Maarif-ul-Quran - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
سو تو سیدھا چلا جا جیسا تجھ کو حکم ہوا اور جس نے توبہ کی تیرے ساتھ اور حد سے نہ بڑھو، بیشک وہ دیکھتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو،
خلاصہ تفسیر
جس طرح کہ آپ کو حکم ہوا ہے (راہ دین پر) مستقیم رہیے اور وہ لوگ بھی (مستقیم رہیں) جو کفر سے توبہ کر کے آپ کے ساتھ ہیں اور دائرہ (دین) سے ذرا مت نکلو یقینًا وہ تم سب کے اعمال کو خوب دیکھتا ہے اور (اے مسلمانو ! ان) ظالموں کی طرف (یا جو ان کی مثل ہوں ان کی طرف دلی دوستی سے یا اعمال و احوال میں مشارکت و مشابہت سے) مت جھکو، کبھی تم کو دوزخ کی آگ لگ جاوے اور (اس وقت) خدا کے سوا تمہارا کوئی رفاقت کرنے والا نہ ہو پھر تمہاری حمایت کسی طرف سے بھی نہ ہو (کیونکہ رفاقت تو حمایت سے سہل ہے جب رفاقت کرنے والا بھی کوئی نہیں تو حمایت کرنے والا کون ہوتا)۔

معارف و مسائل
سورة ہود میں انبیاء سابقین اور ان کی قوموں کے واقعات نوح ؑ سے شروع کر کے حضرت موسیٰ ؑ تک خاصی ترتیب و تفصیل سے ذکر کئے گئے ہیں جن میں سینکڑوں مواعظ و حکم اور احکام و ہدایات ہیں، ان واقعات کے ختم پر رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرکے امت محمدیہ کو ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی، فرمایا (آیت) ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي نَقُصُّهٗ عَلَيْكَ مِنْهَا قَاۗىِٕمٌ وَّحَصِيْدٌ، یعنی یہ ہیں پہلے شہروں اور بستیوں کے واقعات جو ہم نے آپ کو سنائے ہیں، یہ بستیاں جن پر اللہ تعالیٰ کے عذاب آئے ان میں سے بعض کے تو ابھی کچھ عمارات یا کھنڈرات موجود ہیں اور بعض بستیاں ایسی کردی گئی ہیں جیسے کھیتی کاٹنے کے بعد زمین ہموار کردی جائے پچھلی کھیتی کا نشان تک نہیں رہتا۔
اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہ اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے کو چھوڑ کر بتوں اور دوسری چیزوں کو اپنا خدا بنا بیٹھے، جس کا انجام یہ ہوا کہ جب خدا تعالیٰ کا عذاب آیا تو ان خود ساختہ خداؤں نے ان کی کوئی مدد نہ کی، اور اللہ تعالیٰ جب بستیوں کو عذاب میں پکڑتے ہیں تو ان کی گرفت ایسی ہی سخت اور درد ناک ہوا کرتی ہے۔
اس کے بعد ان کو آخرت کی فکر میں مشغول کرنے کے لئے فرمایا کہ ان واقعات میں ان لوگوں کیلئے بڑی عبرت اور نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہیں، جس دن تمام اولاد آدم ایک جگہ جمع اور موجود ہوگی، اس دن کا حال یہ ہوگا کہ کسی شخص کی مجال نہ ہوگی کہ بغیر اجازت خداوندی ایک حرف بھی زبان سے بول سکے۔
اس کے بعد رسول کریم ﷺ کو مکرر خطاب کرکے ارشاد فرمایا (آیت) فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۭ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ، یعنی آپ دین کے راستہ پر اسی طرح مستقیم رہے جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی مستقیم رہیں جو کفر سے توبہ کرکے آپ کے ساتھ ہوگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود سے نہ نکلو کیونکہ وہ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔
استقامت کا مفہوم اور اہم فوائد و مسائل
استقامت کے معنی سیدھا کھڑا رہنے کے ہیں، جس میں کسی طرف ذرا سا جھکاؤ نہ ہو، ظاہر ہے کہ یہ کام آسان نہیں، کسی لوہے پتھر وغیرہ کے عمود کو ماہر انجینئر ایک مرتبہ اس طرح کھڑا کرسکتے ہیں کہ اس کے ہر طرف زاویہ قائمہ ہی رہے کسی طرف ادنی میلان نہ ہو لیکن کسی متحرک چیز کا ہر وقت ہر حال میں اس حالت پر قائم رہنا کس قدر مشکل ہے وہ اہل بصیرت سے مخفی نہیں۔
رسول کریم ﷺ اور تمام مسلمانوں کو اس آیت میں اپنے ہر کام میں ہر حال میں استقامت پر رہنے کا حکم فرمایا گیا ہے، استقامت لفظ تو چھوٹا سا ہے مگر مفہوم اس کا ایک عظیم الشان وسعت رکھتا ہے کیونکہ معنی اس کے یہ ہیں کہ انسان اپنے عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت، کسب معاش اور اس کی آمد و صرف کے تمام ابواب میں اللہ جل شانہ کی قائم کردہ حدود کے اندر اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر سیدھا چلتا رہے، ان میں سے کسی باب کے کسی عمل اور کسی حال میں کسی ایک طرف جھکاؤ یا کمی، زیادتی ہوجائے تو استقامت باقی نہیں رہتی۔
دنیا میں جتنی گمراہیاں اور عملی خرابیاں آتی ہیں وہ سب اسی استقامت سے ہٹ جانے کا نتیجہ ہوتی ہیں، عقائد میں استقامت نہ رہے تو بدعات سے شروع ہو کر کفر و شرک تک نوبت پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ذات وصفات کے متعلق جو معتدل اور صحیح اصول رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائے اس میں افراط وتفریط یا کمی بیشی کرنے والے خواہ نیک نیتی ہی سے اس میں مبتلا ہوں گمراہ کہلائے گی، انبیاء (علیہم السلام) کی عظمت و محبت کی جو حدود مقرر کردی گئی ہیں ان میں کمی کرنے والوں کا گمراہ و گستاخ ہونا تو سب ہی جانتے ہیں، ان میں زیادتی اور غلو کرکے رسول کو خدائی صفات و اختیارات کا مالک بنادینا بھی اسی طرح کی گمراہی ہے، یہود و نصاری اسی گمراہی میں کھوئے گئے، عبادات اور تقرب الی اللہ کے لئے جو طریقے قرآن عظیم اور رسول کریم ﷺ نے متعین فرما دیئے ہیں، ان میں ذرا سی کمی کوتاہی جس طرح انسان کو استقامت سے گرا دیتی ہے اسی طرح ان میں اپنی طرف سے کوئی زیادتی بھی استقامت کو برباد کرکے انسان کو بدعات میں مبتلا کردیتی ہے، وہ بڑی نیک نیتی سے یہ سمجھتا رہتا ہے کہ میں اپنے رب کو راضی کر رہا ہوں اور وہ عین ناراضگی کا سبب ہوتا ہے اسی لئے رسول کریم ﷺ نے امت کو بدعات و محدثات سے بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اس کو شدید گمراہی قرار دیا ہے، اس لئے انسان پر لازم ہے کہ جب وہ کوئی کام عبادت اور اللہ و رسول ﷺ کی رضا جوئی کے لئے کرے تو کرنے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرلے یہ کام رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے اس کیفیت و صورت کے ساتھ ثابت ہے یا نہیں اگر ثابت نہیں تو اس میں اپنا وقت اور توانائی ضائع نہ کرے۔
اسی طرح معاملات اور اخلاق و معاشرت کے تمام ابواب میں قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی عملی تعلیم کے ذریعہ ایک معتدل اور صحیح راستہ قائم کردیا ہے جس میں دوستی، دشمنی، نرمی، گرمی، غصہ اور بردباری، کنجوسی اور سخاوت، کسب معاش اور ترک دنیا، اللہ پر توکل اور امکانی تدبیر، اسباب ضروریہ کی فراہمی اور مسبب الاسباب پر نظر، ان سب چیزوں میں ایک ایسا معتدل صراط مستقیم مسلمانوں کو دیا ہے کہ اس کی نظیر عالم میں نہیں مل سکتی، ان کو اختیار کرنے سے ہی انسان کامل بنتا ہے اس میں استقامت سے ذرا گرنے ہی کے نتیجہ میں معاشرہ کے اندر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ استقامت ایک ایسا جامع لفظ ہے کہ دین کے تمام اجزاء و ارکان اور ان پر صحیح عمل اس کی تفسیر ہے۔
سفیان بن عبداللہ ثقفی نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے اسلام کے معاملہ میں کوئی ایسی جامع بات بتلا دیجئے کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے، آپ نے فرمایا قل امنت باللہ ثم استقم، یعنی اللہ پر ایمان لاؤ اور پھر اس پر مستقیم رہو، (رواہ مسلم۔ از قرطبی)
اور عثمان بن حاضر ازدی فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ عباس کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرما دیجئے، آپ نے فرمایا علیک بتقوی اللہ والاستقامۃ اتبع ولا تبتدع (رواہ الدارمی فی مسندہ۔ از قرطبی) یعنی تم تقوی اور خوف خدا کو لازم پکڑو اور استقامت کو بھی، جس کا طریقہ یہ ہے کہ دین کے معاملہ میں شریعت کا اتباع کرو، اپنی طرف سے کوئی بدعت ایجاد نہ کرو۔
اس دنیا میں سب سے زیادہ دشوار کام استقامت ہی ہے اسی لئے محققین صوفیاء نے فرمایا ہے کہ استقامت کا مقام کرامت سے بالاتر ہے، یعنی جو شخص دین کے کاموں میں استقامت اختیار کئے ہوئے ہے، اگرچہ عمر بھر اس سے کوئی کرامت صادر نہ ہو، وہ اعلی درجہ کا ولی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ پورے قرآن میں رسول کریم ﷺ پر اس آیت سے زیادہ سخت اور شاق کوئی آیت نازل نہیں ہوئی، اور فرمایا کہ جب صحابہ کرام نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی لحیہ مبارک میں کچھ سفید بال دیکھ کر بطور حسرت و افسوس کے عرض کیا کہ اب تیزی سے بڑھاپا آپ کی طرف آرہا ہے تو فرمایا کہ مجھے سورة ہود نے بوڑھا کردیا، سورة ہود میں جو پچھلی قوموں پر سخت و شدید عذاب کے واقعات مذکور ہیں وہ بھی اس کا سبب ہوسکتے ہیں مگر ابن عباس نے فرمایا کہ یہ آیت ہی اس کا سبب ہے۔
تفسیر قرطبی میں ابو علی سری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے خو اب میں رسول کریم ﷺ کی زیارت کی تو عرض کیا کہ کیا آپ نے ایسا فرمایا ہے کہ مجھے سورة ہود نے بوڑھا کردیا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! انہوں نے پھر دریافت کیا کہ اس سورت میں جو انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات اور ان کی قوموں کے عذاب کا ذکر ہے اس نے آپ کو بوڑھا کیا ؟ تو فرمایا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس رشاد نے (آیت) فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ !
یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ تو انسان کامل کی مثالی صورت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے تھے اور فطری طور پر استقامت آپ کی عادت تھی مگر پھر اس قدر بار یا تو اس لئے محسوس فرمایا کہ آیت میں مطلق استقامت کا حکم نہیں بلکہ حکم یہ ہے کہ امر الہٰی کے مطابق استقامت ہونا چاہئے، انبیاء (علیہم السلام) پر جس قدر خوف و خشیت الہٰی کا غلبہ ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے، اس خشیت ہی کا یہ اثر تھا کہ باوجود کامل استقامت کے یہ فکر لگ گئی کہ اللہ جل شا نہ کو جیسی استقامت مطلوب ہے وہ پوری ہوئی یا نہیں۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو اپنی استقامت کی تو زیادہ فکر نہ تھی کیونکہ وہ بحمداللہ حاصل تھی مگر اس آیت میں پوری امت کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے، امت کا استقامت پر قائم رہنا دشوار دیکھ کر یہ فکر و غم طاری ہوا۔
حکم استقامت کے بعد فرمایا وَلَا تَطْغَوْا، یہ لفظ مصدر طغیان سے بنا ہے، اس کے معنی حد سے نکل جانے کے ہیں جو ضد ہے استقامت کی، آیت میں استقامت کا حکم مثبت انداز میں صادر فرمانے پر کفایت نہیں فرمائی بلکہ اس کے منفی پہلو کی ممانعت بھی صراحۃ ذکر کردی کہ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق وغیرہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مقرر کردہ حدود سے باہر نہ نکلو کہ یہ ہر فساد اور دینی و دنیوی خرابی کا راستہ ہے۔
Top