Al-Qurtubi - Maryam : 25
وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا٘
وَهُزِّيْٓ : اور ہلا اِلَيْكِ : اپنی طرف بِجِذْعِ : تنے کو النَّخْلَةِ : کھجور تُسٰقِطْ : جھڑ پڑیں گی عَلَيْكِ : تجھ پر رُطَبًا : تازہ تازہ جَنِيًّا : کھجوریں
اور کجھور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وھزی الیک بجذع النخلۃ تسقط علیک رطبا جن یا۔ فکلی واشربی وقری عینا۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ و ھزی اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو خشک کھجور کے تنا کو حرکت دینے کا حکم دیا تاکہ مردہ تنا کے احیا میں دوسری نشانی دیکھ لیں۔ بجذع میں باء زائدہ موکدہ ہے جیسے کہا جاتا ہے۔ خذ لزمام و أعط بیدک۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلیمدد بسبب الی السمآء (الحج :15) یعنی فلیمدد سببا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے کھجور کے تنا پر جو تر کھجوریں ہیں انہیں اپنی طرف جھکائو۔ تسقط اصل میں تتساقط ہے تاء کو سین میں ادغام کیا گیا ہے۔ حمزہ نے تساقط پڑھا ہے یعنی تخفیف کے ساتھ انہوں نے تا کو حذف کردیا ہے جس کو دوسروں نے ادغام کیا ہے۔ عاصم نے حفص کی روایت میں تساقط تاء کے ضمہ کے ساتھ تخفیف اور قاف کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ دونوں تا کے اظہار کے ساتھ تتساقط بھی پڑھا گیا ہے۔ یساقط یا اور تا کے ادغام کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ تسقط اور یسقط، تسقط و یسقط تا کے ساتھ تخلۃ کی وجہ سے اور یا کے ساتھ جذع کی وجہ سے نو قراتیں ہیں ان کو زمخشری نے کیا ہے۔ رطباً ، اس کو نصب ھزی کی وجہ سے ہے یعنی جب تو تنے کی حرت دے گی تو اس کی حرکت سے تر کھجوروں کو حرت دے گی۔ بہرحال رطباً کی نصب میں قرأت کے معانی کے اعتبار سے اختلاف ہے کبھی فعل کو الجذع کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور کبھی الھزء کی طرف، کبھی النخلۃ کی طرف اور جنیاً اس کا معنی ہے جو پک چکی ہیں اور چننے قابل ہوچکی ہیں۔ ییہ جنیت الثمرۃ سے مشتق ہے۔ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ انہوں نے تساقط علیک رطباً جن یا برنیا پڑھا مگر یہ صحیح نہیں۔ مجاہد نے کہا : رطباً جنیاً وہ عجوہ کھجور تھی۔ حضرت عباس بن فضل نے کہا : میں نے ابو عمر و بن العلاء سے رطبا جن یا، کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ ابھی خشک نہیں ہوتی تھی اور چننے والوں کے ہاتھوں سے دور نہیں ہوئی تھی یہ صحیح قول ہے۔ فراء نے کہا : الجنی وہ کھجوریں جو ایک درخت سے کاٹی گئی ہوں اور اس مکان سے لی گئی ہو جہاں وہ پیدا ہوئیں بطور دلیل یہ شعر پڑھا : و طیب ثمار فی ریاض أریضۃ وأغصان اشجارِ جناھا علی قرب الجنی سے مراد وہ ہے جو چنی جاتی ہیں یعنی جو کاٹی جاتی ہیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا : وہ تنا بالکل خشک تھا جب حضرت مریم نے اسے حرت دی تو آپ نے تنے کے اوپر دیکھا وہاں سبز پتے ظاہر ہوچکے تھے پھر اس کے گابھے کو دیکھا جو ان ٹہنیوں اور پتوں سے نکل چکا تھا پھر سبز کھجوریں بنیں پھر آدمی پکی کچی کھجوریں بنیں پھر سرخ ہوئیں پھر پک گئیں پھر چھوارے کی شکل میں بن گئیں اور یہ سب کچھ آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کھجوریں آپ کے سامنے گرتیں اور اس میں کوئی پھٹتی نہیں تھی۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ بعض علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ رزق اگرچہ حتمی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کے لیے کوشش کو مقرر فرمایا ہے کیونکہ اس نے مریم (علیہما السلام) کو تنے حرکت دینے کا حکم دیا تاکہ وہ نشانی دیکھ لے اور نشانی تب ہوتی جبکہ وہ اس کی حرکت دینے کے بغیر ہوتا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ رزق میں محنت کی تکلیف دینا، اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں میں سنت ہے یہ توکل کے منافی نہیں بخلاف جاہل صوفیاء کے جو کہتے ہیں کہ محنت کرنا توکل کے خلاف ہے۔ یہ مفہوم پہلے گزر چکا ہے۔ اس سے پہلے حضرت مریم کے پاس رزق بغیر تکسب و محنت کے آتھا تھا جیسا کہ ارشاد فرمایا : کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقاًٰجب حضرت مریم نے بچہ جنم دیا تو انہیں تنے کو حرکت دینے کا حکم دیا گیا۔ ہمارے علماء نے فرمایا : جب حضرت مریم کا دل فارغ تھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تکسب سے فارغ کردیا تھا جب انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جنم دیا اور ان کا دل اس کی محبت سے متعلق ہوا اور اس کی بات اور اس کے امر کے ساتھ ان کا باطن مشغول ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مریم کو کسب کی طرف متوجہ کردیا اور اسے عادت کی طرف لوٹا دیا کہ وہ اسباب کے ذریعے رزق دیتا ہے۔ طبری نے ابن زید سے حکایت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلم نے حضرت مریم سے کہا : لا تحزنی تو پریشان نہ ہو۔ حضرت مریم نے کہا : میں کیسے فکر مند نہ ہوں جبکہ تو میرے ساتھ ہے ؟ نہ میں خاوند والی ہوں نہ مملوکہ ہوں لوگوں کے سامنے میرا عذر کیا ہوگا ؟ یلیتنی مت قبل ھذا و کنت نسیاً منسیاً ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلم نے حضرت مریم سے کہا : میں کلام کر کے تمہاری طرف سے جواب دوں گا۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ ربیع بن خثیم نے کہا : اس آیت کی وجہ سے میرے نزدیک بچہ جنم دینے والی عورتوں کے لیے کھجوروں سے بہتر کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک بچہ جنم دینے والی عورتوں کے لیے کوئی اور چیز افضل ہوتی تو اللہ تعالیٰ حضرت مریم کو وہی کھلاتا۔ اسی وجہ سے علماء نے فرمایا : اس وقت سے نفاس والی عورتوں کے لیے چھواروں کی عادت ہے اسی طرح گھٹی بھی کھجور سے دی جاتی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : جب بچہ جنم دینا مشکل ہو تو کھجور سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں اور مریض کے لیے شہد سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں، یہ زمخشری نے ذکر کیا ہے۔ ابن وہب نے کہا : امام مالک نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : رطباً جنیاً ، الجنی اس کھجور کو کہتے ہیں جو بغیر نقش اور فساد کے پکی ہوئی ہو۔ النقش یہ ہے کہ آدمی پکی آدھی کچی کھجور کو نیچے سے کانٹے مارنا تاکہ جلدی پک جائے۔ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ امام مالک کے نزدیک یہ وقت سے پہلے کسی چیز کو جلدی تیار کرنا ہے ایسا کرنا کسی کے لیے مناسب نہیں اگر کوئی ایسا کرے گا تو بیع کے لیے ایسا کرنا جائز نہ ہوگا نہ اس کو پکانے کے لیے یہ جائز ہوگا۔ اس پر گفتگو سورة انعام میں گزر چکی ہے۔ طلحہ بن سلیمان سے جن یا اتباع کے طور پر جیم کے کسرہ کے ستھ مروہ ہے یعنی ہم نے نہر اور کھجور میں دو فائدے رکھے ہیں، ایک کھانا، پینا اور دوسرا دل کی تسلی کیونکہ یہ دونوں معجزے ہیں۔ فکلی واشربی وقری عیناً ۔ کا یہی مفہوم ہے یعنی کھجوروں سے کھائو، نہر سے پانی پیو اور اپنے بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ قری قاف کے فتحہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور یہ جمہور کی قرات ہے۔ طبری نے قری کو قاف کے کسرہ کے ساتھ حکایت کیا ہے۔ یہ نجد کی لغت کہا ہے کہا جاتا ہے کہ قر عینا یقرہ و یقر قاف کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ۔ أقر اللہ عینہ فقرت، اللہ نے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا تو وہ ٹھنڈی ہوگئیں۔ یہ القرا اور القرۃ سے ماخوذ ہے۔ دونوں کا معنی ٹھنڈا ہونا ہے۔ خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں اور غم آنسو گرم ہوتے ہیں۔ ایک جماعت نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، انہوں نے کہا : ہر آنسو گرز ہوتا ہے۔ أقر اللہ عینہ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ محبوب کے دیدار کے ساتھ تیری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے تاکہ وہ ٹھنڈی ہو اور سکون پائے۔ فلان قرۃ عینی یعنی فلان کے قرب سے میرے نفس کو سکون ملتا ہے۔ شیبانی نے کہا : قری عیناً اس کا معنی ہے تو سو جا، اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو کھانے، پینے اور سونے پر ابھارا۔ ابو عمرو نے کہا : أقر اللہ عینہ کا مطلب ہے اللہ نے اسے سلایا اور اس کے جاگنے کو ختم کردیا۔ عیناً پر نصب تمیز کے اعتبار سے ہے جیسے تیرا قول ہے : طب نفسا، حقیقت میں فعل آنکھ کے لیے تھا پھر اسے آنکھ والے کی طرف نقل کردیا اور جو حقیقت میں فاعل تھا اسے تفسیر کی بنا پر نصب دی گئی مثلاً طب نفساً ۔ نفقات شحما و تصببت عرقا۔ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔
Top