Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 74
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗ١ۙ قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِیَّةًۢ بِغَیْرِ نَفْسٍ١ؕ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّكْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّىٰٓ : یہانتک کہ اِذَا : جب لَقِيَا : وہ ملے غُلٰمًا : ایک لڑکا فَقَتَلَهٗ : تو اس نے اس کو قتل کردیا قَالَ : اس نے کہا اَقَتَلْتَ : کیا تم نے قتل کردیا نَفْسًا : ایک جان زَكِيَّةً : پاک بِغَيْرِ : بغیر نَفْسٍ : جان لَقَدْ جِئْتَ : البتہ تم آئے (تم نے کیا) شَيْئًا : ایک کام نُّكْرًا : ناپسندیدہ
(اس کے بعد) پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو (خضر (علیہ السلام) نے) اسے مار ڈالا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ نے ایک بےگناہ جان کو مارا ڈالا بغیر کسی جان (کے بدلہ) کے یقیناً آپ نے بڑی بےجا حرکت کی،108۔
108۔ نکرا کے معنی ہیں امر عظیم کے۔ ایسا امر جس سے سب کا نوں پر ہاتھ رکھیں۔ نکرا اے واھیۃ (بخاری) قال ابو عبیدہ نکرا اے عظیما (فتح الباری) النکر الدھاء والامرالصعب الذی لایعرف (راغب قال اللیث الدھاء والنکر لغت للامر الشدید (تاج) نکر کا درجہ قبح میں امر سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ النکر اعظم من الامر فی القبیح (کبیر) وقیل النکر ماانکرتہ العقول ونفرت منہ النفوس وھو ابلغ فی تقبیح الشیء من الامر (کبیر) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو مامور ہی تھے امر بالعروف ونہی عن المنکر پر۔ اب کی آپ کے ٹوکنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ آپ کی پہلی ہی حرکت کیا کم تھی کہ اب کی تو آپ اس سے بھی کہیں بڑھ کر بےجا حرکت کر گزرے۔ کشتی کے نقصان کا تدارک تو بہرحال ممکن بھی تھا یہ تو جان کا معاملہ ہے اس کی تلافی کی تو کوئی صورت ہی نہیں۔ اے ان کر من الاول لان ذلک کان غرقایمکن تدار کہ بالسد وھذا لاسبیل الی تدار کہ (کشاف) (آیت) ” اقتلت۔۔ نفس “۔ یعنی ایک تو وہ لڑکا یوں ہی نابالغ۔ قابل قصاص نہیں چہ جائے کہ بالکل بےقصور قتل ہو ! بحمد اللہ آج سہ شنبہ 29 اپریل 1947 ء ؁ مطابق 6 جمادی الثانیہ کو بعد نماز ظہر اس پارۂ پانزدہم کی تفسیر نظر ثانی سے فراغت ہوئی۔
Top