Mazhar-ul-Quran - An-Nisaa : 143
مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ١ۖۗ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
مُّذَبْذَبِيْنَ : ادھر میں لٹکے ہوئے بَيْنَ : درمیان ذٰلِكَ : اس لَآ : نہ اِلٰى هٰٓؤُلَآءِ : ان کی طرف وَلَآ : اور نہ اِلٰى هٰٓؤُلَآءِ : ان کی طرف ۭوَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ اللّٰهُ : گمراہ کرے اللہ فَلَنْ تَجِدَ : تو ہرگز نہ پائے گا لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
بیچ میں ڈگمگا رہے ہیں (یعنی کفر و ایمان میں) نہ وہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف، اور جس کو خدا بھٹکائے تو اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا
ان آیتوں میں مسلمانوں کو منع فرمایا کہ وہ منافقوں کی سی عادت اختیار نہ کریں کہ دین کے مخالف لوگوں سے میل جول رکھنا منافقوں کی عادت ہے، جن کا ٹھکانا جہنم کا ساتواں طبقہ ہے۔ جو اور طبقوں سے زیادہ عذاب والا ہے۔ ان لوگوں نے ظاہری اسلام جتلا کر ایک طرح کی دغا بازی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کی تھی، جس کے سبب سے ان کی سزا میں قیامت کے دن سختی ہوگی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص منافقوں کی سی عادتیں اختیار کرتا ہے وہ اللہ کی خفگی اور اس کے عذاب کا یک سبب مول لیتا ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہئے۔ جن منافقوں کی اوپر مذمت تھی ان کی نجات کے لئے یہ چار باتیں فرمائیں : (1) اول یہ کہ انہوں نے دو دل اپنے (ظاہر میں کچھ، دل میں کچھ) کی باتیں کی ہیں ان پر نادم ہوں۔ (2) دوم یہ کہ اس ندامت کے بعد آئندہ برے کاموں سے بچنے اور نیک کاموں میں مشغول ہونے کی کوشش کی جائے تاکہ نیکی بدی کا کفارہ ہوجائے۔ (3) سوم یہ کہ اللہ کا سہارا مضبوط پکڑے۔ (4) چہارم یہ کہ دین کا جو کام کیا جاوے وہ خالص اللہ کے حکم کی تعمیل میں عقبیٰ کے اجر کی نیت سے ہو دنیا کے دکھاوے کا اس میں کچھ دخل نہ ہونا چاہئے۔ پھر آگے فرمایا کہ جن لوگوں میں یہ چار باتیں ہیں وہ کامل ایمانداروں میں ہیں جن کے لئے بڑا ثواب رکھا ہے، اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جاوے، اللہ تعالیٰ عقبیٰ میں عذاب سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ کو دل ونیت کا حال معلوم ہے، اس نے دل ونیت کے موافق ثواب رکھا کے درجے ٹھہرائے ہیں۔
Top