Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 61
وَ قَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّكُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ
وَقَالَ : اور کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فِي النَّارِ : آگ میں لِخَزَنَةِ : نگہبان۔ دوروغہ جَهَنَّمَ : جہنم ادْعُوْا : تم دعا کرو رَبَّكُمْ : اپنے رب سے يُخَفِّفْ : ہلکا کردے عَنَّا : ہم سے يَوْمًا : ایک دن مِّنَ : سے، کا الْعَذَابِ : عذاب
اور اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے لیکن ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیئے جاتا ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
61۔ 62۔ اللہ پاک اس آیت میں اپنے درگزر کا حال بیان فرماتا ہے کہ یہ مشرک لوگ جیسے جیسے فتنہ و فساد برپا کرتے ہیں اگر خدا کو اس فتنہ و فساد کا مواخذہ منظور ہو تو ان کے ساتھ ان کی بدبختی کی وجہ سے ساری دنیا کو ہلاک کر دے اور کوئی جاندار روئے زمین پر باقی نہ چھوڑے 1 ؎۔ صحیح مسلم میں ابن عمر ؓ سے ایک روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی پر عذاب کا ارادہ کرتا ہے تو اس عذاب میں اس قوم کے سارے آدمیوں کو شریک کرتا ہے پھر یہ لوگ اپنی اپنی نیت کے مطابق اٹھائے جائیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسی جس کی نیت اور جیسے جس کے اعتقاد ہوں گے۔ ویسا ہی اس کا حشر ہوگا چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایسا ہوچکا ہے کہ سوائے اہل کشتی کے سارا جہان اس طوفان میں ہلاک ہوگیا کوئی ملک کوئی گاؤں کوئی قریہ باقی نہیں رہا۔ پھر اللہ پاک نے یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہے اور ایک وعدہ مقررہ تک ان کا ہلاک کرنا منظور نہیں ہے۔ جب وہ وقت آجاوے گا تو پھر گھڑی بھر کی بھی مہلت نہیں ملے گی اور اس میں بھی خدا کی بہت بڑی مصلحت ہے کہ ان کو ایک زمانہ تک زندہ باقی رکھا ہے اور عذاب بھیج کر ہلاک نہیں کیا کیونکہ خداوند جل شانہ عالم الغیب ہے ان سے انہیں اس بات کا موقع دیا کہ شاید یہ عذر کریں اور اپنے کفر اور سرکشی سے شرمسار ہو کر دین اسلام میں داخل ہوجائیں اور ان کی نسل جو اولاد پیدا ہو وہ اہل ایمان ہو پھر اللہ پاک نے اس بات کا ذکر کیا کہ جن باتوں سے کفار کو عار ہے اور جو بات یہ لوگ اپنے واسطے پسند نہیں کرتے مثلاً لڑکیوں کا ہونا وہ خداوند جل جلالہ کے حق میں یوں کہتے ہیں کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اور خدا کے ساتھ بتوں کو شریک ٹھہراتے ہیں حالانکہ خود ان کو یہ گوارا نہیں ہے کہ کوئی شخص ان کی ملکیت میں قبضہ کرے اور ان کے مال میں تصرف کرے پھر خدائے غالب وقہار کے ساتھ اس کے صفات میں کیوں کر کسی کو شریک سمجھتے ہیں۔ آسمان زمین کے انتظام میں کوئی اس کا شریک نہیں اور باوجود ان باتوں کے پھر وہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں آخرت میں فلاحیت ہوگی یہ کیوں کر ممکن ہے کہ دنیا میں تو تم ایسے ایسے ظلم و فساد کرو رسولوں کو جھٹلاؤ کفر کرو خدا کے شریک ٹھہراؤ خدا کی ذات میں عیب لگاؤ کہ اس کی بیٹیاں ہیں اور پھر آخرت میں بھلائی کی امید رکھو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے وہاں تو ان لوگوں کے واسطے دوزخ ہے اور پہلے پہل یہی دوزخ میں ڈالے جائیں گے اور جس طرح دنیا میں یہ لوگ خدا کو بھولے ہوئے بیٹھے تھے اسی طرح یہ لوگ وہاں اللہ کی رحمت سے ایسے بھلائے جائیں گے پھر ان کی کوئی خبر بھی نہیں لے گا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث گزر چکی ہے 2 ؎۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایک وقت مقررہ تک اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے اور جب یہ لوگ مہلت کے زمانہ میں اپنی سرکشی سے باز نہیں آتے تو پھر ان کو برباد کردیتا ہے 3 ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ کو اللہ تعالیٰ وقت مقررہ تک مہلت دی لیکن مہلت کے زمانہ میں جب یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو ان کی بربادی شروع ہوئی پہلے مکہ میں سخت قحط پڑا جس میں یہ لوگ مردار جانوروں کی کھالیں تک کھا گئے۔ پھر بدر کی لڑائی میں ان کے بڑے بڑے سرکش مارے گئے اور پھر فتح مکہ کے بعد ان میں کوئی سرکش دنیا پر باقی نہ رہا چناچہ فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول نے ان کے بتوں کو لکڑیاں مار مار کر زمین پر گرا دیا اور کوئی شخص ان کی حمایت کو کھڑا نہیں ہوا۔ سورت احقاف میں فرمایا وقال الذین کفروا للذین امنوا لو کان خیرا ما سبقونا الیہ (46: 11) مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں مالدار لوگ غریب مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی مہربانی سے دنیا میں ہم کو خوشحال کر رکھا ہے جس کے سبب سے ہم ان غریب مسلمانوں سے ہر حال میں بہتر ہیں اگر حشر کا قائم ہونا سچ ہوتا اور اسلام حشر کی بہبودی کا سبب ہوتا تو دنیا کی بہبودی کے قیاس سے ہم ان غریب مسلمانوں سے پہلے دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے سورت احقاف کی یہ آیت و تصف السنتھم الکذب ان لھم الحسنی کی تفسیر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت میں بتوں کو شریک قرار دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شان میں صاحب اولاد ہونے کا بٹہ لگاتے ہیں اور بٹہ بھی ایسا کہ خود تو لڑکیوں سے گھبراتے ہیں اور انہیں لڑکیوں کو اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں لڑکوں کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور پھر دنیا کی چند روزہ خوشحالی کے قیاس پر عقبیٰ کی خوشحالی کی توقع رکھتے ہیں ان لوگوں کا اللہ پر یہ جھوٹ باندھنا ہے۔ نمرود، فرعون اور قارون دنیا میں ان لوگوں سے زیادہ خوشحال تھے لیکن ان کی بد افعالی نے جو نتیجہ انہیں دکھایا وہ ان لوگوں نے سنا ہوگا اس لئے ان کو ہوشیار کردیا جاوے کہ ایسے حد سے بڑھ جانے والے سرکش لوگوں کو عقبیٰ کی بہبودی کا میسر آنا تو درکنار بلکہ ایسے لوگوں کا انجام دوزخ ہے کیوں کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے انصاف کے بالکل برخلاف ہے کہ وہ نیک و بد کا عقبے میں ایک انجام کر دیوے۔ ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے شداد بن اوس ؓ کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے 4 ؎۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو موت سے پہلے موت کے بعد کا کچھ سامان کر لیوے اور نادان وہ شخص ہے جو عمر بھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں لگا رہے اور عقبیٰ کی بہبود کی توقع رکھے اس حدیث کو بھی آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ طرح طرح کی نافرمانیوں میں گرفتار رہ کر دونوں جہان کی بہبود کی توقع جو اللہ تعالیٰ سے رکھتے تھے یہ ان لوگوں کی بڑی نادانی اور ایک شیطانی وسوسہ تھا مفرطون کو بعضے سلف نے افراط سے لیا ہے جس کے معنے حد سے بڑھ جانے کے ہیں شاہ صاحب نے ترجمہ میں یہی قول لیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وسوسہ شیطانی نے ان لوگوں کو نافرمانی میں حد سے بڑھا دیا ہے اس لئے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ قتادہ نے مفرطون کو فرط سے لیا ہے جس کے معنے پیشرو کے ہیں مطلب یہ ہے کہ ایسے سرکش لوگ پیشرو کی طرح عام دوزخیوں سے پہلے دوزخ میں جاویں گے لیکن حافظ ابن جریر نے اس معنے کو محاورہ عرب کے خلاف قرار دیا ہے۔ 1 ؎ صفحہ 387 ج 2 باب الامر بحسن الظن باللہ و تفسیر فتح البیان ص 709 ج 2۔ 2 ؎ صحیح بخاری ص 678 ج 2 وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری۔ 3 ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص 233۔ 4 ؎ جلد ہذا ص 315، 337 صحیح مسلم ص 376 ج 2 باب فخریش الشیطان الخ۔
Top