Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 18
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ١ؕ وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ
بَلْ : بلکہ نَقْذِفُ : ہم پھینک مارتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کو عَلَي : پر الْبَاطِلِ : باطل فَيَدْمَغُهٗ : پس وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے فَاِذَا : تو اس وقت هُوَ : وہ زَاهِقٌ : نابود ہوجاتا ہے وَلَكُمُ : اور تمہارے لیے الْوَيْلُ : خرابی مِمَّا : اس سے جو تَصِفُوْنَ : تم بناتے ہو
بلکہ (اس جگہ حقیقت حال ہی دوسری ہے کہ) ہم حق سے باطل پر چوٹ لگاتے ہیں تو وہ باطل کا سر کچل ڈالتا ہے اور وہ اچانک اسے فنا کردیتا ہے ، افسوس تم پر تم کیسی کیسی باتیں بیان کرتے ہو
ہم حق کو باطل پر پھینک کر اس کا بھیجنا نکال دیتے ہیں افسوس انہوں نے کیسی بات کہہ دی : 18۔ یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو قرآن کریم میں بار بار دہرایا گیا ہے اس سے قبل اس کو عین اس وقت بیان کیا گیا تھا جب کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبش میں پناہ گزیں تھی اور باقی مسلمان سخت بےکسی ومظلومی کی حالت میں مکہ اور اطراف مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی اعظم وآخر ﷺ کی جان ہر وقت خطرے میں تھی ، اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے مگر اس حالت میں نبی کریم ﷺ کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ۔ ایسے وقت میں یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا ہزیان محسوس ہوا ہوگا جس کو پھاگ کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بھی اس کو ٹھٹھوں میں اڑا دیا اور پھر یہی بات اس وقت ان کے سامنے بیان کی جا رہی ہے جب مکہ میں حالت اس وقت سے بھی ابتر ہوچکی تھی فرمایا جا رہا ہے کہ ” ہم حق سے باطل پر چھوٹ لگاتے ہیں تو وہ باطل کا سر کچل ڈالتا ہے اور اچانک اسے فنا کردیتا ہے ۔ “ گویا الفاظ پہلے سے زیادہ زور دار انداز سے کہے جا رہے ہیں اور جتنے حالات زیادہ خراب ہیں اتنے ہی الفاظ زیادہ سخت اور تحدی وچیلنج کی زبان سے اور ان کو ہوشیار کرتے ہوئے کہ ” دیکھو حق کا ہتھوڑا باطل کے سر پر ایسا چلے گا کہ اس کا بھیجا نکال کر رکھ دے گا اور تم کو معلوم ہے کہ دماغ پر لگائی گئی چوٹ کیا کرتی ہے ؟ کہ جسم کا سارا نظام معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور انجام کار اس کی حس و حرکت سب ختم ہو کر رہ جاتی ہے ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں اس طرح کی بات سے لوگوں نے آپ ﷺ کو کیا کہا ہوگا ؟ یہ کہ یہ شخص پاگل ہوگیا ہے اور ہمارے بزرگوں میں سے کسی کی اس کو مار لگ گئی ہے لیکن ان کی اس طرح کی بکواس آپ ﷺ پر کیسے اثر کرسکتی تھی کہ آپ ﷺ تو جو کچھ بول رہے تھے وہ وحی الہی تھی جس کے ذریعہ سے پروگرام خداوندی کا اعلان کیا جارہا تھا جس سے اعلان کرنے والا خود بھی اتنا ہی واقف تھا کہ مجھے یہ اعلان کرنے کا حکم ہے اور جو حکم ملے اس کو لوگوں تک پہنچانا میری ذمہ داری ہے اور یہ بات کہہ کر وہ اپنا فرض ہی پورا کر رہا تھا حکم ہوا کہ ان کی مزید کہہ دو کہ ” افسوس تم پر تم کیسی باتیں کہہ رہے ہو “ ان باتوں کو سن کر وہ حیران و ششدر بھی تھے ‘ غضبناک وخشمناک بھی اور وہ سمجھ نہ سکے کہ کیا ہونا ہے اور ہم کو کیا کرنا ہے ؟ اس کی مزید تفصیل کے لئے سورة بنی اسرائیل کی آیت 81 کی تفسیر کو دیکھیں ۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے آیت 16 سے 18 تک کا مفہوم ایک بار اپنے ذہن میں دوبارہ بٹھانے کی کوشش کریں شاید آپ کو حقیقت سمجھنے میں آسانی ہو اور بات کی تہ تک آپ پہنچ سکیں کیونکہ ہمارے مفسرین کو ایسی باتوں پر غور وفکر کرنے کی فرصت بہت ہی کم میسر آئی ہے ۔ اس سے پہلے گزشتہ قوموں کی ہلاکت اور ان کی جگہ نئی جماعتوں کے ابھرنے کا ذکر کیا تھا ۔ فرمایا یہ انقلاب حال کیوں پیدا ہوا ؟ آباد وخوش حال بستیاں کیوں کٹے ہوئے کھیتوں کی طرح اجڑ گئیں ؟ زندگی اور حرکت کے بھڑکتے ہوئے شعلے کیوں بجھ کر رہ گئے ؟ اس لئے کہ یہاں ہمارا ایک عالمگیر قانون کام کر رہا ہے یعنی حق و باطل کے تزاحم وکشا کش کا قانون ۔ ہم نے کائنات ہستی کا یہ پورا کارخانہ ایک فعل عبث کی طرح نہیں بنایا ہے کسی طے شدہ مصلحت اور مقصد ہی سے بنایا ہے ۔ وہ مقصد کیا ہے ؟ یہ کہ کائنات ہستی پستی سے بلندی کی طرف برابر ترقی کرتی جائے یہاں تک کہ علو و رفعت کے اس اتنہائی نقطہ تک پہنچ جائے جو کار فرمائے قدرت نے اس کے لئے ٹھہرا دیا ہے ۔ اس مقصد کے لئے کونسا ہاتھ کام کر رہا ہے ؟ حق و باطل کی کشاکشی کے قانون کا ہاتھ یعنی یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس لئے ہوتا ہے کہ حق باقی رہے اور باطل نابود ہوجائے ” حق “ اس لئے باقی رہتا ہے کہ اس سے بقا اور علو وارتفاع ہے باطل اس لئے نابود ہوجاتا ہے کہ وہ نقص ‘ فساد اور زوال ہے ۔ چناچہ زندگی اور وجود کے ہر گوشہ میں کشاکش جاری ہے ۔ فطرت ” حق “ کے ہتھیار سے ” باطل “ پر ضرب لگاتی ہے اور وہ ٹک نہیں سکتا کیونکہ ” حق “ کے مقابلہ میں اس کے لئے ٹکنا نہیں۔ پھر اچانک ایسا ہوتا ہے کہ ” باطل “ ملیا میٹ ہوگیا اور میدان میں صرف ” حق “ ہی کی نمود باقی رہ گئی ۔ لیکن اس ضرب کے لگنے سے کتنا وقت خرچ ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانا آپ کے ذہن وفکر پر ہے خود ہی لگالیں اور (دمغ) کے معنی دماغ میں سخت قسم کی چوٹ لگنے کے ہیں جس سے دماغ معطل ہوجائے ۔
Top