Dure-Mansoor - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی پھر جب اس آگ نے اس شخص کے آس پاس کو روشن کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی کو ختم کردیا اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ دیکھ نہیں رہے ہیں
(1) امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، الصابونی نے المأتین میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” مثلہم کمثل الذی استوقدنارا “ اس میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے لیے مثال بیان فرمائی (یہ لوگ) منسوب ہوتے ہیں اسلام کی طرف مسلمانوں سے نکاح کرتے ہیں اور ان کے (مسلمانوں کے مال) وارث بن جاتے ہیں۔ اور ان کو فئی کا مال تقسیم کیا کرتے ہیں۔ جب یہ لوگ مرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اسلام والی عزت کو سلب کرلیتا ہے جیسے آگ والا آگ کی روشنی کو ختم کردیتا ہے لفظ آیت ” وترکیم فی ظلمت “ اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیتا ہے۔ یعنی عذاب میں لفظ آیت ” صم بکم عمی “ یعنی وہ ہدایت کو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ اس کو سمجھتے ہیں۔ ” او کصیب “ یعنی بارش، اس کی مثال قرآن میں بیان فرمائی ” فیہ ظلمت “ یعنی آزمائش ہے۔ منافقین کے لیے۔ ” ورعد وبرق “ یعنی ڈرانا ہے۔ لفظ آیت ” یکاد البرق یخطف ابصارھم “ قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو اچک لے یعنی قریب ہے کہ قرآن فیصلہ کرے گا۔ جو منافقین کی چھپی ہوئی باتوں کو بتائے گا۔ لفظ آیت ” کلما اضاء لہم مشوا فیہ “ جب بجلی چمکتی ہے تو اس کی روشنی میں چلتے ہیں) یعنی جب منافقوں کو اسلام سے عزت پہنچتی ہے تو مطمئن ہوتے ہیں اور اگر اسلام سے مصیبت پہنچتی ہے تو کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ومن الناس من یعبد اللہ علی حرف “ الآیہ اور بعض وہ لوگ ہیں کہ اللہ کی بندگی کنارے پر ہو کر کرتے ہیں۔ ایمان لانے کے بعد تذبذب (2) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ اور دوسرے صحابہ سے اس آیت کے بارے میں یہ نقل فرمایا کہ لفظ آیت ” کمثل الذی اس تو قدنارا “ (ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی) کہ لوگ مدینہ منورہ میں نبی اکرم ﷺ کے تشریف لانے پر اسلام میں داخل ہوئے۔ پھر منافق ہوگئے ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اندھیرے میں ہو اور آگ جلائے ” فلما اضاءت ماحولہ “ (روشنی کی وجہ سے) اور غلاظت یا تکلیف دینے والی چیز دور ہوجائے۔ وہ ان کو دیکھ لیتا ہے اور پہچان لیتا ہے ان چیزوں کو جن سے بچنا ہے اس درمیان وہ اسی حال میں ہوتا ہے کہ اس کی آگ اچانک بجھ جاتی ہے۔ اب وہ نہیں جانتا ہے کیسے ان تکلیف دینے والی چیزوں سے بچے اسی طرح منافق شرک کے اندھیرے میں تھا پھر اسلام لے آیا اور حرام میں سے حلال کو اور شر میں سے خٰر کو پہچان لیا۔ اس درمیان وہ اچانک پھر کافر ہوگیا۔ پھر وہ ایسا ہوگیا کہ حرام میں سے حلال کو اور شر میں سے خیر کو نہیں جانتا پس وہ ” صم بکم “ یعنی گونگے ہیں۔ ” فہم لا یرجعون “ اب وہ اسلام کی طرف (نہیں لوٹیں گے) ۔ اور لفظ آیت ” او کصیب “ کے بارے میں فرمایا کہ اہل مدینہ میں سے دو آدمی منافق تھے جو رسول اللہ ﷺ سے بھاگ کر مشرکین کی طرف چلے گئے تھے ان دونوں کو یہ بارش پہنچی جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا اس میں بادل کی شدید گرج چمک اور بجلی تھی۔ جب ان دونوں کو گرج پہنچتی تو وہ خوف کی وجہ سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے دیتے ہیں تاکہ اس یا نہ ہو کہ یہ گرج ان کے کانوں میں داخل ہوجائے اور ان کو ہلاک کر دے۔ جب بجلی چمکتی تو اس کی روشنی میں چلنے لگتے ہیں اور جب نہ چمکتی ہے تو کچھ نظر نہ آتا۔ اور وہ دونوں اپنی جگہ پر ٹھہرے رہتے ہیں اور نہ چل سکتے دونوں نے کہنا شروع کیا۔ کاش کہ جلدی صبح کا وقت ہوجاتا ہم محمد ﷺ کے پاس آتے اور ہم اپنے ہاتھوں کو اس کے ہاتھوں میں رکھتے۔ جب صبح ہوئی تو وہ دونوں آپ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا۔ اپنے ہاتھوں کو آپ کے ہاتھ میں رکھا اور ان کا اسلام بہت اچھا ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں منافقوں خارجیوں کی حالت کو بیان فرمایا۔ مثال بیان فرمائی ان منافقین کو جو مدینہ منورہ میں تھے اور منافق جب نبی اکرم ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتے تو اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں دیتے اس بات سے ڈرتے ہوئے کہ نبی اکرم ﷺ کے کلام میں کچھ ہمارے بارے میں نازل ہوجائے۔ یا صحابہ کرام ؓ ایسی چیز کا ذکر کردیں ہمارے بارے میں اور وہ ان دونوں منافقوں خارجیوں کی طرح قتل کر دئیے جائیں۔ اسی لئے وہ اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں کرتے ہیں لفظ آیت ” واذا اضاء لہم مشوا فیہ “ جب ان کے بالوں اور اولاد میں کثرت ہوگئی اور ان کو غنیمت کا مال اور فتح پہنچ گئی یعنی کہنے لگتے ہیں کہ محمد ﷺ کا دین اب سچا ہے۔ اور اس پر پکے ہوجاتے ہیں۔ جیسے وہ دو منافق چلتے تھے جب ان کے لیے بجلی چمکتی تھی۔ لفظ آیت ” واذا اظلم علیہم قاموا “ یعنی جب ان کے مال اور ان کی اولاد ہلاک ہوگئے اور ان کو مصیبت پہنچی تو کہنے لگے کہ یہ دین محمد ﷺ کی وجہ سے ہے ان پر اندھیرا چھا گیا (یعنی ایمان کی روشنی کے بعد کفر کا اندھیرا ان پر چھا گیا) ۔ سدی نے اسی طرح روایت کیا ہے (3) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت ” کمثل الذی اس تو قدنارا “ کے بارے میں یہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافق کے لیے مثال بیان فرمائی اور قولہ لفظ آیت ” ذھب اللہ بنورھم “ میں النور سے مراد ہے ان کا ایمان جس کے ذریعہ وہ بات کرتے ہیں اور الظلمۃ سے مراد ہے کہ ان کی گمراہی اور ان کا کفر۔ وفی قولہ ” او کصیب “ الآیہ فرمایا ” الصیب “ سے مراد ہے بارش اور وہ اس منافق کی ماثل ہے جو اللہ کی کتاب کی روشنی میں بات کرتا ہے اور لوگوں کے دکھاوے کے لیے عمل کرتا ہے جب اکیلا ہوتا ہے تو اس کے علاوہ برے عمل کرتا ہے سو وہ کفر کے اندھیرے میں جس عمل پر وہ قائم ہے اور ” الظلمت “ سے مراد ہے گمراہی اور ” البرق “ سے مراد ہے ایمان اور وہ اہل کتاب ہیں۔ لفظ آیت ” واذا اظلم علیہم “ سے مراد وہ آدمی ہے جو حق کے ایک کنارے کو پکڑتا ہے اور اسے سے تجاوز کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ (4) امام ابن اسحاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت ” مثلہم “ الآیہ کے بارے میں یہ نقل فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی مثال بیان فرمائی جو حق کو دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ کہتے بھی ہیں یہاں تک کہ جب وہ نکلے کفر کے اندھیرے سے تو انہوں نے بجھا دیا اس حق کو اپنے کفر اور اپنے نفاق کے ساتھ۔ پس چھوڑ دیا گیا ان کو کفر کے اندھیروں میں اب وہ ہدایت کو نہیں دیکھتے اور نہ حق پر قائم رہتے ہیں ” صم بکم عمی “ یعنی وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں۔ لفظ آیت ” فھم لا یرجعون “ یعنی وہ اب نہیں لوٹیں گے۔ ہدایت کی طرف۔ اور نہ خیر کی طرف۔ لفظ آیت ” وفی قولہ او کصیب “ الآیہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس کفر کی وجہ سے قتل سے ڈر مسلمانوں سے اختلاف اور تمہارے ڈرانا وغیرہ کی تاریکیوں کی مثال ہے جیسے کوئی شخص بارش کے اندھیرے میں ہو اور اس نے گرج کی وجہ سے اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں کردیا موت کے ڈر سے ” حذر الموت، واللہ محیط بالکفرین “ اور اللہ کا عذاب ان پر اترنے والا ہے۔ لفظ آیت ” یکاد البرق یخطف ابصارھم “ یعنی حق کی شدید روشنی ان کی آنکھ اچک لے ” کلما اضاء لہم مشو فیہ “ یعنی وہ پہچانتے ہیں حق کو اور اس کے ساتھ بات کرتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ حق پر قائم ہیں۔ اچانک اس سے کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں یعنی حق سے کفر کی طرف ” قاموا “ یعنی حیرانی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں لفظ آیت ” ولو شاء اللہ لذھب بسمعھم “ یعنی جب انہوں نے سنا تو حق کو اس کے پہچاننے کے بعد چھوڑ دیا۔ (5) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد سے روایت کیا لفظ آیت ” مثلہم کمثل الذی استوقدنارا “ یعنی آگ کے روشن ہونے سے مراد ہے ان کا مؤمنین اور ہدایت کی طرف متوجہ ہونا اور ان کے نور کے لیے جانے سے مراد ہے ان کا کافروں اور گمراہی کی طرف متوجہ ہونا اور بجلی کا روشن ہونا اور اس کا اندھیرا ہونا۔ یہ مثال بھی اسی طرح ہے۔ لفظ آیت ” واللہ محیط بالکفرین “ یعنی ان کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔ منافق کے لئے اندھیرا (6) حضرت قتادہ سے اس آیت ” مثلہم کمثل الذی استوقد نارا “ کے بارے میں یہ نقل فرمایا ہے کہ یہ مثال اللہ تعالیٰ نے منافق کے لیے بیان فرمائی ہے۔ بلاشبہ منافق جب لا الہ الا اللہ کے ساتھ بات کرتا ہے تو وہ مسلمانوں سے نکاح کرتا ہے اور وارث بنتا ہے اس کے ساتھ مسلمانوں کا اور شریک ہوتا ہے جنگوں میں سے اس کے ساتھ مسلمانوں سے بچا لیتا ہے ساتھ اس کے اپنے خون کو اور اپنے مال کو۔ پھر جب اس کی موت قریب ہوتی ہے تو اس کے دل میں کلمہ کی کوئی اصل نہیں ہوتی اور اس کے عمل میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور موت کے وقت منافق سے اس کلمہ کو سلب کرلیا جاتا ہے پھر اس کو اندھیروں میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ اندھا ہو کر ان میں حیران پھرتا ہے۔ جیسا کہ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حق سے اور اس کی اطاعت سے اندھا تھا۔ اور حق سے بہرا ہے سو وہ اس کو نہیں دیکھ پاتا ” فھم لا یرجعون “ یعنی وہ اپنی گمراہی سے نہیں لوٹتے ہیں اور نہ وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں لفظ آیت ” او کصیب من السماء فیہ ظلمت ورعد وبرق، یجعلون اصابعھم فی اذانھم من الصواعق حذر الموت “ فرمایا یہ مثال اللہ تعالیٰ نے منافق کی بزدلی کے لیے بیان فرمائی۔ کہ وہ ایسا بزدل ہوتا ہے کہ جب کوئی آواز سنتا ہے تو گمان کرتا ہے کہ وہ ابھی مجھ پر گرے گی۔ اور جب کوئی چنگھاڑ کو سنتا ہے تو وہ گمان کرتا ہے کہ میں ابھی مراقوم نے بزدل بنا دیا حق کے لیے اس کی مدد چھوڑ دی اور اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا ” یحسبون کل صیحۃ علیہم “ (المطففین) اور لفظ آیت ” یکاد البرق یخطف ابصارھم “ الآیہ فرمایا ” البرق “ سے مراد ہے اسلام اور الظلمۃ سے مراد ہے بلا اور فتنہ جب منافق اسلام میں سکون، عافیت نرمی اور زندگی کی راحتوں کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے ” قالوا انا معکم “ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تم میں سے ہیں اور جب اسلام میں شدت بلا کر دیکھتا ہے تو شدت کے وقت آواز اس کے گلے میں اٹک جاتی ہے اور امتحان میں صبر نہیں کرتا اور اس کے ثواب کی امید نہیں رکھتا ہے اور وہ اس منافق دنیا کا بندہ ہوتا ہے دنیا کی خاطر خوش ہوتا ہے۔ اور دنیا کی خاطر ناراض ہوتا ہے اور وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کی صفات کو بیان فرمایا۔ (7) امام وکیع، عبد بن حمید اور ابو یعلی نے اپنی مسند میں ابن جریر ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے العظمہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” او کصیبت من السماء “ سے مراد بارش ہے۔ مجاہد، ربیع اور عطاء نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (8) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” انم الصیب “ وہاں سے ہے اور اپنے ہاتھ مبارک سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا۔ (9) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” یکاد البرق “ سے مراد ہے بجلی چمکتی ہے ” یخطف ابصارھم “ لیکن اس نے ان کی آنکھوں کو اچکا نہیں۔ اور ہر چیز قرآن میں کادوا کا دو کادوا “ سے مراد ہے ہم کہ وہ فعل کبھی نہیں پایا جائے گا۔ (10) وکیع نے مبارک بن فضالہ سے روایت کیا ہے میں نے حضرت حسن کو اس آیت کو یوں پڑھتے ہوئے سنا لفظ آیت ” یکاد البرق یخطف ابصارھم “۔
Top