Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 52
هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِهٖ وَ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠   ۧ
هٰذَا بَلٰغٌ : یہ پہنچادینا (پیغام) لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ : اور لِيُنْذَرُوْا : تاکہ وہ ڈرائے جائیں بِهٖ : اس سے وَلِيَعْلَمُوْٓا : اور تاکہ وہ جان لیں اَنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا وَّلِيَذَّكَّرَ : اور تاکہ نصیحت پکڑیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
یہ خبر پہنچا دینی ہے لوگوں کو اور تاکہ چونک جائیں اس سے اور تاکہ جان لیں کہ معبود وہی ایک ہے اور تاکہ سوچ لیں عقل والے۔
ایک یاد داشت اور اطلاع
احقر ناکارہ نہ اس کا اہل تھا کہ تفسیر قرآن لکھنے کی جرأت کرے نہ کبھی اس خیال کی ہمت کرتا تھا البتہ اپنے مرشد حضرت حکیم الامت تھانوی کی تفسیر بیان القرآن کو جو اس زمانہ کی بےنظیر متوسط تفسیر ہے نہ بہت مختصر کہ مضمون قرآن سمجھنا مشکل ہو نہ بہت طویل کہ پڑھنا مشکل ہو پھر خداداد علم وذکاوت اور تقوی و طہارت کی برکت سے اقوال مختلفہ میں ایک کو ترجیح دے کر لکھ دینے کا جو خاص ذوق حق تعالیٰ نے موصوف کو عطا فرمایا تھا وہ بڑی تفسیروں سے بھی حاصل ہونا مشکل تھا مگر یہ تفسیر حضرت نے اہل علم کے لئے انہی کی زبان اور علمی اصطلاحوں میں لکھی ہے عوام خصوصا اس زمانہ کے عوام جو عربی زبان اور اس کی اصطلاحات سے بہت دور ہوچکے ہیں ان کو اس تفسیر سے استفادہ مشکل تھا۔
اس لئے یہ خیال اکثر رہا کرتا تھا کہ اس کے مضامین عجیبہ کو آج کل کی آسان زبان میں لکھا جائے مگر یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔
بحکم قضاء وقدر اس کی ابتداء اس طرح ہوگئی کہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر صاحب نے مجھ پر اصرار کیا کہ ریڈیو پر ایک سلسلہ قرآن کی خاص خاص آیات کا بعنوان معارف القرآن جاری کیا جائے ان کا اصرار اس کام کے آغاز کا سبب بن گیا اور ریڈیو پاکستان پر ہر جمعہ کے روز جمعہ 3 شوال 1373 ھ مطابق 2 جولائی 1954 سے شروع ہو کر 15 صفر 1384 مطابق 25 جون 1964 ء تک جاری رہا جو سورة ابراہیم کے اختتام پر منجانب محکمہ ریڈیو پاکستان ختم کردیا گیا۔
حق تعالیٰ نے اس کو میرے وہم و گمان سے زیادہ مقبولیت عطا فرمائی اور اطراف عالم سے اس کو کتابی صورت میں طبع کرنے کا تقاضا ہوا اس کا ارادہ کیا تو جتنا کام اس وقت تک ہوچکا تھا وہ بھی اس لحاظ سے ناتمام تھا کہ یہ سلسلہ منتخب آیات کا تھا درمیانی آیات کو جو خالص علمی تھیں ریڈیو پر عوام کو ان کی تفسیر سمجھانا آسان نہ تھا وہ رہ گئی تھیں کتابی شکل میں طبع کرنے کے لئے ان کا سلسلہ بھی پورا کرنا تھا جو بوجہ وقتی مشاغل کے پورا کرنا مشکل تھا۔
عجائب قدرت سے ہے کہ رمضان 1388 ھ میں احقر سخت بیمار ہو کر نقل و حرکت سے معذور صاحب فراش ہوگیا اور موت سامنے محسوس ہونے لگی تو اس کا افسوس ستانے لگا کہ یہ مسودات یوں ہی ضائع ہوجائیں گے حق تعالیٰ نے دل میں یہ داعیہ پیدا فرما دیا کہ لیٹے بیٹھے معارف القرآن کے مسودات پر نظر ثانی اور درمیانی آیات جو رہ گئی ہیں ان کی تکمیل کسی طرح اسی حالت میں کردی جائے ادھر بیماری کا سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا بیماری نے تمام دوسرے مشاغل پہلے ہی چھڑا دیئے تھے اب صرف یہی مشغلہ رہ گیا اس لئے قدرت کے عجیب و غریب انتظام نے اسی بیماری میں بحمد اللہ یہ کام 29 رجب 1390 ھ تک پورا کرا دیا۔
یہاں تک کہ سورة ابراہم کا ختم اور قرآن پاک کے تیرا پارے اسی ریڈیو کی نشری دروس کے ذریعہ پورے ہوگئے۔
اب اللہ تعالیٰ نے اگے حصہ لکھنے کی توفیق وہمت بھی عطا فرما دی نقل و حرکت سے معذوری کی تکلیف بھی رفع فرمادی اگرچہ سلسلہ مختلف امراض کا تقریبا مسلسل رہا اور ضعف بھی بڑہتا رہا مگر اللہ کے فضل وکرم اور اسی کی امداد سے 30 شعبان 1390 ھ سے قرآن کے اگلے پاروں کی تفسیر کا لکھنا شروع ہو کر اس وقت جبکہ معارف القرآن کی تین جلدیں چھپ کر شائع ہوچکی ہیں یعنی 25 صفر 1391 ھ میں اس تفسیر کا مسودہ قرآن کریم کی چوتھی منزل سورة فرقان انیسویں پارے تک بعون اللہ سبحانہ مکمل ہوچکا ہے۔
اس وقت بھی مختلف امراض اور ضعف کا سلسلہ بھی ہے اور بحمداللہ یہ کام بھی جاری ہے کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرما دیں
وما ذالک علی اللہ بعزیز۔
بندہ محمد شفیع
25 صفر 1391 ھ
Top