Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 11
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظَلَمَ : ظلم کیا ثُمَّ بَدَّلَ : پھر اس نے بدل ڈالا حُسْنًۢا : بھلائی بَعْدَ : بعد سُوْٓءٍ : برائی فَاِنِّىْ : تو بیشک میں غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
ہاں مگر جو کسی برائی کا مرتکب ہوا پھر اس نے برائی کے بعد اس کو بھلائی سے بدل دیا تو میں بخشنے والا اور مہربان ہوں
حضرت موسیٰ کے ایک اندیشہ کا ازالہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور سلیم الفطرت بندوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب ان کو کوئی اندیشے کی حالت پیش آتی ہے تو فوراً ان کا ذہن اپنی کسی غلطی کی طرف جاتا ہے کہ مبادایہ اسی کا خمیازہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا ذہن اس موقع پر قبطی کے قتل کے واقعہ کی طرف منتقل ہوا ہو۔ اگرچہ اس کے بعد حضرت موسیٰ کا ازالہ نے توبہ کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول بھی فرمالی تھی لیکن حضرات انبیاء اور صالحین اپنا محاسبہ کرنے میں بڑے محتاط ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے لایخاف لدی المرسلون کے وعدہ بشارت کو موکد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو یہ اطمینان بھی دلادیا کہ میرے کسی بندے سے اگر کوئی غلطی صادر ہوجاتی ہے۔ پھر وہ توبہ واصلاح سے اس کی تلافی کردیتا ہے تو میں اس کو معاف کردیتا ہوں، میں بڑا ہی غفور و رحیم ہوں۔ اس بات کو یہاں عام صیغے میں فرما کر اس کے فیض کو ہمہ گیر کردیا ہے کہ یہ معاملہ کچھ تمہارے ہی لئے خاص نہیں ہے بلکہ میں اپنے ہر بندے کے ساتھ یہی معاملہ کرتا ہوں۔
Top