Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Majidi - Al-Muminoon : 24
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ
: پاکیزگی بیان کرتا ہے
لِلّٰهِ
: اللہ کی
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ
: اور جو زمین میں
وَهُوَ
: اور وہ
الْعَزِيْزُ
: غالب
الْحَكِيْمُ
: حکمت والا
اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور وہی ہے زبردست حکمت والا
ربط سورت اور شان نزول
پچھلی سورت میں یہود کی دوستی جو منافقین نے اختیار کر رکھی تھی اس کی مذمت کا بیان تھا، اس سورت میں یہود پر دنیا میں جلا وطنی کی سزا اور آخرت کا عذاب مذکور ہے اور قصہ ان یہود کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب مدینہ طیبیہ میں تشریف لائے تو یہود سے معاہدہ صلح کا ہوچکا تھا اور ان یہودیوں کے مختلف قبائل میں ایک قبیلہ بنو نضیر کا تھا وہ بھی معاہدہ صلح میں داخل تھا اور یہ لوگ مدینہ طیبہ سے دو میل پر رہتے تھے، ایک مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ عمرو بن امیہ ضمری کے ہاتھ سے دو قتل ہوگئے تھے جس کا خون بہا سب کو مل کر ادا کرنا تھا، آپ نے اپنے مسلمانوں سے اس کے لئے چندہ حاصل کیا، پھر یہ ارادہ ہوا کہ یہود بھی ازروئے صلح نامے مسلمانوں کے ساتھ ہیں خون بہا کی رقم میں ان کو بھی شریک کیا جائے، اس کام کے لئے آنحضرت ﷺ قبیلہ بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے یہ سازش کی کہ آپ کو قتل کردینے کا موقع ہمارے ہاتھ آ گیا، اس لئے آنحضرت ﷺ کو ایک جگہ بٹھلا دیا اور کہا کہ ہم خون بہا کی رقم جمع کرنے کا انتظام کرتے ہیں اور خفیہ مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جس دیوار کے نیچے آپ تشریف فرما ہیں کوئی شخص اوپر چڑھ کر کوئی بڑا بھاری پتھر آپ کے اوپر چھوڑ دے کہ آپ کا کام تمام ہوجائے، آپ کو فوراً بذریعہ وحی ان کی یہ سازش معلوم ہوگئی، آپ وہاں سے اٹھ کر واپس تشریف لائے اور ان سے کہلا بھیجا کہ تم نے عہد شکنی کر کے صلح توڑ دی اس لئے اب تمہیں دس روز کی مہلت دی جاتی ہے اس میں تم جہاں چاہو چلے جاؤ، اس مدت کے بعد جو شخص یہاں نظر آوے گا اس کی گردن مار دی جاوے گی، انہوں نے چلے جانے کا ارادہ کیا تو عبداللہ بن ابی منافق نے ان کو روکا کہ کہیں نہ جاؤ، میرے پاس دو ہزار آدمیوں کی جمعیت ہے جو اپنی جان دیدیں گے، تم پر آنچ نہ آنے دیں گے اور روح المعانی میں ابن اسحاق کی روایت سے اس میں عبداللہ کے ساتھ ودیعہ مالک اور سوید اور راعس کا شریک ہونا بھی لکھا ہے، یہ لوگ ان کے کہنے میں آگئے اور آنحضرت ﷺ سے کہلا بھیجا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کرلیجئے، آپ صحابہ کرام کے ساتھ اس قبیلہ پر حملہ آور ہوئے اور یہ لوگ قلعہ بند ہوگئے اور منافقین منہ چھپا کر بیٹھ گئے، آپ نے ان کا محاصرہ کرلیا اور ان کے درخت جلوا دیئے، کچھ کٹوا دیئے، آخر تنگ آ کر انہوں نے جلا وطن ہونا منظور کرلیا، آپ نے اس حال میں بھی ان کے ساتھ یہ رعایت کی کہ حکم دے دیا کہ جتنا سامان تم ساتھ لے جاسکتے ہو لے جاؤ، بجز ہتھیار کے وہ ضبط کر لئے جاویں گے، یہ لوگ نکل کر کچھ شام میں چلے گئے، کچھ خیبر میں اور حرص دنیا کی وجہ سے اپنے گھروں کی کڑیاں، تختے، کواڑ تک اکھاڑ کرلے گئے اور یہ قصہ غزوہ احد کے بعد ربیع الاول سن
4
ھ میں پیش آیا، پھر حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت میں ان کو دوسرے یہود کے ساتھ ملک شام کی طرف نکال دیا، یہ دونوں جلا وطنی حشر اول اور حشرثانی کہلاتی ہیں، کذافی زادلمعاد۔
خلاصہ تفسیر
اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں اور وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے (چنانچہ اس کی علو شان اور قدرت اور حکمت کا ایک اثر یہ ہے کہ) وہی ہے جس نے (ان) کفار اہل کتاب (یعنی بنی نضیر) کو ان کے گھروں سے پہلی ہی بار اکٹھا کر کے نکال دیا (یعنی بقول زہری اس کے قبل ان پر یہ مصیبت واقع نہ ہوئی تھی، یہ مصیبت ان پر پہلی بار ہی آئی ہے جو ان کی حرکات شنیعہ کا ثمرہ ہے اور اس میں ایک لطیف اشارہ ہے ایک پیشین گوئی کی طرف کہ ان کے لئے پھر بھی ایسا اتفاق ہوگا، چناچہ دوبارہ حضرت عمر نے تمام یہود کو جزیرہ عرب سے نکال دیا، کذافی الخازن اور اشارہ کو لطیف اس لئے کہا گیا کہ لفظ اول ہمیشہ مقتضی نہیں ہوگا کہ اس کا کوئی ثانی بھی ہو، چناچہ بولتے ہیں فلاں عورت کے پہلی ہی بار بچہ پیدا ہوا ہے، ان کا گھروں سے نکال دینا مسلمان کی طاقت اور غلبہ کا اثر تھا، آگے اس کی تقریر ہے کہ اے مسلمانوں ان کا سامان و شوکت دیکھ کر) تمہارا گمان بھی نہ تھا کہ وہ (کبھی اپنے گھروں سے) نکلیں گے اور (خود) انہوں نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ (کے انتقام) سے بچالیں گے (یعنی اپنے قلعوں کے استحکام پر ایسے مطمئن تھے کہ ان کے دل میں انتقام غیبی کا خطرہ بھی نہ آتا تھا، پس ان کی حالت مشابہ اس شخص کے تھی جس کا یہ گمان ہو کہ ان کے قلعے اللہ کی گرفت سے بچا لیں گے اور اگر خاص قبیلہ بنو نضیر کے قلعے متعدد نہ ہوں تو حصو نہم جمع کی ضمیر مطلق یہود کی طرف ہوگی اور انہم کی ضمیر بھی اور صرفضمیر بنی نضیر کی طرف ہوجاوے گی، یعنی بنی نضیر کا یہ خیال تھا کہ سب یہود کو ان کے قلعے حوادث سے بچا لیں گے، ان سب یہود میں یہ بھی آگئے کہ اپنے قلعہ کو اپنا محافظ سمجھتے تھے) سو ان پر خدا (کا عقاب) ایسی جگہ سے پہنچا کہ ان کو خیال (اور گمان) بھی نہ تھا، (مراد اس جگہ سے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں نکالے گئے جن کی بےسرو سامانی پر نظر کر کے اس کا احتمال بھی نہ تھا کہ یہ بےسامان ان باسامانوں پر غالب آجائیں گے) اور ان کے دلوں میں (اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا) رعب ڈال دیا کہ (اس رعب کی وجہ سے نکلنے کا قصر کیا اور اس وقت یہ حالت تھی کہ) اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی اجاڑ رہے تھے (یعنی خود بھی کڑی تختہ لے جانے کے واسطے اپنے مکانوں کو منہدم کرتے تھے اور مسلمان بھی ان کے قلب کو صدمہ پہنچانے کے واسطے منہدم کرتے تھے اور مسلمانوں کے منہدم کرنے کو بھی ان کی طرف منسوب اس لئے کیا کہ سبب اس انہدام کا وہ ہی لوگ تھے کیونکہ انہوں نے عہد شکنی کی اور وہ فعل یہود کا ہے پس اسناد سبب کی طرف ہوگئی اور مسلمانوں کا ہاتھ بمنزلہ آلہ کے ہوگیا) سو اے دانش مندو (اس حالت کو دیکھ کر) عبرت حاصل کرو (کہ انجام خدا اور رسول کی مخالفت کا بعض اوقات دنیا میں بھی نہایت برا ہوتا ہے) اور اگر اللہ تعالیٰ ان کی قسمت میں جلا وطن ہونا نہ لکھ چکتا تو ان کو دنیا ہی میں (قتل کی) سزا دیتا (جس طرح ان کے بعد بنی قریظہ کے ساتھ معاملہ کیا گیا) اور (گو دنیا میں عذاب قتل سے بچ گئے لیکن) ان کے لئے آخرت میں دوزخ کا عذاب (تیار) ہے (اور) یہ (سزائے جلاوطنی دنیا میں اور سزا نار آخرت میں) اس سبب سے ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو شخص اللہ کی مخالفت کرتا ہے (اور وہی مخالفت رسول کی بھی ہے) تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے (یہ مخالفت دو طرح کی ہوئی، ایک نقض عہد سے جس سے کہ سزا جلاوطنی ہوئی اور دوسرے عدم ایمان سے جو سبب عذاب آخرت کا ہے، آگے یہود کے ایک طعن کا جواب ہے جو درختوں کے کاٹنے اور جلانے کے باب میں کیا تھا کہ ایسا کرنا تو فساد ہے اور فساد مذموم ہے، کذا فی الدرو نیز بعض مسلمانوں نے باوجود اجازت کے یہ سمجھ کر کہ ترک جائز جائز ہے اور آخر میں یہ درخت مسلمانوں ہی کے ہوجائیں گے تو ان کا رہنا ہی بہتر ہے، نہیں کاٹے اور بعض نے یہ سمجھ کر کہ یہود کا دل دکھے گا کاٹ دیئے، کذافی الدر، جواب کے ساتھ ان دونوں فعل کی بھی تصویب ہے پس ارشاد ہے کہ) جو کجھوروں کے درخت تم نے کاٹ ڈالے (اسی طرح جو جلا دیئے) یا ان کو ان کی جڑوں پر (بحالہا) کھڑا رہنے دیا سو (دونوں باتیں) خدا ہی کے حکم (اور رضا) کے موافق ہیں اور تاکہ کافروں کو ذلیل کرے (یعنی دونوں فعل میں مصلحت ہے، چناچہ ترک میں بھی مسلمانوں کی ایک کامیابی اور کفار کو غیظ میں ڈالنا ہے کہ یہ مسلمان اس کو برتیں گے اور قطع کرنے اور جلا دینے میں بھی مسلمانوں کی دوسری کامیابی یعنی ظہور آثار غلبہ اور کفار کو غیظ میں ڈالنا ہے کہ مسلمان ہماری چیزوں میں کیسے تصرفات کر رہے ہیں، پس دونوں امر جائز ہیں اور حکمت پر مبنی ہونے کے سبب ان میں کوئی قباحت نہیں۔
معارف و مسائل
سورة حشر کی خصوصیات اور قبیلہ بنو نضیر کی تاریخ
سورة حشر پوری یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے متعلق نازل ہوئی ہے (قالہ ابن اسحق) اور حضرت ابن عباس اس سورت کا نام ہی سورة بنی نضیر کہا کرتے تھے (ابن کثیر) بنو نضیر یہود کا ایک قبیلہ ہے جو حضرت ہارون ؑ کی اولاد میں ہے، ان کے آباؤ اجداد تورات کے عالم تھے، جس میں حضرت خاتم الانبیاء ؑ کی خیر اور آپ کا حلیہ اور علامات مذکور تھے اور یہ کہ ان کی ہجرت یثرب (مدینہ) کی طرف ہوگی، یہ خاندان اس طمع میں کہ خاتم الانبیاء کے ساتھ رہیں شام سے مدینہ طیبہ منتقل ہوا تھا، اس کے موجودہ لوگوں میں بھی کچھ تورات کے عالم تھے اور آنحضرت ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد علامات دیکھ کر پہچان بھی لیا تھا کہ یہ وہی خاتم الانبیاء ہیں لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ آخری نبی ہارون ؑ کی اولاد میں ان کے خاندان میں ہوں گے اور خاتم الانبیاء ﷺ بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں معبوث ہوئے تو اس حسد نے ان لوگوں کو ایمان لانے سے روک دیا، مگر دل میں ان کے اکثر لوگ آپ کے آخر الانبیاء ہونے کو جانتے پہچانتے تھے اور غزوہ بدر میں مسلمانوں کی حیرت انگیز فتح اور مشرکین کی شکست دیکھ کر ان کا یہ یقین کچھ اور بڑھا بھی تھا اس کا اقرار ان کی زبانوں سے سنا بھی گیا، مگر اس ظاہری فتح و شکست کو حق و باطل کے پہچاننے کا معیار بنا لینا ہی ایک بودی اور کمزور بنیاد تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ غزوہ احد میں جب ابتداً مسلمانوں کو شکست ہوئی، کچھ حضرات صحابہ شہید ہوئے تو ان کا یقین متزلزل ہوگیا اور اس کے بعد سے انہوں نے مشرکین مکہ کے ساتھ ساز باز شروع کردی۔
اس سے پہلے یہ واقعہ ہوچکا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ پہنچ کر حکیمانہ سیاست کے مقتضیٰ پر سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ مدینہ طیبہ میں اور شہر کے آس پاس کچھ یہود کے قبائل آباد تھے، ان سے معاہدہ صلح اس پر کرلیا تھا کہ یہ لوگ نہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے اور نہ کسی جنگ کرنے والے کی امداد کریں گے، اگر ان پر کوئی حملہ آور ہوا تو مسلمان ان کی امداد کریں گے، صلح نامہ میں اور بھی بہت سی دفعات تھیں جن کی تفصیل سیرت ابن ہشام وغیرہ میں مذکور ہے، اسی طرح یہود کے تمام قبائل کی جن میں بنو نضیر بھی داخل تھے، مدینہ طیبہ سے دو میل کے فاصلہ پر ان کی بستی اور مضبوط قلعے اور باغات تھے۔
غزوہ احد تک تو یہ لوگ بظاہر اس صلح نامہ کے پابند نظر آئے، مگر احد کے بعد انہوں نے غداری کی اور خفیہ خیانت شروع کردی، اس غدر و خیانت کی ابتداء اس سے ہوئی کہ بنو نضیر کا ایک سردار کعب بن اشرف غزوہ احد کے بعد اپنے یہودیوں کے چالیس آدمیوں کے ایک قافلہ کے ساتھ مکہ معظمہ پہنچا اور یہاں کے کفار قریش جو غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کی نیت سے غزوہ احد پر گئے تھے اور اس میں بالآخر شکست کھا کر واپس ہوچکے تھے ان سے ملاقات کی اور ان دونوں میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا ایک معاہدہ ہونا قرار پایا، جس کی تکمیل اس طرح کی گئی کہ کعب بن اشرف اپنے چالیس یہودیوں کے ساتھ اور ان کے بالمقابل ابوسفیان اپنے چالیس قریشیوں کے ساتھ حرم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا پردہ پکڑ کر یہ معاہدہ کیا کہ ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے۔
کعب بن اشرف اس معاہدہ کے بعد مدینہ طیبہ واپس آیا تو جبرئیل امین نے رسول اللہ ﷺ کو یہ سارا واقعہ اور معاہدہ کی تفصیل بتلا دی، آنحضرت ﷺ نے کعب بن اشرف کے قتل کا حکم جاری فرما دیا، چناچہ محمد بن مسلمہ صحابی نے اس کو قتل کردیا۔
اس کے بعد بنو نضیر کی مختلف خیانتیں اور سازشیں آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوتی رہیں، جن میں ایک وہ واقعہ ہے جو اوپر شان نزول کے عنوان سے لکھا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قتل کی سازش کی اور اگر فوری طور پر آنحضرت ﷺ بذریعہ وحی اس سازش پر مطلع نہ ہوتے تو یہ لوگ اپنی سازش قتل میں کامیاب ہوجاتے، کیونکہ جس مکان کے نیچے رسول اللہ ﷺ کو انہوں نے بٹھایا تھا اس کی چھت پر چڑھ کر ایک بڑا بھاری پتھر آپ کے سر مبارک پر چھوڑ دینے کا منصوبہ تقریباً مکمل ہوچکا تھا، جو شخص اس منصوبہ کو عملی صورت دینے والا تھا اس کا نام عمر بن حجاش تھا، حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور یہ منصوبہ فیل ہوگیا۔
ایک عبرت
یہ بھی عجیب معاملہ ہے کہ بعد کے واقعہ میں سارے ہی بنو نضیر جلا وطن ہو کر مدینہ سے نکل گئے، مگر ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہو کر محفوظ و مامون رہے، ان دو میں ایک یہی عمر بن جحاش تھے دوسرے ان کے چچا یامین بن عمرو بن کعب تھے (ابن کثیر)
عمرو بن امیہ ضمری کا واقعہ
شان نزول کے واقعہ میں جو یہ ذکر آیا ہے کہ عمر و بن امیہ ضمیری کے ہاتھ سے دو قتل ہوگئے تھے ان کا خون بہا جمع کرنے کی کوشش رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے اسی خون بہا کے سلسلے میں بنو نضیر کا چندہ حاصل کرنے کے لئے آپ ان کی بستی میں تشریف لے گئے تھے، اس کا واقعہ ابن کثیر نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی سازشیں اور مظالم کی داستان تو بہت طویل ہے ان میں سے ایک واقعہ بیر معونہ کا تاریخ اسلام میں معروف و مشہور ہے کہ بعض منافقین و کفار نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی بستی میں تبلیغ اسلام کے لئے صحابہ کرام کی ایک جماعت بھیجنے کی درخواست کی، آنحضرت ﷺ نے ستر صحابہ کرام ان کے ساتھ کئے بعد میں حقیقت یہ کھلی کہ ان لوگوں نے یہ محض سازش کی تھی، ان سب کو گھیر کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے، ان سے صرف عمرو بن امیہ ضمری کسی طرح نکل کر بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے جو بزرگ ابھی کفار کی یہ غداری اور خیانت اور اپنے انہتر بھائیوں کا بیدردی سے قتل دیکھ کر آ رہے تھے ان کا جذبہ کفار کے مقابلہ میں کیا ہوگا ہر شخص خود اندازہ کرسکتا ہے، اتفاق یہ ہوا کہ مدینہ طیبہ واپس آنے کے وقت راستہ میں ان کو دو کافروں سے سابقہ پڑا، انہوں نے دونوں کو قتل کردیا، بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں آدمی قبیلہ بنی عامر کے تھے جن سے رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ صلح تھا۔
مسلمانوں کے معاہدات آج کل کے سیاسی لوگوں کے معاہدات تو ہوتے نہیں کہ پہلے ہی خلاف ورزی اور عہد شکنی کی راہیں تلاش کرلی جاتی ہیں، یہاں تو جو کچھ زبان یا قلم سے نکلتا تھا دین و مذہب اور خدا تعالیٰ کے حکم کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کی پابندی لازمی تھی، جب آنحضرت ﷺ کو اس غلطی کا علم ہوا تو آپ نے اصول شرعیہ کے مطابق ان دونوں مقتولوں کی دیت (خون بہا) ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا اور اس کے لئے مسلمانوں سے چندہ جمع کیا، اس میں بنو نضیر کے پاس بھی چندہ کے سلسلے میں جانا ہوا (ابن کثیر)
بنو نضیر کو جلا وطن کرنے کے وقت اسلام اور مسلمانوں کی رواداری موجودہ اہل سیاست کے لئے سبق آموز معاملہ
آج کے بڑے حکمران اور بڑی حکومتیں جو انسانی حقوق کے تحفظ پر بڑے بڑے لیکچر دیتے ہیں اور اس کے لئے ادارے قائم کرتے ہیں اور دنیا میں تحفظ حقوق انسانیت کے چودھری کہلاتے ہیں ذرا اس واقعہ پر نظر ڈالیں کہ بنو نضیر کی مسلسل سازشیں، خیانتیں، قتل رسول کے منصوبے جو آپ کے سامنے آتے رہے اگر آج کل کے کسی حکمران اور کسی سربراہ مملکت کے سامنے آئے ہوتے تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا، آج کل تو زندہ لوگوں پر پٹرول چھڑک کر میدان صاف کردینا کسی بڑے اقتدار و حکومت کا بھی محتاج نہیں، کچھ غنڈے شریر جمع ہوجاتے ہیں اور یہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں، شاہانہ غیظ و غضب کے کرشمے کچھ اس سے آگے ہی ہوتے ہیں۔
مگر یہ حکومت خدا کی اور اس کے رسول کی ہے جب خیانتیں اور غداریاں انتہاء کو پہنچ گئیں تو اس وقت بھی ان کے قتل عام کا ارادہ نہیں فرمایا، ان کے مال و اسباب چھین لینے کا کوئی تصور نہیں تھا، بلکہ (
1
) اپنا سب سامان لے کر صرف شہر خالی کردینے کا فیصلہ کیا۔ (
2
) اور اس کے لئے بھی دس روز کی مہلت دی کہ آسانی سے اپنا سامان ساتھ لے کر اطمینان سے کسی دوسرے مقام پر منتقل ہوجائیں جب اس کی بھی خلاف ورزی کی تو قومی اقدام کی ضرورت پیش آئی۔ (
3
) اس لئے کچھ درخت تو جلائے گئے، کچھ کاٹے گئے کہ ان پر اثر پڑے، مگر قلعہ کو آگ لگا دینے کا یا ان کے قتل عام کا حکم اس وقت بھی نہیں دیا گیا۔
(
4
) پھر جب مجبور ہو کر ان لوگوں نے شہر خالی کردینا منظور کرلیا تو اس فوجی اقدام کے باوجود ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ ایک اونٹ پر جس قدر سامان ایک آدمی لے جاسکتا ہے لے جائے، اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے مکانوں کی کڑیاں، تختے، دروازے، کواڑ تک اتار کر لاد لئے۔
(
5
) اس سازو سامان کے ساتھ منتقل ہونے والوں کو کسی مسلمان نے ترچھی نظر سے نہیں دیکھا، امن و عافیت اور پورے اطمینان کے ساتھ سامان لے کر رخصت ہوئے۔
آنحضرت ﷺ کے یہ معاملات اس وقت کے ہیں جبکہ آپ کو اپنے دشمن سے انتقام پورا پورا لے لینے کی مکمل قدرت و طاقت حاصل تھی، ان غدار، خائن، سازشی دشمنوں کے ساتھ اس وقت آپ کا یہ معاملہ اسی کی نظیر ہے جو فتح مکہ کے بعد اپنے قدیمی دشمنوں کے ساتھ آپ نے فرمایا۔
Top