Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا١ؕ وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں اَمْوَالَ : مال الْيَتٰمٰى : یتیموں ظُلْمًا : ظلم سے اِنَّمَا : اس کے سوا کچھ نہیں يَاْكُلُوْنَ : وہ بھر رہے ہیں فِيْ : میں بُطُوْنِھِمْ : اپنے پیٹ نَارًا : آگ وَسَيَصْلَوْنَ : اور عنقریب داخل ہونگے سَعِيْرًا : آگ (دوزخ)
جو لوگ کہ کھاتے ہیں مال یتیموں کا ناحق وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب داخل ہوں گے آگ میں۔
یتیم کا مال ظلماً کھانا پیٹ میں انگارے بھرتا ہے
چوتھی آیت میں یتمیوں کے مال میں ناجائز تصرف کرنے والوں کے لئے وعید شدید کا بیان ہے، کہ جو شخص ناجائز طور پر یتیم کا مال کھاتا ہے وہ اپنے پٹ میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے۔
اس آیت نے یتیم کے مال کو جہنم کی آگ قرار دیا ہے، بہت سے مفسرین نے اس کو تشبیہ اور کنایہ پر محمول کیا ہے، یعنی یتیموں کا مال ناحق کھانا ایسا ہے جیسے کوئی پیٹ میں آگ بھرے، کیونکہ اس کا انجام بالآخر قیامت میں ایسا ہی ہونے والا ہے، مگر اہل تحقیق کا قول یہ ہے کہ آیت میں کوئی مجاز اور کتابہ نہیں ہے، بلکہ جو مال یتیم کا ناجائز طریقہ سے کھایا جائے وہ حقیقت میں آگ ہی ہے، اگرچہ اس وقت اس کی صورت آگ کی معلوم نہ ہوتی ہو، جیسے کوئی شخص دیا سلائی کو کہے کہ یہ آگ ہے، یا سنکھیا کو کہے کہ قاتل ہے، تو ظاہر ہے کہ دیاسلائی کو ہاتھ میں لینے سے ہاتھ نہیں جلتا اور سنکھئے کو ہاتھ میں لینے سے بلکہ منہ میں رکھنے سے بھی کوئی آدمی نہیں مرتا، البتہ ذرا سی رگڑ کھانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جس نے دیا سلائی کو آگ کہا تھا وہ صحیح کہا تھا اسی طرح حلق کے نیچے اترنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سنکھیا کو قاتل کہنے والا سچا تھا، قرآن کریم کے عام اطلاقات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان جو عمل نیک یا بد کر رہا ہے یہی عمل جنت کے درخت اور پھل پھول ہیں یہ جہنم کے انگارے ہیں، اگرچہ ان کی صورت یہاں اور ہے، مگر قیامت کے روز اپنی شکلوں میں متشکل ہو کر سامنے آئیں گی، قرآن کریم کا ارشاد ہےووجدواما عملوا حاضراً یعنی قیامت کے روز وہ اپنے کئے ہوئے کو موجود پائیں گے، یعنی جو عذاب وثواب ان کو نظر آئے گا وہ حقیقت میں ان کا اپنا عمل ہوگا۔
بعض روایات میں ہے کہ یتیم کا مال ناحق کھانے والا قیامت کے روز اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ پیٹ کے اندر سے آگ کی لپٹیں اس کے منہ، ناک اور کانوں آنکھوں سے نکل رہی ہوں گی۔
اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک قوم قیامت کے روز اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے منہ آگ سے بھڑک رہے ہوں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کون لوگ ہوں گے، آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلماً (ابن کثیر 654 ج 1)
آیت کے مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ یتیم کا مال جو ناحق کھایا جائے وہ درحقیقت جہنم کی آگ ہوگی گو اس وقت اس کا آگ ہونا محسوس نہ ہو، اسی لئے رسول کریم ﷺ نے اس معاملہ میں شدید احتیاط کے لئے واضح ہدایات دی ہیں، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے
”میں تم کو خاص طور پر دو ضعیفوں کے مال سے بچنے کی تنبیہ کرتا ہوں، ایک عورت، اور دوسرے یتیم۔“
سورة نساء کے اول رکوع میں شروع سے آخر تک عموماً ہی کے احکام ہیں، یتامی کے اموال کی نگہداشت رکھنے، ان کے مال کو اپنا مال نہ بنا لینے، ان کے وراثت میں ملے ہوئے اموال سے ان کو حصہ دینے کا حکم فرمایا اور بڑا ہوجانے کے ڈر سے ان کا مال اڑا دینے میں جلدی کرنا، یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے مہر کم کردینا، یا ان کے مال پر قبضہ کرلینا وغیرہ ان سب امور کی ممانت فرمائی۔
آخر میں فرمایا کہ ناحق یتیم کا مال کھانا پیٹ میں آگ کے انگارے بھرنا ہے، کیونکہ اس کی پاداش میں موت کے بعد اس طرح کے لوگوں کے پیٹوں میں آگ بھری جائے گی، لفظ یاکلون استعمال فرمایا ہے اور یتیم کا مال کھانے پر وعید سنائی گئی ہے، لیکن یتیم کے مال کا ہر استعمال کھانے پینے میں ہو یا برتنے میں، سب حرام اور باعث عتاب و عذاب ہے، کیونکہ محاورے میں کسی کا مال ناحق کھا لینا ہر استعمال کو شامل ہوتا ہے۔
جب کوئی شخص وفات پا جاتا ہے تو اس کے مال کے ہر ہر حصہ اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے ساتھ ہر وارث کا حق متعلق ہوجاتا ہے، اس کے نابالغ بچے یتیم ہوتے ہیں، ان بچوں کے ساتھ عموماً ہر گھر میں ظلم و زیادتی کا برتاؤ ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جو ان بچوں کے باپ کی وفات کے بعد مال پر قابض ہوتا ہے خواہ ان بچوں کا چچا ہو یا بڑا بھائی ہو یا والدہ ہو یا اور کوئی ولی یا وصی ہو، اکثر ان امر کے مرتکب ہوجاتے ہیں جن کی ممانعت اس رکوع میں کی گئی ہے، اول تو سالہا سال مال کی تقسیم کرتے ہی نہیں، ان بچوں کی روٹی کپڑے پر تھوڑا بہت خرچ کرتے رہتے ہیں، پھر بدعات، رسومات اور فضولیات میں اسی مال مشترک سے خرچ کئے چلے جاتے ہیں۔ اپنی ذات پر بھی خرچ کرتے ہیں اور سرکاری کاغذات میں نام بدلوا کر اپنے بچوں کا نام لکھواتے ہیں، یہ وہ باتیں ہیں جن سے کوئی ہی گھر خالی رہتا ہوگا۔
مدرسوں اور یتیم خانوں میں جو چندہ یتیموں کے لئے آتا ہے اس کو یتمیوں پر خرچ نہ کرنا بھی ایک صورت یتیم کا مال ہضم کرنے کی ہے۔
مسئلہ۔ میت کے بدن کے کپڑے بھی ترکہ میں شامل ہوتے ہیں، ان کو حساب میں لگائے بغیر یونہی صدقہ کردیتے ہیں، بعض علاقوں میں تانبے پیتل کے برتن مال کو تقسیم کئے بغیر فقیروں کو دیدیتے ہیں، حالانکہ ان سب میں نابالغوں اور غیر حاضر وارثوں کا بھی حق ہوتا ہے، پہلے مال بانٹ لیں، جس میں سے مرنے والے کی اولاد، بیوی، والدین، بہنیں، جس جس کو شرعاً حصہ پہنچتا ہو اس کو دیدیں، اس کے بعد اپنی خوشی سے جو شخص چاہے مرنے والے کی طرف سے خیرات کریں، یا مل کر کریں تو صرف بالغین کریں، نابالغ کی اجازت کا بھی اعتبار نہیں اور جو وارث غیر حاضر ہو اس کے حصہ میں اس کی اجازت کے بغیر بھی تصرف درست نہیں۔
مسئلہ۔ میت کو قبرستان لے جاتے وقت جو چادر جنازہ کے اوپر ڈالی جاتی ہے وہ کفن میں شامل نہیں ہے، اس کو میت کے مال سے خریدنا جائز نہیں، کیونکہ وہ مال مشترک ہے کوئی شخص اپنی طرف سے خرچ کر دے تو جائز ہے، بعض علاقوں میں نماز جنازہ پڑھا نیوالے امام کے لئے کفن ہی کے کپڑے میں سے مصلی تیار کیا جاتا ہے اور پھر یہ مصلی امام کو دے دیا جاتا ہے یہ خرچ بھی کفن کی ضرورت سے فاضل ہے، ورثہ کے مشترک مال میں سے اس کا خریدنا جائز نہیں۔
مسئلہ۔ بعض جگہ میت کے غسل کے لئے نئے برتن خریدے جاتے ہیں، پھر ان کو توڑ دیا جاتا ہے، اول تو نئے خریدنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ گھر کے موجودہ برتنوں سے غسل دیا جاسکتا ہے اور اگر خریدنے کی ضرورت پڑجائے تو توڑنا جائز نہیں، اول تو اس میں مال ضائع کرنا ہے اور پھر ان سے یتمیوں کا اور غائب وارثوں کا حق وابستہ ہے۔
مسئلہ۔ ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس میں سے مہمانوں کی خاطر تواضح اور صدقہ و خیرات کچھ جائز نہیں، اس طرح کے صدقہ خیرات کرنے سے مردے کو کوئی ثواب نہیں پہنچتا۔ بلکہ ثواب سمجھ کردینا اور بھی زیادہ سخت گناہ ہے، اس لئے کہ مورث کے مرنے کے بعد اب یہ سب مال تمام وارثوں کا حق ہے اور ان میں یتیم بھی ہوتے ہیں، اس مشترک مال میں سے دینا ایسا ہی جیسا کہ کسی کا مال چرا کر میت کے حق میں صدقہ کردیا جائے، پہلے مال تقسیم کردیا جائے، اس کے بعد اگر وہ وارث اپنے مال میں سے اپنی مرضی سے میت کے حق میں صدقہ خیرات کریں تو ان کو اختیار ہے۔
تقسیم سے پہلے بھی وارثوں سے اجازت لے کر مشترک ترکہ میں سے صدقہ خیرات نہ کریں، اس لئے کہ جو ان میں یتیم ہیں ان کی اجازت تو معتبر ہی نہیں اور جو بالغین ہیں وہ بھی ضروری نہیں کہ خوش دلی سے اجازت دیں، ہوسکتا ہے وہ لحاظ کی وجہ سے اجازت دینے پر مجبور ہوں اور لوگوں کے طعنوں کے خوف سے کہ اپنے مردہ کے حق میں دو پیسے تک خرچ نہ کئے، اس عار سے بچنے کے لئے بادل ناخواستہ بامی بھر لے ........ حالانکہ شریعت میں صرف وہ مال حلال ہے جب کہ دینے والا طیب خاطر سے دے رہا ہو، جس کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔
یہاں ہم ایک بزرگ کا واقعہ نقل کرتے ہیں، جس سے مسئلہ اور زیادہ واضح ہوجائے گا یہ بزرگ ایک مسلمان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، تھوڑی دیر مریض کے پاس بیٹھے تھے کہ اس کی روح پرواز کرگئی، اس موقع پر جو چراغ جل رہا تھا انہوں نے فوراً اسے بجھا دیا اور اپنے پاس سے پیسے دے کر تیل منگایا اور روشنی کی، لوگوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا جب تک یہ شخص زندہ تھا یہ چراغ اس کی ملکیت تھی اور اس کی روشنی استعمال کرنا درست تھا، اب یہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا تو اس کو ہر چیز میں وارثوں کا حق ہوگیا، لہٰذا سب وارثوں کی اجازت ہی سے ہم یہ چراغ استعمال کرسکتے ہیں اور وہ سب یہاں موجو نہیں ہیں، لہٰذا اپنے پیسوں سے تیل منگوا کر روشنی کی۔
Top