Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے (شب تاریک میں) آگ جلائی، جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو خدا نے ان لوگوں کی روشنی زائل کردی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے
تجارت کیا ہے ؟ فَمَارَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ : (پس ان کی تجارت نے انہیں نفع نہ دیا) تعریف ربح : اصل مال میں اضافہ کو کہا جاتا ہے۔ تجارت : کاریگری۔ تاجر کا فن : تاجر : نفع کی خاطر خرید وفرخت کرنے والا۔ نفع کی نسبت تجارت کی طرف اسناد مجازی ہے اس کا معنی انہیں اپنی اصل تجارت میں نفع نہ ہوا اور ضائع کردی۔ جب تجارت فائدہ مندنہ رہی اور مجازا گمراہی کا ہدایت کے بدلے خرید نا ثابت ہوگیا۔ تو اس کے بعد بطور استعارہ ترشییحہ کے ربح اور تجارۃ کا ذکر کردیا جیسا کہ شاعر نے اپنے اس شعر میں ؎ لما رایت النَّسْرَ عَزَّابن دَابۃ۔ وعَشَّشَ فی وَکْرِہٖ جاش لہ صدری میں بڑھا پے کو نسر اور سیاہ بالوں کو کوئلے سے تشبیہ دی۔ اس کے بعد گھونسلہ بنانے اور گھونسلے کا ذکر کردیا۔ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ : (اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے) وہ طریق تجارت کی طرف راہ پانے والے نہیں۔ جس طرح تجار اپنی مرضی استعمال کرنے والے اور اپنے نفع و نقصان کی اشیاء کو جاننے والے ہوتے ہیں۔ مفہوم آیت : اب مطلب یہ ہوا کہ تجار کا مقصد اصل مال اور نفع کا محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ اور ان لوگوں نے ان دونوں چیزوں کو ضائع کردیا۔ پس ان کا اصل مال ہدایت تھی۔ اور وہ گمراہی کے ہوتے ہوئے باقی نہیں رہی۔ جب فقط گمراہی رہ گئی تو اسی لیے ان کو نفع سے محروم ہونے والے فرمایا۔ اگرچہ دنیاوی اغراض ان کو میسر آگئیں۔ (اور وہ ہدایت کے مقابلہ میں ہیچ در ہیچ ہیں) کیونکہ گمراہ نقصان اٹھانے والا ہے اور جس آدمی کا راس المال سلامت نہ رہے۔ اس کو نفع پانے والا نہیں کہا جاتا۔ نحو : کہا گیا ہے الذی، اولئک کی صفت ہے۔ اور فماربحت سے آخر آیت تک محل رفع میں اولئک کی خبر ہے۔ مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَنَارًا : (ان کی مثال اس جیسی ہے جس نے آگ جلائی) جب منافقین کی صفت حقیقت ذکر کردی تو اس کے بعد مزید انکشاف حقیقت اور تکمیل بیان کے لیے مثالیں بیان فرمائیں۔ مثال کی غرض اور حقیقت : مخفی معانی اور حقائق سے پردہ اٹھانے کے لیے مثال بیان کرنا بڑا اثر رکھتا ہے گذشتہ آسمانی کتابوں میں کثرت سے مثالیں ذکر کی گئیں۔ انجیل کی سورتوں میں ایک سورت کا نام سورة الامثال ہے۔ مثل کا معنی : کلام عرب میں مثل کو کہتے ہیں نظیر کا یہی معنی ہے کہا جاتا ہے مثِل۔ مَثَل، مثیل جیسے شبہ، شَبہ اور شبیہ۔ پھر مشہور قول کے لیے بولا جانے لگا۔ جس سے موقعہ کی مثال بیان کی جائے مثل کہنے لگے اور مثال اسی بات کی بیان کی جاتی ہے جس میں انوکھاپن ہو۔ اسی لیے اس کی حفاظت کی جاتی ہے پس وہ بدلتی نہیں۔ کبھی استعارہ کے طور پر مثل کو حال یا صفت یا قصہ کے معنی میں استعمال کرتے ہیں جبکہ اس کی کوئی حالت اور انوکھی بات ہو۔ گویا یہاں کہا گیا۔” حالھم العجیبۃ الشان “ ان کی عجیب حالت اس آدمی کے حال کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی۔ اور یہی معنی مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَالْمُتَّقُوْنَ ۔ سورة رعد آیت نمبر 35 میں ہے کہ جو عجائب ہم نے بیان کیے۔ ان میں جنت کا عجیب حالت والاواقعہ ہے۔ پھر اس کے عجائبات بیان فرمائے۔ وللّٰہ المثل الاعلی۔ سورة النحل آیت نمبر 60 میں یہی معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسی صفات ہیں جن کا عظمت و جلال میں بڑا مقام ہے۔ یا الذی کو الذین کی جگہ لائے۔ جیسا کہ سورة توبہ آیت نمبر 65 وخضتم کالذی خاضوا۔ میں ہے کیونکہ جماعت کی تمثیل اکیلے کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ یا آگ جلانے والوں کی جنس بیان کرنا مقصود ہے یا وہ گروہ مراد ہے جس نے آگ جلائی۔ اس طرح کہ منافقین کی ذاتوں کو آگ روشن کرنے والے سے تشبیہ نہیں دی ہے۔ کہ جس سے جماعت کی واحد سے تشبیہ والا اعتراض آئے۔ بلکہ ان کے واقعہ کو آگ جلانے والے کے واقعہ سے تشبیہ دی ہے۔ استوقد کا معنی اوقد (جلانا) ہے۔ وقودالنار۔ آگ کی چمک۔ النار (آگ) ایک لطیف روشنی کرنے والا گرمی دینے والا جلانے والا جوھر ہے یہ نار، ینار سے مشتق ہے جب وہ بھاگے اور کوچ کرے۔ کیونکہ اس میں حرکت و اضطراب پایا جاتا ہے۔ نور وضوء کا معنی : فَلَمَّآ اَضَآئَ تْ مَاحَوْلَہٗ : (جب اس آگ نے اس کا ماحول روشن کردیا) اضآء ت۔ خوب روشن کرنے کو کہتے ہیں۔ اور اس کا مصداق سورة یونس کی آیت نمبر 5 ھوالذی جعل الشمس ضیآء والقمرنورًا آیت میں اضاءت کا لفظ متعدی ہے اور ماحولہٗ کی طرف اس کی نسبت ہے۔ اور غیر متعدی بھی ہوسکتا ہے، مؤنث معنی کے لحاظ سے لائی گئی۔ کیونکہ آگ جلانے والے کے ارد گرد جگہیں اور اشیاء ہیں۔ اور فَلَمَّآ اَضَآئَ تْ کا جواب۔ ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ ہے۔ نحوی تحقیق : نحو : لمّا ظرف زمان ہے اور اس میں اس کا جواب اذا کی طرح عامل بن رہا ہے اور ماحولہٗ کا ما موصولہ ہے اور حَولَہٗ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ یا نکرہ موصوفہ ہے۔ اور تقدیر عبارت یہ ہے۔ فلما اضاءت شیئًا ثابتا حولہ : جب اس روشن ثابت ہونے والی چیز نے اپنے ارد گرد۔ نُوْرُھُمْ میں ھم ضمیر کو جمع لائے اور حولَہٗ میں ضمیر واحد لائی گئی۔ کیونکہ کبھی تو اس کو لفظ پر محمول کیا اور کبھی معنی پر (اور دونوں کا لحاظ کر کے ضمیریں لائی گئیں) النور : آگ کی روشنی کو کہتے ہیں۔ اور ہر روشن چیز کی روشنی کو کہتے ہیں۔ ذھب : کا معنی اذھب ہے یعنی اس کو زائل کردیا۔ اور اس کو زائل ہونے والا بنادیا۔ ذھب بہ۔ کا معنی ساتھ لے جانا اور لے جانا۔ اب مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی لے لی۔ اور اس کو روک دیا اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ روک دے۔ اس کو کوئی چھڑا سکتا نہیں۔ فَلاَ مرسل لہٗ سورة فاطر آیت نمبر 2 یہ اذہاب کے لفظ سے زیادہ بلیغ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ذھب اللہ بضوء ھم نہیں فرمایا۔ وجہ ذکر : فَلَمَّآ اَضَآئَ تْ کا لحاظ کر کے۔ اس لیے کہ نور کا تذکرہ زیادہ بلیغ ہے ضوء میں اضافہ پر دلالت موجود ہے اور مقصود یہاں روشنی کا ان سے مکمل طور پر دور کرنا ہے۔ اگر ذھب اللہ بضوء ھم کہا جاتا۔ تو زائد روشنی کے چلے جانے کا اور جن کو نور کہا جاتا ہے ان کے باقی رہنے کا وہم رہتا۔ کیا تم سیاق کلام پر غور نہیں کرتے۔ کہ اس کے بعدوتَرَ کَھُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لایا گیا۔ الظلمہ : وہ عرض ہے جو نور کے منافی ہے۔ اس کو جمع اور نکرہ لائے۔ اور اس کے بعد وہ چیز لائے جو دلالت کرتی ہے کہ وہ اندھیرا ہے جس میں کوئی کڑی نظر نہیں آتی۔ اور وہ ارشاد الٰہی : لاَّ یُبْصِرُوْنَ ہے ( کہ وہ اس میں کچھ نہیں دیکھتے) ۔ نحوی اشارے : ترکھم : نحو : ترک بمعنی طرح اور خلّٰی (پھینکنا اور چھوڑنا) کے معنی میں ہوتا ہے۔ جب ایک چیز سے معلق ہو۔ اور گر دو چیزوں سے معلق کریں۔ توصیر کے معنی کو متضمن ہوتا ہے اس وقت یہ افعال قلوب کی جگہ آجاتا ہے یہاں اسی معنی میں ہے۔ اصل اس طرح بنے گا۔ ھُمْ فی ظلمات۔ پھر تَرَکَ کو داخل کر کے دونوں جزوں کو منصوب کردیا۔ لا یبصرون کے مفعول کو ساقط کرنا اس قسم میں سے ہے جس کو متروک مطروح کہتے ہیں۔ (جس کو پھینکنے کے لیے چھوڑا) یہ تَرَکَ مفعول مقدر منوی کی قسم سے نہیں۔ گویا فعل اصل کے لحاظ سے غیر متعدی ہے (یعنی متروک مطروح) ان کی حالت کو آگ جلانے والے کی حالت سے مشابہت دی۔ کیونکہ آگ روشن کرنے کے نتیجہ میں وہ اندھیرے اور حیرانی میں پڑگئے ہاں منافق تو ہمیشہ کفر کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا ہے۔ تفسیر اول : لیکن مراد یہاں یہ ہے کہ وہ کلمہ جو ان کی زبان پر جاری ہے اس سے انہوں نے فائدہ کی ذراسی روشنی حاصل کی حالانکہ اس کلمہ کی روشنی کے پیچھے تو منافقت کا اندھیرا پایا جاتا ہے جو ان کو اندھیرے کی سرمدی سزا تک پہنچانے والا ہے۔ تفسیر دوم : آیت کی ایک اور بھی تفسیر ہے کہ جب ان کے متعلق بتلایا گیا۔ کہ انہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلہ میں خرید لیا ہے پھر یہ تمثیل ذکر کی تاکہ ان کی اس ہدایت کو جس کو انہوں نے فروخت کیا۔ اس آگ سے تشبیہ دی جس نے اپنے جلانے کے ماحول کو روشن کر رکھا ہے۔ اور اس گمراہی کو جس کو انہوں نے خرید لیا اس حالت میں کہ اللہ تعالیٰ نے انکی روشنی کو دور کردیا۔ اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا ہے سے تشبیہ دی۔ تاکہ تمثیل سامنے آجائے استوقد نا را میں نار کو نکرہ تعظیم کے لیے لائے۔ صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ : (وہ گونگے بہرے اندھے ہیں) وہ بہرے ہیں حالانکہ ان کے حواس صحیح سالم تھے مگر جب انہوں نے حق کی طرف کان لگانے سے اپنے آپ کو روک دیا۔ اور زبانوں پر حق لانے سے انکار کردیا اور آنکھوں سے طریق حق کو دیکھنے سے انکار کردیا تو ان کو اس طرح قرار دیا گویا ان کے حواس آفت زدہ ہوگئے اور علماء بیان کے ہاں یہ اسی طرح ہے جیسے ہم لیوثٌ للشجعان و بحور للاسخیائ کہ وہ ایسے بہادروں کے لیے شیر اور سخیوں کے لیے سمندر ہیں۔ مگر یہ طریق صفات میں ہے۔ اور آیت میں وہ اسماء ہیں اور ان میں جاری ہے۔ تشبیہ بلیغ : آیت میں صحیح بات یہ ہے کہ تشبیہ بلیغ ہے۔ استعارہ نہیں کیونکہ جب مستعارلہٗ کا تذکرہ سمیٹ لیا گیا ہو اور کلام کو اس سے خالی رکھا جائے۔ مناسب یہ ہے کہ اس سے منقول عنہ اور منقول الیہ مراد لیا جائے۔ اگر دلالت حال یا انداز کلام نہ پایا جائے۔ لوٹنے کا مطلب : فَھُمْ لَایَرْجِعُوْنَ : (پس وہ نہ لوٹیں گے) نمبر 1: وہ ہدایت کی طرف نہیں لوٹیں گے۔ اس کے بعد کہ انہوں نے ہدایت کو بیچ ڈالا۔ نمبر 2: وہ گمراہی سے باز نہیں آئے اس کے بعد کہ انہوں نے گمراہی کو خرید لیا۔ کیونکہ کسی چیز کی طرف لوٹنا اور یہ ‘ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ نمبر 3: مراد یہ ہے کہ وہ حیران و پریشان اپنی جگہ پر جمے بیٹھے ہیں۔ نہ وہ لوٹتے ہیں اور نہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے آگے بڑھنا ہے یا پیچھے ہٹنا ہے۔
Top