Mutaliya-e-Quran - An-Naml : 11
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظَلَمَ : ظلم کیا ثُمَّ بَدَّلَ : پھر اس نے بدل ڈالا حُسْنًۢا : بھلائی بَعْدَ : بعد سُوْٓءٍ : برائی فَاِنِّىْ : تو بیشک میں غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اِلّا یہ کہ کسی نے قصور کیا ہو پھر اگر برائی کے بعد اُس نے بھَلائی سے اپنے فعل کو بدل لیا تو میں معاف کرنے والا مہربان ہوں
اِلَّا [ مگر ] مَنْ [ جس نے ] ظَلَمَ [ ظلم کیا ] ثُمَّ [ پھر ] بَدَّلَ [ بدلہ میں کی ] حُسْـنًۢا [ نیکی ] بَعْدَ سُوْۗءٍ [ برائی کے بعد ] فَاِنِّىْ [ تو بیشک میں ] غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہوں ] رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہوں ] نوٹ۔ 2: آیت ۔ 11 ۔ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ پچھلی آیت میں انبیاء (علیہ السلام) پر خوف نہ ہونے کا ذکر تھا، پھر بسبیل تذکرہ ان لوگوں کا بھی ذکر کردیا جن پر خوف طاری ہونا چاہیے، یعنی وہ لوگ جن سے کوئی خطا سرزد ہوئی پھر توبہ کرکے نیک عمل اختیار کرلئے۔ ایسے حضرات کی اگرچہ اللہ تعالیٰ خطا معاف کردیتے ہیں مگر معانی کے بعد گناہ کے بعض آثار باقی رہنے کا احتمال ہے، اس سے یہ حضرات ہمیشہ خائف رہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ کے رسول ڈرا نہیں کرتے بجز ان کے جن سے کوئی خطا سرزد ہوگئی ہو پھر توبہ بھی کرلی ہو۔ اس میں اشارہ اس طرف پایا گیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بلا ارادہ ایک قبطی کا قتل ہوگیا تھا۔ وہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا مگر اس کا یہ اثر رہ گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر خوف طاری ہوگیا۔ اگر یہ لغزش نہ ہوتی تو یہ وقتی خوف بھی نہ ہوتا۔ (معارف القرآن) ہمارے مستقل معاون اسکواڈرن لیذر (ر) حافظ عزیز احمد صاحب کی رائے میں ایک امکان یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ خوف اسی طرح کا خوف ہو جو پہلی وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ کو لاحق ہوا۔ آخر یہ بھی تو پہلی ہی وحی تھی۔ واللہ اعلم۔
Top