Maarif-ul-Quran - Maryam : 84
فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّاۚ
فَلَا تَعْجَلْ : سو تم جلدی نہ کرو عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّمَا : صرف نَعُدُّ : ہم گنتی پوری کر رہے ہیں لَهُمْ : ان کی عَدًّا : گنتی
سو تو جلدی نہ کر ان پر ہم تو پوری کرتے ہیں ان کی گنتی
اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا، مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے عذاب کے بارے میں جلدی نہ کریں وہ تو عنقریب ہونے ہی والا ہے کیونکہ ہم نے ان کو گنے چنے ایام اور جو مدت دنیا میں رہنے کی دی ہے وہ بہت جلدی پوری ہونے والی ہے اس کے بعد عذاب ہی عذاب ہے نَعُدُّ لَهُمْ ، یعنی ہم ان کیلئے شمار کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کوئی چیز آزاد نہیں ان کی عمر کے دن رات گنے ہوئے ہیں، ان کے سانس، ان کی نقل و حرکت کا ایک ایک قدم، ان کی لذات ان کی زندگی کا ایک ایک لحظہ ہم گن رہے ہیں، یہ گنتی پوری ہوتے ہی ان پر عذاب ٹوٹ پڑے گا۔
مامون رشید نے ایک مرتبہ سورة مریم پڑھی۔ جب اس آیت پر پہنچے تو حاضرین مجلس جو علماء فقہاء تھے ان میں سے ابن سماک کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے متعلق کچھ کہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ جب ہماری سانس گنے ہوئے ہیں ان پر زیادتی نہیں ہو سکتی تو یہ کس قدر جلد ختم ہوجائیں گے اسی کو بعض شعراء نے کہا ہے
حیاتک انفاس تعد فکلما مضی نفس منک انتقصت بہ جزءًا
یعنی تیری زندگی کے سانس گنے ہوئی ہیں، جب ایک سانس گزرتا ہے تو تیری زندگی کا ایک جز کم ہوجاتا ہے کہا جاتا ہے کہ انسان دن رات میں چوبیس ہزار سانس لیتا ہے۔ (قرطبی)
اور بعض حضرات نے فرمایا
وکیف یفرح بالدنیا ولذ تھا فتی یعد علیہ اللفظ والنفس
یعنی دنیا اور اس کی لذت پر وہ شخص کیسے مگن اور بےفکر ہوسکتا ہے جس کے الفاظ اور سانس گنے جارہے ہوں (روح)
Top