Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 13
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
وَإِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں آمِنُوا : تم ایمان لاؤ کَمَا : جیسے آمَنَ : ایمان لائے النَّاسُ : لوگ قَالُوا : وہ کہتے ہیں أَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں کَمَا : جیسے آمَنَ السُّفَهَاءُ : ایمان لائے بیوقوف أَلَا إِنَّهُمْ : سن رکھو خود وہ هُمُ السُّفَهَاءُ : وہی بیوقوف ہیں وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ : لیکن وہ جانتے نہیں
اور جب کہا جاتا ہے ان کو ایمان لاؤ جس طرح ایمان لائے سب لوگ تو کہتے ہیں کیسا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بیوقوف جان لو وہی ہیں بیوقوف لیکن نہیں جانتے
چھٹی آیت میں منافقین کے سامنے صحیح ایمان کا ایک معیار رکھا گیا کہ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاس یعنی ایمان لاؤ جیسے ایمان لائے اور لوگ، اس میں ناس سے مراد باتفاق مفسرین صحابہ کرام ہیں کیونکہ وہی حضرات ہیں جو نزول قرآن کے وقت ایمان لائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف وہی ایمان معتبر ہے جو صحابہ کرام کے ایمان کی طرح ہو جن چیزوں میں جس کیفیت کے ساتھ ان کا ایمان ہے اسی طرح کا ایمان دوسروں کا ہوگا تو ایمان لیا جائے گا، ورنہ نہیں اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کریم کا ایمان ایک کسوٹی ہے جس پر باقی ساری امت کے ایمان کو پرکھا جائے گا جو اس کسوٹی پر صحیح نہ ہو اس کو شرعا ایمان اور ایسا کرنے والے کو مومن نہ کہا جائے گا اس کے خلاف کوئی عقیدہ اور عمل خواہ ظاہر میں کتنا ہی اچھا نظر آئے اور کتنی ہی نیک نیتی سے کیا جائے اللہ کے نزدیک ایمان معتبر نہیں ان لوگوں نے صحابہ کرام کو سفہاء یعنی بیوقوف کہا اور یہی ہر زمانے کے گمراہوں کا طریقہ رہا ہے کہ جو ان کو صحیح راہ بتلائے اس کو جاہل قرار دیتے ہیں مگر قرآن کریم نے بتلا دیا کہ درحقیقت وہ خود ہی بیوقوف ہیں کہ ایسی کھلی نشانیوں پر ایمان نہیں رکھتے،
یہ تیرہ (13) آیتیں منافقین کے حال و مثال پر مشتمل ہیں ان میں بہت سے احکام و مسائل اور اہم ہدایات بھی ہیں،
(1) کیا کفر ونفاق عہد نبوی کے ساتھ مخصوص تھا یا اب بھی موجود ہیں ؟
اس معاملہ میں صحیح یہ ہے کہ منافق کے نفاق کو پہچاننا اور اس کو منافق قرار دینا دو طریقوں سے ہوتا تھا ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بذریعہ وحی بتلا دیا کہ فلاں شخص دل سے مسلمان نہیں منافق ہے دوسرے یہ کہ اس کے کسی قول و فعل سے کسی عقیدہ اسلام کے خلاف کوئی بات یا اسلام کی مخالفت کا کوئی عمل ظاہر اور ثابت ہوجائے،
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد انقطاع وحی کے سبب ان کے پہچاننے کی پہلی صورت تو باقی نہ رہی مگر دوسری صورت اب بھی موجود ہے جس شخص کے کسی قول وفعل سے اسلامی قطعی عقائد کی مخالفت یا ان پر استہزاء یا تحریف ثابت ہوجائے مگر وہ اپنے ایمان واسلام کا مدعی بنے تو وہ منافق سمجھا جائے گا ایسے منافق کا نام قرآن کریم کی اصطلاح میں ملحد ہے، الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا (4: 41) اور حدیث میں اس کو زندیق کے نام سے موسوم کیا گیا ہے مگر چونکہ اس کا کفر دلیل سے ثابت اور واضح ہوگیا اس لئے اس کا حکم سب کفار جیسا ہوگیا الگ کوئی حکم اس کا نہیں ہے اسی لئے علماء امت نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد منافقین کا قضیہ ختم ہوگیا اب جو مومن نہیں وہ کافر کہلائے گا
حضرت امام مالک سے عمدہ شرح بخاری میں نقل کیا گیا ہے کہ زمانہ نبوت کے نفاق کی یہی صورت ہے جس کو پہچانا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے والے کو منافق کہا جاسکتا ہے
Top