Dure-Mansoor - Maryam : 25
وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا٘
وَهُزِّيْٓ : اور ہلا اِلَيْكِ : اپنی طرف بِجِذْعِ : تنے کو النَّخْلَةِ : کھجور تُسٰقِطْ : جھڑ پڑیں گی عَلَيْكِ : تجھ پر رُطَبًا : تازہ تازہ جَنِيًّا : کھجوریں
اور تو کھجور کے تنے کو اپنی جانب حرکت دے جس سے تجھ پر پکی تیار کھجوریں گریں گے۔
1:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے (آیت) ” وھزی الیک بجذع النخلۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے تو حرکت دے۔ 2:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن انباری نے مصحف میں مجاہدرحمۃ اللہ علیہ سے (آیت) ” وھزی الیک بجذع النخلۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ ایک عجوہ کھجور تھی۔ 3:۔ عبد بن حمید اور ابن جریر نے براء ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یسقط علیک “ یاء کے ساتھ پڑھا۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” یسقط علیک “ یاء کے ساتھ یعنی کھجور کا تنا۔ 5:۔ عبدبن حمید نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” یسقط علیک رطبا جن یا “ تاء کے ساتھ۔ 6:۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” یسقط “ سین کی شد اور تاء کے ساتھ۔ 7:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں طلحہ الایابی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” یسقط علیک رطبا جن یا “ سین کی شد کے ساتھ۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے ابو نھیک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یسقط علیک رطبا جن یا “ پڑھا۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” رطبا جن یا “ یعنی تروتازہ۔ 10:۔ خطیب نے تالی التلخیص میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یسقط علیک رطبا جن یا “ یعنی غبار والی کھجور۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے ابو روق (رح) سے روایت کیا کہ مریم (علیہا السلام) جب تنے کی طرف پہنچی تو اس کا سر نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ نے فورا اس کا سر پیدا کردیا اور اس میں پکی اور کچی، آدھی کچی آدھی پکی۔ کھجوریں پیدا فرما دیں جب انہوں نے کھجور کو حرکت دی تو ان پر ہر قسم کی کھجوریں نیچے گرپڑیں جو اس میں تھیں۔ 12:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں ابوقدام (رح) سے روایت کیا کہ مریم (علیہا السلام) کے لئے ایک کھجور پیدا ہوئی تو وہ اس کے ساتھ اس طرح رہی جیسے عورت ولادت کے وقت ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ ہوتی ہے۔ 13:۔ ابویعلی، ابن ابی حاتم، ابن سنی اور ابونعیم دونوں نے طب نبوی میں عقیلی ابن عدی ابن مردویہ اور ابن عساکر نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی پھوپھی کھجور کی عزت کرو کیونکہ یہ اس مٹی سے پیدا کی گئی جس سے آدم (علیہ السلام) پیدا کئے گئے اور درختوں میں سے کوئی درخت ایسا نہیں ہے جو دوسرے کو باردار کردے اور آپ ﷺ نے فرمایا اپنی عورتوں کو تازہ کھجور کھلاو اگر پکی کھجور نہ ہو تو چھوہارے کھلاؤ اور درختوں میں سے کوئی درخت زیادہ عزت والا نہیں ہے اس درخت سے کہ جس کے نیچے مریم بنت عمران (علیہا السلام) بیٹھی تھیں۔ 14:۔ ابن عساکر نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ کھجور کس مٹی سے پیدا کی گئی آپ نے فرمایا کھجور، انار اور انگور آدم (علیہ السلام) کی بچی ہوئی مٹی سے پیدا کئے گئے۔ 15:۔ ابن عساکر نے سلمہ بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنی عورتوں کو ان کے نفاس کے خون میں چھوہارے کھلاؤ تو اس کا بچہ حلیم پیدا ہوگا کیونکہ وہ مریم (علیہا السلام) کا کھانا تھا جب آپ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو جنم دیا تھا اگر اللہ تعالیٰ کھجور سے بہتر کسی کھانے کو پاتے تو مریم (علیہا السلام) کو خاص طور پر کھلاتے۔ 16:۔ عبد بن حمید نے شقیق (رح) سے روایت کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نفاس کے خون والی عورت کے لئے پکی کھجور سے بہتر کوئی چیز جانتے تو اس کا مریم (علیہا السلام) کو ضرور حکم فرماتے۔ نفاس والی عورت کے لئے خشک کھجور مفید ہے : 17:۔ عبد بن حمید نے عمرو بن میمون (رح) سے روایت کیا کہ نفاس والی عورت کے لئے پکی کھجور یا خشک کھجور سے بہتر کھانا نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وھزی الیک بجذع النخلۃ تسقط علیک رطبا جن یا “۔ 18۔ سعید بن منصور، عبد ابن حمید اور ابن منذر ربیع بن خیثم (رح) سے روایت کیا کہ نفاس والی عورتوں کے لئے میرے نزدیک مثل پکی کھجور کے کوئی دوا نہیں اور مریض کے لئے شہد کی مثل کوئی دوا نہیں۔ 19:۔ ابن عساکر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ قیصر (بادشاہ نے) عمر بن خطاب ؓ کی طرف لکھا میرے پاس آپ کی طرف سے قاصد آئے ہیں انہوں نے بتایا کہ تمہارے پاس ایک درخت ہے کہ تمہارے پاس ایک درخت ہے جو کسی خیر کے لئے پیدا نہیں کیا گیا نکلتا ہے گدھے کے کانوں کیطرح پھر وہ سفید موتیوں کی طرح پھٹ جاتا ہے سبز زمرد کی طرح ہوجاتا ہے سرخ یاقوت کی طرح ہوجاتا ہے پھر پک جاتا ہے عمدہ فالودہ کی طرح ہوجاتا ہے تو کھایا جاتا ہے پھر خشک ہوجاتا ہے پھر وہ مقیم کے لئے عصمت کا باعث ہوتا ہے اور مسافر کے لئے زادراہ ہوتا ہے اگر قاصدوں نے سچ کہا ہے تو میرے خیال میں جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے عمر ؓ نے ان کی طرف لکھا بلاشبہ تیرے قاصدوں نے تجھے سچ کہا ہے ہمارے علاقہ میں ہے یہ وہ درخت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مریم (علیہا السلام) کے لئے اگایا جب انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو جنم دیا تھا۔
Top