Ruh-ul-Quran - Maryam : 25
وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا٘
وَهُزِّيْٓ : اور ہلا اِلَيْكِ : اپنی طرف بِجِذْعِ : تنے کو النَّخْلَةِ : کھجور تُسٰقِطْ : جھڑ پڑیں گی عَلَيْكِ : تجھ پر رُطَبًا : تازہ تازہ جَنِيًّا : کھجوریں
اور اپنی طرف کھجور کے تنے کو ہلائو، تم پر تروتازہ خرمے گرنے لگیں گے۔
وَھُزِّیْٓ اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا۔ فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْنًا ج فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنْ الْبَشَرِ اَحَدًا لا فَقُوْلِیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا۔ (مریم : 25، 26) (اور اپنی طرف کھجور کے تنے کو ہلائو، تم پر تروتازہ خرمے گرنے لگیں گے۔ پس کھائو اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو پھر اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو اسے اشارے سے کہو کہ میں نے خدائے رحمن کے روزے کی منت مان رکھی ہے تو آج میں کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔ ) اللہ تعالیٰ کی عنایات کھجور کے تنے کو اپنی طرف کھینچو یعنی اسے حرکت دو ۔ حضرت مریم جیسی نوخیز اور پریشانیوں میں ڈوبی ہوئی لڑکی اس تنے کو کیا حرکت دے سکتی تھی۔ مقصد صرف یہ ہے کہ تم اسے اس طرح ہاتھ لگائو جیسے اسے حرکت دے رہی ہو۔ تم پر عمدہ پکی ہوئی کھجوریں گرنے لگیں گی۔ کھجور حضرت مریم کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی، ان کی خوراک کا حصہ تھی جس سے روزانہ سابقہ پڑتا تھا، لیکن یہ کھجور معلوم ہوتا ہے لطف و لذت میں غیرمعمولی ہوگی کیونکہ یہ خشک تنے سے بغیر موسم کے حضرت مریم کے جھنجوڑنے سے محض اللہ تعالیٰ کی قدرت سے برسنے لگی تھیں۔ تو ویسے بھی تمام انواع کی کھجوریں مٹھاس اور مزے میں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور پھر خصوصی طور پر اس چشمے کے پانی اور کھجور کی یہ تاثیر ہوگی کہ وہ آپ کی پریشانیوں کا مداوا بنے۔ اطباء کا خیال ہے کہ ایام زچگی میں عورت کے لیے بہترین خوراک تازہ اور شیریں کھجور ہے اور یہ کھجوریں تو پیدا ہی اس لیے کی گئی تھیں کہ آپ کے دل کی تقویت کا باعث بنیں اور آپ کے لیے سکون کا باعث ہوں، تو یقینا ان میں صرف لطف و لذت ہی نہیں اور نہ جانے کیا کیا فوائد رکھے گئے ہوں گے۔ فرشتے نے ان کھجوروں کو کھانے اور پانی کو پینے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ آنکھوں کو ٹھنڈا رکھنے کی بھی ہدایت کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو توجہ دلائی گئی ہے کہ ذرا اپنے نومولود لال کی طرف تو دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس کے چہرے میں تیرے لیے کیا ٹھنڈک کا سامان رکھا ہے تو اس کو دیکھتے ہی تم اپنا غم بھول جاؤ گی۔ چناچہ اس سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرو اور مزید یہ کہا کہ اگر راستے میں کوئی شخص ملے اور وہ گود میں بچہ دیکھ کر پوچھنے کی کوشش کرے کہ ایک کنواری لڑکی کی گود میں بچہ کہاں سے آگیا تو اسے اشارے سے کہہ دیجیے کہ میں نے خدائے رحمن کے روزے کی نذر مان رکھی ہے، اس لیے میں کسی انسان سے گفتگو نہیں کرسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مریم کو سب سے زیادہ جس بات کا اندیشہ تھا وہ یہ تھی کہ جب میں اپنے بچے کو لے کر اپنے گھر جاؤں گی تو چونکہ میں ایک بڑے پاکیزہ اور نیک نام گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں، لوگ میرے خاندان کو جانتے پہچانتے ہیں تو جس شخص کو بھی معلوم ہوگا کہ اس خاندان کی ایک کنواری لڑکی بغیر شادی کے ایک بچے کی ماں بن گئی ہے تو وہ یقینا میرے گھر کا رخ کرے گا اور میرے اہل خانہ بھی اجنبیوں سمیت پریشانی کی حالت میں مجھ سے پوچھیں گے کہ مریم تم نے یہ کیا کیا۔ اس آیت میں مریم سے کہا جارہا ہے کہ جب بھی اس بچے کے بارے میں کوئی تم سے سوال کرے تو تمہیں جواب دینے کی ضرورت نہیں، تم کہہ دینا کہ میں خاموشی کے روزے سے ہوں اس لیے کسی انسان سے بات نہیں کرسکتی۔ خاموشی کا روزہ یہاں ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ حضرت مریم ایام زچ کی میں روزہ نہیں رکھ سکتی تھیں تو پھر انھوں نے روزہ کیسے رکھ لیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روزہ خاموشی کا روزہ تھا اور یہود کے یہاں مجرد خاموشی کے روزے کا رواج بھی تھا اور ان کی شریعت میں اس کی اجازت بھی تھی۔
Top