Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 149
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا
اِنْ تُبْدُوْا : اگر تم کھلم کھلا کرو خَيْرًا : کوئی بھلائی اَوْ تُخْفُوْهُ : یا اسے چھپاؤ اَوْ تَعْفُوْا : یا معاف کردو عَنْ : سے سُوْٓءٍ : برائی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَفُوًّا : معاف کرنیوالا قَدِيْرًا : قدرت والا
اگر تم کھول کر کرو کوئی بھلائی یا اس کو چھپاؤ یا معاف کرو برائی کو تو اللہ بھی معاف کرنیوالا بڑی قدرت والا ہے
معارف و مسائل
ان آیات میں سے پہلی آیت اور دوسری آیت دنیا سے ظلم و جور کے مٹانے کا ایک قانون ہے، مگر عام دنیا کے قوانین کی طرح نہیں جس کی حیثیت صرف آمرانہ ہوتی ہے، بلکہ ترغیب و ترہیب کے انداز کا ایک قانون ہے جس میں ایک طرف تو اس کی اجازت دے دیگئی ہے کہ جس شخص پر کوئی ظلم کرے تو مظلوم اس کے ظلم کی شکایت، یا کسی عدالت میں چارہ جوئی کرسکتا ہے، جو عین عدل و انصاف کا تقاضا اور انسداد جرائم کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس کے ساتھ ایک قید بھی سورة نحل کی آیت میں مذکور ہے، وان عاقبتم فعاقیوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین (آیت نمبر 621) یعنی اگر کوئی شخص تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس سے ظلم کا بدلہ لے سکتے ہو، مگر شرط یہ ہے کہ جتنا ظلم وتعدی اس نے کیا ہے بدلہ میں اس سے زیادتی نہ ہونے پائے، ورنہ تم ظالم ہوجاؤ گے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ظلم کے جواب میں ظلم کی اجازت نہیں بلکہ ظلم کا بدلہ انصاف سے ہی لیا جاسکتا ہے، اسی کے ساتھ یہ بھی ہدایت ہے کہ بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر صبر کرنا اور معاف کردینا بہتر ہے۔
اور آیت مذکورہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس پر کسی نے ظلم کیا ہو اگر وہ ظلم کی شکایت، حکایت لوگوں سے کرے تو یہ غیبت حرام میں داخل نہیں، کیونکہ اس نے خود اس کو شکایت کرنے کا موقع دیا ہے، غرض قرآن حکیم نے ایک طرف تو مظلوم کو ظلم کا مساوی بدلہ لینے کی اجازت دے دی اور دوسری طرف اعلی اخلاق کی تعلیم، عفو و درگزر اور اس کے بالمقابل آخرت کا عظیم فائدہ پیش نظر کر کے مظلوم کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے اس جائز حق میں ایثار سے کام لے ظلم کا انتقام نہ لے، ارشاد فرمایا
ان تبدواخیراً اوتخفوہ اوتعفوا عن سوٓء فان اللہ کان عفواً قدیراً ”یعنی اگر تم کوئی نیکی ظاہر کر کے کر دیاخفیہ طور پر کرو، یا کسی کے ظلم اور برائی کو معاف کردو تو یہ بہتر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والے اور بڑی قدرت والے ہیں۔“
اس آیت میں اصل مقصد تو ظلم کے معاف کرنے سے متعلق ہے، مگر اس کے ساتھ علانیہ اور خفیہ نیکی کا بھی ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ عفو و درگزر ایک بڑی نیکی ہے جو اس کو اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ کے عفو و رحمت کا مستحق ہوجائے گا۔
آخر آیت میں فان اللہ کان عفواً قدیراً فرما کر یہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ، قادر مطلق ہیں جس کو جو چاہیں سزا دے سکتے ہیں، اس کے باوجود بہت معاف کرنے والے ہیں تو انسان جس کو قدرت و اختیار بھی کچھ نہیں وہ اگر انتقام لینا بھی چاہے تو بہت ممکن ہے کہ اس پر قدرت ہی نہ ہو، اس لئے اس کو تو عفو و درگزر اور بھی زیادہ مناسب ہے۔
یہ ہے رفع ظلم اور اصلاح معاشرہ کا قرآنی اصول اور مربیانہ انداز کہ ایک طرف برابر کے انتقام کا حق دے کر عدل و انصاف کا بہترین قانون بنادیا، دوسری طرف مظلوم کو اعلی اخلاق کی تعلیم دے کر عفو و درگزر پر آمادہ کیا، جس کا لازمی نتیجہ وہ ہے جس کو قرآن کریم نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے
فاذا الذین بینک وبینہ عداوة کانہ ولی حمیم (14: 43) یعنی جس شخص کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی اس طرز عمل سے وہ تمہارا مخلص دوست بن جائے گا۔“
عدالتی فیصلہ اور ظلم کا انتقام لے لینے سے ظلم کی روک تھام ضرر ہوجاتی ہے، لیکن فریقین کے دلوں میں وہ ایک دیرپا اثر چھوڑ جاتے ہیں جو آئندہ پھر باہمی جھگڑوں کا ذریعہ بن سکتے ہیں ........ اور یہ اخلاقی درس جو قرآن کریم نے دیا اس کے نتیجہ میں گہرئی اور پرانی عداوتیں دوستیوں میں تبدیلی ہوجاتی ہیں۔
تیسری اور چوتھی اور پانچویں آیات میں قرآن حکیم نے یہ کھلا ہوا فیصلہ دیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو مانے مگر اس کے رسولوں پر ایمان نہ لائے، یا بعض رسولوں کو مانے اور بعض کو نہ مانے وہ اللہ کے نزدیک مومن نہیں، بلکہ کھلا کافر ہے جس کی نجات آخرت کی کوئی راہ نہیں۔
Top