Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 143
مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ١ۖۗ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
مُّذَبْذَبِيْنَ : ادھر میں لٹکے ہوئے بَيْنَ : درمیان ذٰلِكَ : اس لَآ : نہ اِلٰى هٰٓؤُلَآءِ : ان کی طرف وَلَآ : اور نہ اِلٰى هٰٓؤُلَآءِ : ان کی طرف ۭوَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ اللّٰهُ : گمراہ کرے اللہ فَلَنْ تَجِدَ : تو ہرگز نہ پائے گا لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
اور ایمان کے مابین تردد و تذبذب کی حالت میں مبتلا ہیں نہ پورے ان مسلمانوں کی طرف اور نہ پورے ان کافروں کی طرف اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں مبتلا رکھے تو اے مخاطب تو اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا۔1
1 بلاشبہ یہ منافق اپنے خیال فاسد اور زغم باطل میں اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے اس مکر و فریب کی ان کو سزا دینے والا ہے اور منافق جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو محض لوگوں کے دکھانے کے لئے بڑی سستی اور الکساہٹ سے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی نہیں کرتے مگر یوں ہی مختصر سا ان کی حالت یہ ہے کہ کفر و ایمان کے مابین تردد و تذبذب میں مبتلا ہیں اور ادھر میں لٹکے ہوئے ہیں نہ پوری طرح مسلمانوں کی طرف اور نہ پوری طرح کافروں کی طرف اور بات یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہی گمراہی میں مبتلا رکھے تو اے مخاطب تو اس کے لئے ایمان لانے اور مومن ہونے کی کوئی راہ نہ پائے گا۔ (تیسیر) خدع مخادعت وغیرہ کی تفسیر گزر چکی ہے خدع کے معنی دھوکہ مکر فریب ، دغا، کسالی کسلان کی جمع ہے کسل کا لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ایک کام کے کرنے کو جی نہ چاہے اور کسی وجہ سے کرنا پڑے تو بولا کرتے ہیں فلاں شخص بارے جی سے کام کر رہا ہے جس کا م نشاط اور انبساط نہ ہو چونکہ نماز پر اعتقاد نہیں اس لئے مارے باندھے کی نماز ہے اسی حالت کا بیان ہے۔ یرائون محض دکھاوے کے لئے اٹھتے بیٹھے ہیں اسی بنا پر نماز میں کچھ پڑھتے بھی نہیں کسی وقت خالی زبان ہلا دی یا ایک آدھ کلمہ کہہ دیا کہ برابر والا سمجھے کہ کچھ پڑھ رہے ہیں یا جہری نماز میں لوگوں کے سنانے کو کچھ پڑھ دیا یا سری میں چپکے کھڑے رہے تذبذب کے معنی ہیں دو باتوں کے درمیان تردد اور یہ لفظ بھی عام طور پر اردو میں بولا جاتا ہے جب دو کاموں میں سے کسی ایک جانب پختہ رائے قائم نہ ہو تو کہتے ہیں مجھے تردد ہے یا میں اس معاملہ میں تذبذب ہوں اور اصل میں تذبذب جیسا کہ صاحب کشاف نے کہا ہے اس کو کہتے ہیں جو دونوں جانب دفع کیا جائے گا بازی کے کھیل کی طرح جس طرف جائے وہی پھینکے اور اپنی طرف سے دوسری طرف دفع کرے چونکہ دل سے کافر ہیں اس لئے مسلمانوں میں مشتبہ اور نا مقبول اور چونکہ ظاہر میں مسلمان ہیں اس لئے کافروں میں مشتبہ اور نا مقبول خلاصہ یہ ہے کہ مناف کفر کو چھپا کر اور اسلام کو ظاہر کر ک اپنے خیال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ چال چل رہے ہیں حالانکہ اس کی ڈھل سے یہ خود ہی دھوکہ کھا رہے ہیں اور وہ ان کو اس چال کا بدلہ دینے والا ہے۔ ان منافقوں کی حالت یہ ہے کہ نماز پڑھنے کو اٹھتے ہیں تو بڑے کسل کیساتھ مارے باندھے کو اٹھتے ہیں محض مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ دیکھ لیں ہم نمازی ہیں چونکہ نماز کو نہ فرض سمجھتے ہیں نہ بدبختوں کو ثواب کی امید ہے اس لئے نماز میں تسبیح اور تشہد وغیرہ بھی نہیں پڑھتے یوں ہی کچھ تھوڑا سا پڑھ لیا تو پڑھ لیا کفرو ایمان کے درمیان ادھر لٹکے ہوئے ہیں نہ پورے ادھر، نہ پورے ادھر حضرت حق کا گمراہ کرنا وہی ہے جس کو ہم بتا چکے ہیں کہ عزم فعل کے وقت اللہ تعالیٰ فعل کو پیدا کردیتا ہے اسی لئے با اعتبار خلق اس کی طرف اور با اعتبار کسب بند ہے کی طرف فعل کو منسوب کیا جاتا ہے۔ ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں اس قسم کی تفصیل سے بچنے کے لئے مبتلا رکھے ترجمہ کیا ہے۔ ہمارا مطلب وہی ہے جو ہم کئی مرتبہ عرضکر چکے ہیں کہ جب کوئی بندہ اپنی شرارت اور طغیان میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو حضرت حق تعالیٰ اس کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور اس سے نیک توفیق کو سلب کرلیتے ہیں یا یوں سمجھ کہ جب کوئی مریض بد پرہیزی کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے تو طبیب اس کی اصلاح سے دست کش ہوجاتا ہے بس اسی حالت کو قرآن اضلال سے تعبیر کرتا ہے اب چاہے جس طرح ترجمہ کرلو۔ اس آیت میں ان کے ایمان ک طرف سے نا امیدی کا اظہار کیا گیا ہے ۔ کیونکہ جس نالائق مریض سے طبیب دست کش ہوجائے اس کے لئے شفا کی امید ہوسکتی ہے۔ صحاح میں حضرت ابن عمر سے مرفوعاً روایت ہے کہ منافق کی مثال اس بکری کی سی ہے جو بکریوں کے دو گلوں کے درمیان حیران و پریشان پھرتی ہو کبھی اس گلہ میں دوڑتی ہو کبھی دوسرے گلہ کی طرف لپکتی ہو اور وہ یہ نہ سمجھتی ہو کہ اس کو کس گلہ میں شریک ہو کر اس کے ہمراہ چلنا چاہئے۔ اب آگے ایسے کافروں کی دوستی اور رفاقت سے ممانعت کی جاتی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے (تسہیل)
Top