Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 18
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ١ؕ وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ
بَلْ : بلکہ نَقْذِفُ : ہم پھینک مارتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کو عَلَي : پر الْبَاطِلِ : باطل فَيَدْمَغُهٗ : پس وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے فَاِذَا : تو اس وقت هُوَ : وہ زَاهِقٌ : نابود ہوجاتا ہے وَلَكُمُ : اور تمہارے لیے الْوَيْلُ : خرابی مِمَّا : اس سے جو تَصِفُوْنَ : تم بناتے ہو
(نہیں) بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اسکا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے اور جو باتیں تم بناتے ہو ان سے تمہاری خرابی ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بل نقذف بالحق علی الباطل، القذف کا معنی ہے پھینکنا، یعنی ہم حق کو باطل پر مارتے ہیں۔ فیدمغہ تو وہ اسے ہلاک کردیتا ہے۔ الدمغ سر کے زخم کو کہتے ہیں۔ یہاں الحق سے مراد قرآن ہے اور باطل سے مراد شیطان ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : باطل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صافت کے علاوہ صفات کرتے تھے۔ (مثلاً یہ کہ) اس کا بیٹا تو ان کی اللہ تعالیٰ نے تکذیب کی۔ بعض نے فرمایا : الحق سے مراد حجت ہے۔ باطل سے مراد ان کی شبہات ہیں۔ بعض نے فرمایا : الحق سے مراد مواعظ ہیں۔ باطل سے مراد معاصی ہیں۔ یہ معانی قریب قریب ہیں۔ قرآن حجت اور مواعظ کو متضمن ہے۔ فاذا ھوا ذاھق یعنی باطل ہلاک ہونے والا ہے اور تلف ہونے والا ہے، یہ قتادہ کا قول ہے۔ ولکم الویل یعنی تمہارے لیے آخرت میں عذاب ہے کیونکہ تم نے رب کے لیے ایسی صفات بیان کی ہیں جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : الویل جہنم میں ایک وادی ہے، یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مما تصفون۔ جو وہ جھوٹ بولتے ہیں، قتادہ اور مجاہد سے مروی ہے۔ اس کی مثال : سیجزیھم وصفھم (الانعام : 139) یعنی اس کے جھوٹ کی انہیں جزا دے گا۔ بعض نے فرمایا : وہ اللہ کی ایسی صفات بیان کرتے ہیں جو محال ہیں، مثلاً ان کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنایا ہے۔
Top