Urwatul-Wusqaa - Maryam : 25
وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا٘
وَهُزِّيْٓ : اور ہلا اِلَيْكِ : اپنی طرف بِجِذْعِ : تنے کو النَّخْلَةِ : کھجور تُسٰقِطْ : جھڑ پڑیں گی عَلَيْكِ : تجھ پر رُطَبًا : تازہ تازہ جَنِيًّا : کھجوریں
تو کھجور کے درخت کا تنا پکڑ اور اپنی طرف ہلا (اس طرح ہلانے سے) تازہ اور پکی ہوئی کھجوریں تجھ پر گریں گی
سیدہ مریم (علیہ السلام) کے لئے ایک دوسری ہدایت کہ تازہ کھجوریں کھاؤ جو نہایت مفید ہیں : 25۔ صبر کی تلقین اور عظیم بیٹے کی خوشخبری کی بعد سیدہ مریم (علیہ السلام) سے کیا گیا کہ کھجور کی ٹہنی پکڑ کر اپنی طرف ہلایا جھکا اور کھجور کے درخت سے تروتازہ کھجوریں اپنی اس ضرورت کے لئے استعمال کر کیونکہ کھجور اور پھر وہ بھی تازہ وضع حمل کے وقت ساری غذائوں اور دادؤں سے بہتر غذا اور دوا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ کھجور کا درخت اس ٹیلہ کے نشیب سے نکلا تھا جو ٹیلہ کے قریب برابر سطح پر اس کا پھل لٹک رہا تھا جس کو اپنی طرف ہلانا بھی ممکن تھا اور جھکا کر اس کا پھل توڑنا بھی اور یہ بھی کہ یہ کوئی نخلستان نہیں تھا کجہ کھجوروں کے باغ کا کوئی مالک ہو جو اس سے گزر اوقات کرتا ہو بلکہ یہ کوئی عام درخت ہے جو بعض مقامات پر عام چراگاہوں میں ہوجایا کرتے ہیں اور ایک آدھ ہونے کے باعث وہ کسی کی تحویل میں نہیں ہوتے بلکہ ہر ایک ان سے اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے ، فرشتہ نے مخاطب تو سیدہ مریم (علیہ السلام) ہی کو کیا ہے کیونکہ وہی صاحب الہام ہیں اور وہ یہ کام خود کریں یا کسی دوسرے سے کرالیں دونوں صورتوں میں ممکن ہے بلکہ دوسری صورت ہی زیادہ صحیح اور قابل وثوق ہے ، کھجوریں کھانے کا مشورہ دینے سے جو مفسرین نے یہ علت نکالی ہے کہ وہاں اور کوئی چزد کھانے پینے کی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی دوسرا آدمی پاس موجود تھا یہ صحیح نہیں ہے بلکہ اس طرح کے خواہ مخواہ تکلفات پیدا کرلیے گئے ہیں ، بات صرف یہ ہے کہ جن باتوں کو صاحب الہام جان لیتا ہے وہ دوسرے آدمی نہیں جان سکتے اور اس کی مثالیں بیشمار احادیث میں موجود ہیں ، نبی کریم ﷺ اور آپ کی زوجہ محترمہ ایک ہی مقام پر تشریف فرما تھے کہ جبرئیل آئے اور وحی کی جو وہ لے کر آتے تھے لیکن سیدہ عائشہ ؓ سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ یہ جبریل ہیں اور آپ کو سلام پیش کرتے ہیں ، مختصر یہ کہ یہاں بھی کھجور ہی کھانے کا جو مشورہ جبریل نے دیا محض مفید ہونے کی خاطر دیا یہی ہے کہ اس وقت سے لے کر آج تک یہ نسخہ استعمال ہو رہا ہے اور اطباء نے اس کے بہت سے فوائد گنوائے ہیں اور حدیث میں اس کا استعمال درست فرمایا گیا ہے چناچہ درمنثور میں بحوالہ عقیلی ‘ ابو یعلی ‘ ابو نعیم ابن سنی ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن عدی ‘ ابن مردویہ ‘ اور ابن عساکر حضرت علی ؓ سے مرفوعا مروی ہے اور بحوالہ ابن عساکر سلمہ بن قیس ؓ سے مرفوعا مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علہہ والہ وسلم نے فرمایا کہ شوہر اپنی بیویوں کو ولادت کے وقت کھجوریں کھلایا کریں کہ مریم کو بھی ایسے وقت میں کھجوریں کھلائی گئی تھیں ، اس جگہ تازہ کھجوریں کھانے کھلانے میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ اس موسم میں پیش آیا جب کھجوریں پک کر تیار ہوجاتی ہیں اور وہ جولائی اگست کا مہینہ ہو سکتا ہے اور عیسائی جو تہوار سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی نسبت سے ماہ دسمبر میں مناتے ہیں سراسر جھوٹ اور بعد میں ان کی کسی کو نسل کا تشکیل کردہ ہے لیکن افسوس کہ ہماری مفسریں نے اس طرف توجہ نہیں کی ‘ اگر وہ توجہ کرتے تو ان کو قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق کے لئے ایک سے زیادہ دلیلیں خود اناجیل سے بھی مل جاتیں جن سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سخت گرمی کے موسم میں ہوئی ہے ایسے موسم میں جب لوگ اس سرزمین میں بھی جس میں یہ واقعہ پیش آیا کھلے پیدائش سخت گرمی کے موسم میں ہوئی ہے ایسے موسم میں جب لوگ اس سرزمین میں بھی جس میں یہ واقعہ پیش آیا کھلے آسمان کے نیچے رات گزارتے تھے اور ظاہر ہے کہ یہ موسم گرما ہی ہوسکتا ہے ۔ بلاشبہ معجزات کا ایک اپنا مقام ہے اور انبیاء کرام (علیہم السلام) کو معجزات عطا ہوئے ہیں لیکن اس کا یہ بھی تو مطلب نہیں کہ جس چیز کو جی چاہا معجزہ بنا لیا اور پھر اس طرح معجزات ہی معجزات بنانے اور بیان کرنے شروع کردیئے جیسا کہ اس موقع پر ہمارے مفسرین نے کیا ، مثلا یہ کہ مریم معجزانہ طور پر پیدا ہوئیں ، وہ ایک دن میں اتنا بڑھتی تھیں جتنا کہ عام بچے ایک سال میں بڑھتے ہیں ، آپ کو حمل ہوا تو بغیر نکاح اور مس بشر کے ادھر حمل ہوا کہ ادھر وضع ہوگیا اور اس میں ایک ساعت بھی نہ لگی عیسیٰ (علیہ السلام) بطن مادر سے وضع ہوتے ہی بولنے لگے ، ابھی ان کو زمین سے اٹھایا بھی نہ گیا تھا کہ انہوں نے اپنی نبوت کا اعلان کردیا ۔ اس طرح معجزات کی ایک لائن لگا دی اور جب کسی نے کوئی بات کرنا چاہی تو اس کی زبان کھولنے سے بھی پہلے اس پر کفر کا فتوی جڑ دیا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ لوگ تو معجزات کے منکر ہیں ، اس طرح کتاب وسنت کو بکھیڑا بنانا علم نہیں بلکہ سراسر جہالت ہے لیکن افسوس کہ یہی چیز آج کل ہمارے بڑے بڑے پیشوایان مذہب میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے اور جتنے افتراء کا کوئی زیادہ مظاہر کرتا ہے اتنا ہی وہ بڑا پیشوا اور بڑا مذہبی رہنما ہے ۔
Top