Maarif-ul-Quran - An-Naml : 11
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظَلَمَ : ظلم کیا ثُمَّ بَدَّلَ : پھر اس نے بدل ڈالا حُسْنًۢا : بھلائی بَعْدَ : بعد سُوْٓءٍ : برائی فَاِنِّىْ : تو بیشک میں غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
مگر جس نے زیادتی کی پھر بدلے میں نیکی کی برائی کے پیچھے تو میں بخشنے والا مہربان ہوں
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْـنًۢا بَعْدَ سُوْۗءٍ فَاِنِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، اس سے پہلی آیت میں موسیٰ ؑ کے معجزہ عصا کا ذکر ہے جس میں یہ بھی مذکور ہے کہ عصا جب سانپ بن گیا تو موسیٰ خود بھی اس سے ڈر کر بھاگنے لگے۔ آگے بھی موسیٰ ؑ کے دوسرے معجزہ ید بیضا کا بیان ہے درمیان میں اس استثناء کا ذکر کس لئے کیا گیا اور یہ استثناء منقطع ہے یا متصل اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں بعض حضرات نے استثناء کو منقطع قرار دیا ہے تو مضمون آیت کا یہ ہوگا کہ پہلی آیت میں انبیاء (علیہم السلام) پر خوف نہ ہونے کا ذکر تھا بسبیل تذکرہ ان لوگوں کا بھی ذکر کردیا جن پر خوف طاری ہونا چاہئے یعنی وہ لوگ جن سے کوئی خطا سر زد ہوئی پھر توبہ کر کے نیک عمل اختیار کر لئے ایسے حضرات کی اگرچہ اللہ تعالیٰ خطا معاف کردیتے ہیں مگر معافی کے بعد بھی گناہ کے بعض آثار باقی رہنے کا احتمال ہے اس سے یہ حضرات ہمیشہ خائف رہتے ہیں اور اس استثناء کو متصل قرار دیں تو معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ اللہ کے رسول ڈرا نہیں کرتے بجز ان کے جن سے کوئی خطا یعنی گناہ صغیرہ سر زد ہوگیا ہو پھر اس سے بھی توبہ کرلی ہو، تو اس توبہ سے یہ صغیرہ گناہ معاف ہوجاتا ہے اور صحیح تر یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سے جو لغزشیں ہوئی ہیں وہ درحقیقت گناہ ہی نہ تھے نہ صغیرہ نہ کبیرہ، البتہ صورت گناہ کی تھی اور درحقیقت وہ اجتہادی خطائیں ہوئی ہیں۔ اس مضمون میں اشارہ اس طرف پایا گیا کہ حضرت موسیٰ سے جو ایک لغزش قبطی کے قتل کی ہوگئی وہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردی مگر اس کا یہ اثر اب بھی رہا کہ موسیٰ ؑ پر خوف طاری ہوگیا اگر یہ لغزش نہ ہوتی تو یہ وقتی خوف بھی نہ ہوتا۔ (قرطبی)
Top