیں گی عَلَيْكِ : تجھ پر رُطَبًا : تازہ تازہ جَنِيًّا : کھجوریں
اور ہلا اپنی طرف کھجور کی جڑ اس سے گریں گی تجھ پر19 پکی کھجوریں 
19:۔ ” تَسَّاقَطْ “ کا فا عل ” النخله “ ہے اور وہ ” ھُزِّيْ “ امر کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔ ” فَکُلِيْ وَ اشْرَبِیْ “ علامہ آلوسی نے یہاں ایل لطیف نکتہ زکر کیا ہے۔ یہاں بیان میں پانی کا ذکر کھجور کے ذکر سے مقدم کیا گیا ہے۔ کیونکہ کھانے کی نسبت پانی کی ضرورت اشد ہے۔ لیکن دونوں چیزوں کو استعمال کرنے کے موقع پر کھانے کو پینے پر مقدم کیا گیا ہے کیونکہ عادۃ کھانا پینے پر مقدم ہے (روح ج 16 ص 85) ۔ ” فَاِمَّا تَرَیِنَّ “ یہ بھی حضرت جبریل امین کا کلام ہے۔ اس میں انہوں نے حضرت مریم صدیقہ کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے نو زائیدہ بچے کو لے کر اپنے گھر کو روانہ ہوں، تو راستہ میں اگر کوئی شخص ملے اور تجھ سے بیٹے کے بارے میں سوال کرے تو اشارے سے اسے کہہ دینا کہ میں نے اللہ کی نذر کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس لیے کسی سے بات نہیں کرسکتی۔ اس وقت کی شریعت میں روزے کی حالت میں مفطراتِ ثلثہ (کھانا، پینا، جماع) کے علاوہ کلام کرنے سے بھی پرہیز لازم تھا۔ یعنی جس طرح روزے میں کھانا، پینا اور مباشرت جائز نہیں تھی۔ اسی طرح بحالتِ روزہ کسی آدمی سے بات کرنا بھی جائز نہیں تھا۔ لیکن ہماری شریعت میں ایسا روزہ جائز نہیں۔ بعض جاہل پیر اور ان کے اندھے مرید کسی سے بات نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ انہوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے، یہ ہماری شریعت میں ہرگز جائز نہیں۔ المراد بہ الصوم عن المفطرات المعلومۃ وعن الکلام وکانوا لایتکلمون فی صیامہم وکان قربۃ فی دینھم فیصح نذرہ و قد نھی النبی ﷺ عنہ فھو منسوخ فی شرعنا کما ذکرہ الجصاص فی کتاب الاحکام وروی عن ابی بکر ؓ انہ دخل علی امراۃ قد نذرت ان لاتتکلم فقال ان الاسلام ھدم ھذا فتکلمی (روح ج 16 ص 86) ۔
Top