Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 50
اُنْظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ كَفٰى بِهٖۤ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسا يَفْتَرُوْنَ : باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹ وَكَفٰى : اور کافی ہے بِهٖٓ : یہی اِثْمًا : گناہ مُّبِيْنًا : صریح
بھلا دیکھئے تو یہ اللہ تعالیٰ پر کیسا جھوٹ بہتا باندھ رہے ہیں اور یہی بات صریح گناہ کے لئے کافی ہے1
1 اے پیغمبر ! کیا آپنے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جو اپنے کو مقدس بتاتے اور بڑے پاکباز بنتے ہیں حالانکہ اپنے کہنے سے کوئی پاکیزہ اور پاکباز نہیں بنا کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے مقدس اور پاکیزہ کر دے اور ان پر ایک تاگے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا بھلا دیکھیے تو یہ اللہ تعالیٰ پر کیسا جھوٹ افترا کرتے ہیں ان کے صریح مجرم اور گناہ گار ہونے کے لئے کافی ہے۔ (تیسیر) اس آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں خطاب عام ہو۔ مطلب یہ ہے کہ یہود کے اس خیال کو رد کرنا مقصود ہے جو انہوں نے اپنے متعلق قائم کر رکھا تھا جیسا کہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت کچھ نابالغ بچوں کو لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاض ہوئی اور آپ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ان بچوں پر کوء گناہ ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس پر کہنے لگے جناب ہماری بھی یہی حالت ہے ہم جو گناہ دن کو کرتے ہیں وہ رات کو معاف کردیئے جاتے ہیں اور جو گناہ ہم رات کو کرتے ہیں وہ دن کو معاف کردیئے جاتے ہیں بعض نے کہا یہود و نصاریٰ دونوں کا رد ہے کیونکہ وہ کہا کرتے تھے کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں جاسکے گا۔ بہرحال ! شان نزول کوئی خاص ہو لیکن آیت سب کو شامل ہے جو لوگ اپنے آپ کو مقدس ظاہر کرتے ہوں اور اپنے کو مقبول بارگاہ کہتے ہوں ان کو اس قسم کے دعاویٰ سے روکا گیا ہے اور ان کو یہ بتایا گای ہے کہ یہ کام تو اللہ تعالیٰ کا ہے وہ جس کو چاہے مقدس و مقبول کر دے۔ جیسا کہ سورة نجم میں فرمایا ہے۔ فلاتزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقی یعنی اپنے آپ کو مقدس نہ ظاہر کیا کرو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون پرہیز گار ہے اور بات بھی یہی ہے کہ خاتمہ کا حال اللہ تعالیٰ دلیل ہے اس لئے اس سے بچنا چاہئے اور شریعت میں انہی خطرات کی وجہ سے اس کی ممانعت آئی ہے۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ کچھ کا کچھ سمجھنے لگتے ہیں ہاں اگر کسی کا تقدس بذیعہ وحی اور الہام ہو تو اس کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا اپنے متعلق فرمانا کہ خدا کی قسم میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین والوں میں بھی امین ہوں یا خدا کی قسم تم میرے بعد مجھ سے زیادہ کسی کو امین نہ پائو گے یا ابوبکر اور عمر کو جنت کے کھول کا سردار فرمانا اور حسن و حسین کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمانا حضرت فاطمہ کو جنت کی عورتوں کا سردار فرمانا اور اسی طرح بعض اولیاء اللہ کا اپنے متعلق کچھ فرمانا جو بذریعہ کشف الہام ہو یا تحدیث نعمت کے طور پر اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت کو ظاہر کرنا یہ سب چیزیں یہود کے ان دعادیٰ سے علیحدہ ہیں اور ان کی اجازت ہے ولا یظلمون فتیلا کا مطلب یہ ہے کہ یہود کو ان غلط بیانیوں اور گندم نمائی و جو فروشی کی سزا ضرور دی جائیگی مگر اس سزا میں ان پر دھاگے کے برابر بھی ظمل نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے جرم کے موافق ان کو سزا دی جائے گی اور یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کی تطہیر اور ان کا تزکیہ فرماتا ہے اور اس تطہیر و تزکیہ میں ذرا ظلم نہیں کرتا کہ اہل کو نظر انداز کر دے اور نااہل کی تطہیر کر دے۔ (واللہ اعلم) دوسری آیت میں ان کے اس افتراء اور کذب پر پھر اپنے رسول کو خطاب کیا ہے کہ اے محمد ! ﷺ ان کو دیکھئے تو کہ کیسی جرأت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر افتراء اور جھوٹا طوفان گھڑ رہے ہیں اور ان کے تقدس کا بھانڈا تو اس ایک حرکت ہی سے پھوٹ جاتا ہے ایسے لوگ بھلا مقدس اور مقبول بارگاہ ہوسکتے ہیں جو خدا پر جھوٹ افترا کریں اور بہتان باندھیں ان کے صریح مجرم ہونے کے لئے ان کی یہی ایک حرکت کافی ہے لہٰذا یہ لوگ تو مجرم اور گناہگار ہیں مقدس اور پاکباز نہیں ہیں اور جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں وہ غلط اور جھوٹ ہے۔ حضرت شاہ صاحب فتیلا پر فرماتے ہیں یہود کو حضرت حق سے مخالفت ہوئی تو مکہ کے مشرکوں سے منفق ہوئے ان کی خاطر سے بتوں کی تعظیم کی کہا تمہاری راہ بہتر ہے مسلمانوں سے اور یہ سب حسد تھا کہ نبوت اور ریاست ہمارے سوا اور کسی میں کیوں ہوئی اللہ پاک نے اسی پر ان کو الزام دیا ان سب آیتوں میں یہی مذکور ہے۔ (موضح القرآن) حضرت معاویہ سے مرفوعاً احمد اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے تم ایک دور سے کی مدح اور پاکیزگی بیان کرنے سے بچو کیونکہ ایسا کرنا ذبح کرنے کے مترادف ہے یعنی بڑھا چڑھا کر ایک دوسرے کی خوبیاں بیان کرنا یا اپنی خود تعریف کرنا ایسا ہے جیسے ایک نے دوسرے کو ذبح کردیا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی باتوں سے قلب پر جو اثر ہوتا ہے وہ روحانی موت کے مترادف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنی تعریف خود اپنے منہ سے کرنا مذموم ہے مگر یہ کہ وحی یا الہام کے ذریعہ کسی کا تقدس معلوم ہو یا تحدیث نعمت کے طور پر کبھی کسی چیز کا اظہار کیا جائے۔ وحی کی ہم مثالیں بیان کرچکے ہیں الہام اور کشف کی مثالیں اولیاء اللہ کے کلام میں مل سکتی ہیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کا مشہور قول قدمی ھذہ علے رقبۃ کل ولی اللہ ان ہی اقوال میں سے ہے۔ (واللہ اعلم) آگے یہود کی اور شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کا ذکر ہے۔ (تسہیل)
Top