Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
‘ ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ جلائی، جب آگ نے اس کے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کرلی اور ان کو ایسی تاریکیوں میں چھوڑ دیا جن میں ان کو کچھ نظر نہیں آتا
مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْ قَدَ نَارًاج فَلَمَّآاَضَآئَ تْ مَاحَوْلَہٗ ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ وَتَرَکَھُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لاَّیُبْصِرُوْنَ ۔ صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْی فَھُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ ۔ (ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ جلائی، جب آگ نے اس کے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کرلی اور ان کو ایسی تاریکیوں میں چھوڑ دیا جن میں ان کو کچھ نظر نہیں آتا یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اب یہ لوٹنے والے نہیں ہیں) (البقرۃ : 17 تا 18) منافقین کی دو تمثیلیں اس آیت کریمہ میں جن لوگوں کی مثال دی گئی ہے، وہ دو طرح کے لوگ ہوسکتے ہیں یا تو وہ لوگ مراد ہیں جن کا ذکر ان الذین کفروا الخ والی آیت میں آیا ہے یعنی وہ لوگ جن کے دلوں اور کانوں پر اللہ نے مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دئیے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی سرداری کے زعم اور دنیا کی محبت میں ڈوب کر ایسا رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے وہ قبولیت حق کی استعداد سے محروم ہوتے گئے اور بالآخر اللہ کے قانون کی گرفت میں آگئے اور یا اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو منافق تھے بظاہر ایمان کا اظہار کرتے تھے لیکن حقیقت میں ان کے دل میں ایمان کی رمق نہ تھی۔ وہ نام کے مومن تھے لیکن دل و دماغ کے کافر تھے۔ ان کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے شدید تاریکی میں کوئی قافلہ جارہا ہے اور تاریکی کے باعث ان کے لیے راستہ تلاش کرنا ناممکن ہورہا ہے کہ اچانک اللہ کے ایک بندے نے آگ روشن کردی تاکہ یہ لوگ آگ کی روشنی میں منزل تک پہنچنے کا راستہ پہچان سکیں۔ لیکن جب اس روشنی نے پوری طرح ماحول کو روشن کردیا اور صحیح راستہ پہچان کر منزل تک پہنچنے میں کوئی دشواری باقی نہ رہی اور ساتھ ساتھ آگ روشن کرنے والا نہائت ہمدردی اور خیر خواہی سے انھیں اس روشنی میں چلنے کی تلقین بھی کرتارہا اور راستے کی رہنمائی بھی کرتارہا لیکن اچانک ان کی بدقسمتی نے انھیں آپکڑا کہ انھوں نے اس روشنی میں چلنے سے انکار کردیا اب آپ اندازہ فرمائیے کہ روشنی پھیل جانے کے باعث تاریکیاں سمٹ گئیں ہیں۔ لیکن یہ بدنصیب مسافر آنکھیں بند کیے اس روشنی کی طرف منہ کیے بیٹھے ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انھیں آنکھوں کے نور سے محروم کردیا ہے اور پھر وہ تاریکیوں میں اس طرح گھر گئے ہیں کہ انھیں راستہ نظر نہیں آرہا۔ یہ مثال دے کر واضح فرمایا جارہا ہے کہ حضور کی بعثت سے پہلے تمام لوگ گمراہیوں کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے طبقات انسانی میں سے ایک ایک طبقہ اپنے اپنے توہمات کا شکار تھا کسی کو معلوم نہ تھا کہ زندگی کا راز کیا ہے اور زندگی عطا کرنے والے کو کس طرح خوش کیا جاسکتا ہے۔ ہر طرف سے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے علم و دانش کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا کہ اچانک اللہ کی غیرت کو جوش آیا کہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو ہدایت دے کر مبعوث فرمایا آپ نے تشریف لاکر اس قوت سے تبلیغ و دعوت کا صور پھونکا کہ ہر طرف ہدایت کی روشنی پھیل گئی اب بجائے اس کے کہ لوگ لپکتے ہوئے اس روشنی کو قبول کرتے اور زندگی کا سفر کامیابی سے طے کرتے لیکن ان کے قومی تعصبات، نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات نے انھیں مجبور کردیا کہ وہ یا تو اس روشنی کا بائیکاٹ کردیں یا اس روشنی کو بجھانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جب صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی اور تمرد کو دیکھ کر ان کی محرومی کا فیصلہ فرمادیا۔ ان کی آنکھوں کا نور ُ ان سے چھین لیا۔ اور وہ کفر، شرک اور نفاق کی ایسی تاریکیوں میں ڈوب گئے کہ اب ان کو اس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ اب ان کی بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی صلاحیت سے محروم کردئیے گئے ہیں۔ وہ اندھے ہیں کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے گونگے ہیں کسی کو پکار نہیں سکتے اور بہرے ہیں کسی کی پکار سن نہیں سکتے انھوں نے مسلسل انکار اور سرکشی کے باعث چونکہ اپنی صلاحیتوں کو بالکل مردہ کردیا جس کی وجہ سے وہ اللہ کے اس قانون کی گرفت میں آگئے جس قانون کے تحت دل و دماغ پر مہر کردی جاتی ہے۔ چناچہ اب وہ ہدایت کی طرف لوٹ نہیں سکتے۔
Top