Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا١ؕ وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں اَمْوَالَ : مال الْيَتٰمٰى : یتیموں ظُلْمًا : ظلم سے اِنَّمَا : اس کے سوا کچھ نہیں يَاْكُلُوْنَ : وہ بھر رہے ہیں فِيْ : میں بُطُوْنِھِمْ : اپنے پیٹ نَارًا : آگ وَسَيَصْلَوْنَ : اور عنقریب داخل ہونگے سَعِيْرًا : آگ (دوزخ)
جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔
آیت 10 : اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْماً ( بیشک جو یتیموں کا مال ظلماً کھاتے ہیں) نمبر 1۔ ظلماً مصدر ہے موضع حال میں واقع ہے۔ نمبر 2۔ اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والے ہیں۔ اِنَّمَا یَاْ کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا (بیشک وہ اپنے پیٹوں میں آگ کھاتے ہیں) آگ کھانے کا مطلب : یعنی وہ ایسا مال کھا رہے ہیں جو قبر سے دوزخ میں کھینچ کرلے جائے گا۔ پس گویا وہ آگ ہے۔ روایات میں ہے کہ یتیموں کا مال کھانے والا قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ دھواں اس کی قبر سے، اور اس کے منہ ٗ ناک اور دونوں کانوں سے بھی اٹھ رہا ہوگا اس سے لوگ پہچان جائیں گے کہ یہ دنیا میں یتیم کا مال کھاتا رہا ہے۔ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا (وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہونگے) ۔ قراءت : شامی اور ابوبکر نے سیُصْلَون پڑھا ہے۔ یعنی عنقریب وہ داخل ہونگے۔ سعیر آگ کو کہتے ہیں جس کا وصف مبہم کردیا۔
Top