Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 143
مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ١ۖۗ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
مُّذَبْذَبِيْنَ : ادھر میں لٹکے ہوئے بَيْنَ : درمیان ذٰلِكَ : اس لَآ : نہ اِلٰى هٰٓؤُلَآءِ : ان کی طرف وَلَآ : اور نہ اِلٰى هٰٓؤُلَآءِ : ان کی طرف ۭوَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ اللّٰهُ : گمراہ کرے اللہ فَلَنْ تَجِدَ : تو ہرگز نہ پائے گا لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
(محض دکھلاوے کے لئے) ڈانوا ڈول ہیں یہ لوگ (کفرو اسلام کے) اس بیچ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے اور جسے اللہ گمراہی میں ڈال دے (اس کی اپنی بدنیتی کی بناء پر) تو تم اس کے لیے ہرگز کوئی راہ نہ پا سکو گے2
371 منافقوں کو ان کے نفاق کی ایک نقد سزا : کہ یہ لوگ تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ نہ ادھر کے نہ ادھر کے۔ بلکہ ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح ہوتے ہیں کہ کبھی ہوا کے جھونکوں نے یہاں مارا، کبھی وہاں پٹکا۔ سکون و اطمینان اور امن وقرار کی دولت سے یہ لوگ محروم اور بےقرار ہی رہتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَزِیْز الْغَفَّارِ ۔ سو یہ نفاق کی ایک فوری اور نقد سزا ہے جو منافق کو اس کے اپنے ہی اختیار کردہ نفاق کی بناء پر یہاں ملتی رہتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ایمان سے محرومی امان و سکون سمیت ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور ایمان و یقین کی دولت سے بہرہ مندی و سرفرازی دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل وضامن ہے۔ " ذَبْذَبَ " کے معنیٰ کسی چیز کو حرکت پر حرکت دینے کے ہوتے ہیں۔ " ذَبْذَبَ الشَیْئَ " اس وقت بولتے ہیں جب کہ فضاء میں ٹنگی ہوئی کسی چیز کو حرکت دی جاتی ہے۔ ایسی چیز چونکہ لگاتار ہلتی اور حرکت کرتی رہتی ہے اس لئے اس کو اس لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سو یہی حال ہوتا ہے منافق کا۔ وہ ہر وقت ڈانوا ڈول رہتا ہے۔ اس کو کسی بھی طرف قرار نہیں ہوتا اور " مذبذب " اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کو ہر طرف سے دھتکارا جائے۔ جس سے وہ نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ سو اس طرح منافقوں کو ان کے نفاق کی یہ ایک نقد سزا برابر ملتی رہتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 372 منافقوں کو ایک اور نقد سزا، بےاعتباری : کہ نہ ادھر ان کا کوئی اعتبار نہ ادھر۔ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ دو رخی کی جس پالیسی کو یہ لوگ اپنی چالاکی سمجھتے ہیں وہ الٹا ان کو اس درجہ ذلیل و بےقدر کر کے کہیں کا بھی نہیں رہنے دیتی۔ اس طرح یہ ان کے نفاق کی ایک اور سزا ہے جو ان کو یہیں ملتی رہتی ہے کہ نہ ان کا کوئی وزن ہوتا ہے نہ اعتبار کہ مومن تو یہ ہوتے نہیں لیکن ایمان کے زبانی کلامی دعوے کی بناء پر یہ کافروں کا اعتماد بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ سو منافقت کی جس روش کو یہ لوگ اپنی چالاکی اور ہوشیاری سمجھتے ہیں حقیقت میں وہ ان کی حماقت کا کھلا ثبوت ہوتی ہے، مگر منافقت کی وجہ سے ان کی مت ایسی مار دی جاتی ہے کہ ان کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی اور یہ برابر اسی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 373 جس کو اللہ گمراہ کردے اس کیلئے تم کوئی راہ نہیں پاس کو گے : جس سے اس کی بگڑی بن سکے، اور یہ راہ حق و صواب کی طرف رجوع کرسکے کہ یہ طلب صادق کی دولت سے ہی محروم و بےبہرہ ہے۔ اور مزید یہ کہ اپنے سوئ اختیار کی بناء پر انہوں نے اپنے باطن کو مزید سیاہ کردیا ہے۔ تو پھر ایسوں کو راہ حق و ہدایت ملے تو کس طرح اور کیونکر ؟ سو ایسے بدبختوں کیلئے تم کوئی راہ نہیں پاس کو گے اور یہ ہمیشہ کفر و باطل کے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ایسوں کی محرومی ان کی اپنی بدنیتی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منافق کی مثال اس حیران و پریشان بکری کی سی ہے جو بکریوں کے دو ریوڑوں کے درمیان ماری ماری پھرتی ہے۔ کبھی اس طرف جاتی ہے کبھی اس طرف۔ (مسلم : کتاب صفات المنافق) ۔ سو منافق لوگ اپنے پاؤں پر کلہاڑا خود مارتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top