Tafseer-e-Majidi - Al-Muminoon : 24
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور وہی ہے زبردست حکمت والا
ربط سورت اور شان نزول
پچھلی سورت میں یہود کی دوستی جو منافقین نے اختیار کر رکھی تھی اس کی مذمت کا بیان تھا، اس سورت میں یہود پر دنیا میں جلا وطنی کی سزا اور آخرت کا عذاب مذکور ہے اور قصہ ان یہود کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب مدینہ طیبیہ میں تشریف لائے تو یہود سے معاہدہ صلح کا ہوچکا تھا اور ان یہودیوں کے مختلف قبائل میں ایک قبیلہ بنو نضیر کا تھا وہ بھی معاہدہ صلح میں داخل تھا اور یہ لوگ مدینہ طیبہ سے دو میل پر رہتے تھے، ایک مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ عمرو بن امیہ ضمری کے ہاتھ سے دو قتل ہوگئے تھے جس کا خون بہا سب کو مل کر ادا کرنا تھا، آپ نے اپنے مسلمانوں سے اس کے لئے چندہ حاصل کیا، پھر یہ ارادہ ہوا کہ یہود بھی ازروئے صلح نامے مسلمانوں کے ساتھ ہیں خون بہا کی رقم میں ان کو بھی شریک کیا جائے، اس کام کے لئے آنحضرت ﷺ قبیلہ بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے یہ سازش کی کہ آپ کو قتل کردینے کا موقع ہمارے ہاتھ آ گیا، اس لئے آنحضرت ﷺ کو ایک جگہ بٹھلا دیا اور کہا کہ ہم خون بہا کی رقم جمع کرنے کا انتظام کرتے ہیں اور خفیہ مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جس دیوار کے نیچے آپ تشریف فرما ہیں کوئی شخص اوپر چڑھ کر کوئی بڑا بھاری پتھر آپ کے اوپر چھوڑ دے کہ آپ کا کام تمام ہوجائے، آپ کو فوراً بذریعہ وحی ان کی یہ سازش معلوم ہوگئی، آپ وہاں سے اٹھ کر واپس تشریف لائے اور ان سے کہلا بھیجا کہ تم نے عہد شکنی کر کے صلح توڑ دی اس لئے اب تمہیں دس روز کی مہلت دی جاتی ہے اس میں تم جہاں چاہو چلے جاؤ، اس مدت کے بعد جو شخص یہاں نظر آوے گا اس کی گردن مار دی جاوے گی، انہوں نے چلے جانے کا ارادہ کیا تو عبداللہ بن ابی منافق نے ان کو روکا کہ کہیں نہ جاؤ، میرے پاس دو ہزار آدمیوں کی جمعیت ہے جو اپنی جان دیدیں گے، تم پر آنچ نہ آنے دیں گے اور روح المعانی میں ابن اسحاق کی روایت سے اس میں عبداللہ کے ساتھ ودیعہ مالک اور سوید اور راعس کا شریک ہونا بھی لکھا ہے، یہ لوگ ان کے کہنے میں آگئے اور آنحضرت ﷺ سے کہلا بھیجا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کرلیجئے، آپ صحابہ کرام کے ساتھ اس قبیلہ پر حملہ آور ہوئے اور یہ لوگ قلعہ بند ہوگئے اور منافقین منہ چھپا کر بیٹھ گئے، آپ نے ان کا محاصرہ کرلیا اور ان کے درخت جلوا دیئے، کچھ کٹوا دیئے، آخر تنگ آ کر انہوں نے جلا وطن ہونا منظور کرلیا، آپ نے اس حال میں بھی ان کے ساتھ یہ رعایت کی کہ حکم دے دیا کہ جتنا سامان تم ساتھ لے جاسکتے ہو لے جاؤ، بجز ہتھیار کے وہ ضبط کر لئے جاویں گے، یہ لوگ نکل کر کچھ شام میں چلے گئے، کچھ خیبر میں اور حرص دنیا کی وجہ سے اپنے گھروں کی کڑیاں، تختے، کواڑ تک اکھاڑ کرلے گئے اور یہ قصہ غزوہ احد کے بعد ربیع الاول سن 4 ھ میں پیش آیا، پھر حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت میں ان کو دوسرے یہود کے ساتھ ملک شام کی طرف نکال دیا، یہ دونوں جلا وطنی حشر اول اور حشرثانی کہلاتی ہیں، کذافی زادلمعاد۔

خلاصہ تفسیر
اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں اور وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے (چنانچہ اس کی علو شان اور قدرت اور حکمت کا ایک اثر یہ ہے کہ) وہی ہے جس نے (ان) کفار اہل کتاب (یعنی بنی نضیر) کو ان کے گھروں سے پہلی ہی بار اکٹھا کر کے نکال دیا (یعنی بقول زہری اس کے قبل ان پر یہ مصیبت واقع نہ ہوئی تھی، یہ مصیبت ان پر پہلی بار ہی آئی ہے جو ان کی حرکات شنیعہ کا ثمرہ ہے اور اس میں ایک لطیف اشارہ ہے ایک پیشین گوئی کی طرف کہ ان کے لئے پھر بھی ایسا اتفاق ہوگا، چناچہ دوبارہ حضرت عمر نے تمام یہود کو جزیرہ عرب سے نکال دیا، کذافی الخازن اور اشارہ کو لطیف اس لئے کہا گیا کہ لفظ اول ہمیشہ مقتضی نہیں ہوگا کہ اس کا کوئی ثانی بھی ہو، چناچہ بولتے ہیں فلاں عورت کے پہلی ہی بار بچہ پیدا ہوا ہے، ان کا گھروں سے نکال دینا مسلمان کی طاقت اور غلبہ کا اثر تھا، آگے اس کی تقریر ہے کہ اے مسلمانوں ان کا سامان و شوکت دیکھ کر) تمہارا گمان بھی نہ تھا کہ وہ (کبھی اپنے گھروں سے) نکلیں گے اور (خود) انہوں نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ (کے انتقام) سے بچالیں گے (یعنی اپنے قلعوں کے استحکام پر ایسے مطمئن تھے کہ ان کے دل میں انتقام غیبی کا خطرہ بھی نہ آتا تھا، پس ان کی حالت مشابہ اس شخص کے تھی جس کا یہ گمان ہو کہ ان کے قلعے اللہ کی گرفت سے بچا لیں گے اور اگر خاص قبیلہ بنو نضیر کے قلعے متعدد نہ ہوں تو حصو نہم جمع کی ضمیر مطلق یہود کی طرف ہوگی اور انہم کی ضمیر بھی اور صرفضمیر بنی نضیر کی طرف ہوجاوے گی، یعنی بنی نضیر کا یہ خیال تھا کہ سب یہود کو ان کے قلعے حوادث سے بچا لیں گے، ان سب یہود میں یہ بھی آگئے کہ اپنے قلعہ کو اپنا محافظ سمجھتے تھے) سو ان پر خدا (کا عقاب) ایسی جگہ سے پہنچا کہ ان کو خیال (اور گمان) بھی نہ تھا، (مراد اس جگہ سے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں نکالے گئے جن کی بےسرو سامانی پر نظر کر کے اس کا احتمال بھی نہ تھا کہ یہ بےسامان ان باسامانوں پر غالب آجائیں گے) اور ان کے دلوں میں (اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا) رعب ڈال دیا کہ (اس رعب کی وجہ سے نکلنے کا قصر کیا اور اس وقت یہ حالت تھی کہ) اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی اجاڑ رہے تھے (یعنی خود بھی کڑی تختہ لے جانے کے واسطے اپنے مکانوں کو منہدم کرتے تھے اور مسلمان بھی ان کے قلب کو صدمہ پہنچانے کے واسطے منہدم کرتے تھے اور مسلمانوں کے منہدم کرنے کو بھی ان کی طرف منسوب اس لئے کیا کہ سبب اس انہدام کا وہ ہی لوگ تھے کیونکہ انہوں نے عہد شکنی کی اور وہ فعل یہود کا ہے پس اسناد سبب کی طرف ہوگئی اور مسلمانوں کا ہاتھ بمنزلہ آلہ کے ہوگیا) سو اے دانش مندو (اس حالت کو دیکھ کر) عبرت حاصل کرو (کہ انجام خدا اور رسول کی مخالفت کا بعض اوقات دنیا میں بھی نہایت برا ہوتا ہے) اور اگر اللہ تعالیٰ ان کی قسمت میں جلا وطن ہونا نہ لکھ چکتا تو ان کو دنیا ہی میں (قتل کی) سزا دیتا (جس طرح ان کے بعد بنی قریظہ کے ساتھ معاملہ کیا گیا) اور (گو دنیا میں عذاب قتل سے بچ گئے لیکن) ان کے لئے آخرت میں دوزخ کا عذاب (تیار) ہے (اور) یہ (سزائے جلاوطنی دنیا میں اور سزا نار آخرت میں) اس سبب سے ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو شخص اللہ کی مخالفت کرتا ہے (اور وہی مخالفت رسول کی بھی ہے) تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے (یہ مخالفت دو طرح کی ہوئی، ایک نقض عہد سے جس سے کہ سزا جلاوطنی ہوئی اور دوسرے عدم ایمان سے جو سبب عذاب آخرت کا ہے، آگے یہود کے ایک طعن کا جواب ہے جو درختوں کے کاٹنے اور جلانے کے باب میں کیا تھا کہ ایسا کرنا تو فساد ہے اور فساد مذموم ہے، کذا فی الدرو نیز بعض مسلمانوں نے باوجود اجازت کے یہ سمجھ کر کہ ترک جائز جائز ہے اور آخر میں یہ درخت مسلمانوں ہی کے ہوجائیں گے تو ان کا رہنا ہی بہتر ہے، نہیں کاٹے اور بعض نے یہ سمجھ کر کہ یہود کا دل دکھے گا کاٹ دیئے، کذافی الدر، جواب کے ساتھ ان دونوں فعل کی بھی تصویب ہے پس ارشاد ہے کہ) جو کجھوروں کے درخت تم نے کاٹ ڈالے (اسی طرح جو جلا دیئے) یا ان کو ان کی جڑوں پر (بحالہا) کھڑا رہنے دیا سو (دونوں باتیں) خدا ہی کے حکم (اور رضا) کے موافق ہیں اور تاکہ کافروں کو ذلیل کرے (یعنی دونوں فعل میں مصلحت ہے، چناچہ ترک میں بھی مسلمانوں کی ایک کامیابی اور کفار کو غیظ میں ڈالنا ہے کہ یہ مسلمان اس کو برتیں گے اور قطع کرنے اور جلا دینے میں بھی مسلمانوں کی دوسری کامیابی یعنی ظہور آثار غلبہ اور کفار کو غیظ میں ڈالنا ہے کہ مسلمان ہماری چیزوں میں کیسے تصرفات کر رہے ہیں، پس دونوں امر جائز ہیں اور حکمت پر مبنی ہونے کے سبب ان میں کوئی قباحت نہیں۔
معارف و مسائل
سورة حشر کی خصوصیات اور قبیلہ بنو نضیر کی تاریخ
سورة حشر پوری یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے متعلق نازل ہوئی ہے (قالہ ابن اسحق) اور حضرت ابن عباس اس سورت کا نام ہی سورة بنی نضیر کہا کرتے تھے (ابن کثیر) بنو نضیر یہود کا ایک قبیلہ ہے جو حضرت ہارون ؑ کی اولاد میں ہے، ان کے آباؤ اجداد تورات کے عالم تھے، جس میں حضرت خاتم الانبیاء ؑ کی خیر اور آپ کا حلیہ اور علامات مذکور تھے اور یہ کہ ان کی ہجرت یثرب (مدینہ) کی طرف ہوگی، یہ خاندان اس طمع میں کہ خاتم الانبیاء کے ساتھ رہیں شام سے مدینہ طیبہ منتقل ہوا تھا، اس کے موجودہ لوگوں میں بھی کچھ تورات کے عالم تھے اور آنحضرت ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد علامات دیکھ کر پہچان بھی لیا تھا کہ یہ وہی خاتم الانبیاء ہیں لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ آخری نبی ہارون ؑ کی اولاد میں ان کے خاندان میں ہوں گے اور خاتم الانبیاء ﷺ بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں معبوث ہوئے تو اس حسد نے ان لوگوں کو ایمان لانے سے روک دیا، مگر دل میں ان کے اکثر لوگ آپ کے آخر الانبیاء ہونے کو جانتے پہچانتے تھے اور غزوہ بدر میں مسلمانوں کی حیرت انگیز فتح اور مشرکین کی شکست دیکھ کر ان کا یہ یقین کچھ اور بڑھا بھی تھا اس کا اقرار ان کی زبانوں سے سنا بھی گیا، مگر اس ظاہری فتح و شکست کو حق و باطل کے پہچاننے کا معیار بنا لینا ہی ایک بودی اور کمزور بنیاد تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ غزوہ احد میں جب ابتداً مسلمانوں کو شکست ہوئی، کچھ حضرات صحابہ شہید ہوئے تو ان کا یقین متزلزل ہوگیا اور اس کے بعد سے انہوں نے مشرکین مکہ کے ساتھ ساز باز شروع کردی۔
اس سے پہلے یہ واقعہ ہوچکا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ پہنچ کر حکیمانہ سیاست کے مقتضیٰ پر سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ مدینہ طیبہ میں اور شہر کے آس پاس کچھ یہود کے قبائل آباد تھے، ان سے معاہدہ صلح اس پر کرلیا تھا کہ یہ لوگ نہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے اور نہ کسی جنگ کرنے والے کی امداد کریں گے، اگر ان پر کوئی حملہ آور ہوا تو مسلمان ان کی امداد کریں گے، صلح نامہ میں اور بھی بہت سی دفعات تھیں جن کی تفصیل سیرت ابن ہشام وغیرہ میں مذکور ہے، اسی طرح یہود کے تمام قبائل کی جن میں بنو نضیر بھی داخل تھے، مدینہ طیبہ سے دو میل کے فاصلہ پر ان کی بستی اور مضبوط قلعے اور باغات تھے۔
غزوہ احد تک تو یہ لوگ بظاہر اس صلح نامہ کے پابند نظر آئے، مگر احد کے بعد انہوں نے غداری کی اور خفیہ خیانت شروع کردی، اس غدر و خیانت کی ابتداء اس سے ہوئی کہ بنو نضیر کا ایک سردار کعب بن اشرف غزوہ احد کے بعد اپنے یہودیوں کے چالیس آدمیوں کے ایک قافلہ کے ساتھ مکہ معظمہ پہنچا اور یہاں کے کفار قریش جو غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کی نیت سے غزوہ احد پر گئے تھے اور اس میں بالآخر شکست کھا کر واپس ہوچکے تھے ان سے ملاقات کی اور ان دونوں میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا ایک معاہدہ ہونا قرار پایا، جس کی تکمیل اس طرح کی گئی کہ کعب بن اشرف اپنے چالیس یہودیوں کے ساتھ اور ان کے بالمقابل ابوسفیان اپنے چالیس قریشیوں کے ساتھ حرم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا پردہ پکڑ کر یہ معاہدہ کیا کہ ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے۔
کعب بن اشرف اس معاہدہ کے بعد مدینہ طیبہ واپس آیا تو جبرئیل امین نے رسول اللہ ﷺ کو یہ سارا واقعہ اور معاہدہ کی تفصیل بتلا دی، آنحضرت ﷺ نے کعب بن اشرف کے قتل کا حکم جاری فرما دیا، چناچہ محمد بن مسلمہ صحابی نے اس کو قتل کردیا۔
اس کے بعد بنو نضیر کی مختلف خیانتیں اور سازشیں آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوتی رہیں، جن میں ایک وہ واقعہ ہے جو اوپر شان نزول کے عنوان سے لکھا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قتل کی سازش کی اور اگر فوری طور پر آنحضرت ﷺ بذریعہ وحی اس سازش پر مطلع نہ ہوتے تو یہ لوگ اپنی سازش قتل میں کامیاب ہوجاتے، کیونکہ جس مکان کے نیچے رسول اللہ ﷺ کو انہوں نے بٹھایا تھا اس کی چھت پر چڑھ کر ایک بڑا بھاری پتھر آپ کے سر مبارک پر چھوڑ دینے کا منصوبہ تقریباً مکمل ہوچکا تھا، جو شخص اس منصوبہ کو عملی صورت دینے والا تھا اس کا نام عمر بن حجاش تھا، حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور یہ منصوبہ فیل ہوگیا۔
ایک عبرت
یہ بھی عجیب معاملہ ہے کہ بعد کے واقعہ میں سارے ہی بنو نضیر جلا وطن ہو کر مدینہ سے نکل گئے، مگر ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہو کر محفوظ و مامون رہے، ان دو میں ایک یہی عمر بن جحاش تھے دوسرے ان کے چچا یامین بن عمرو بن کعب تھے (ابن کثیر)
عمرو بن امیہ ضمری کا واقعہ
شان نزول کے واقعہ میں جو یہ ذکر آیا ہے کہ عمر و بن امیہ ضمیری کے ہاتھ سے دو قتل ہوگئے تھے ان کا خون بہا جمع کرنے کی کوشش رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے اسی خون بہا کے سلسلے میں بنو نضیر کا چندہ حاصل کرنے کے لئے آپ ان کی بستی میں تشریف لے گئے تھے، اس کا واقعہ ابن کثیر نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی سازشیں اور مظالم کی داستان تو بہت طویل ہے ان میں سے ایک واقعہ بیر معونہ کا تاریخ اسلام میں معروف و مشہور ہے کہ بعض منافقین و کفار نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی بستی میں تبلیغ اسلام کے لئے صحابہ کرام کی ایک جماعت بھیجنے کی درخواست کی، آنحضرت ﷺ نے ستر صحابہ کرام ان کے ساتھ کئے بعد میں حقیقت یہ کھلی کہ ان لوگوں نے یہ محض سازش کی تھی، ان سب کو گھیر کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے، ان سے صرف عمرو بن امیہ ضمری کسی طرح نکل کر بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے جو بزرگ ابھی کفار کی یہ غداری اور خیانت اور اپنے انہتر بھائیوں کا بیدردی سے قتل دیکھ کر آ رہے تھے ان کا جذبہ کفار کے مقابلہ میں کیا ہوگا ہر شخص خود اندازہ کرسکتا ہے، اتفاق یہ ہوا کہ مدینہ طیبہ واپس آنے کے وقت راستہ میں ان کو دو کافروں سے سابقہ پڑا، انہوں نے دونوں کو قتل کردیا، بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں آدمی قبیلہ بنی عامر کے تھے جن سے رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ صلح تھا۔
مسلمانوں کے معاہدات آج کل کے سیاسی لوگوں کے معاہدات تو ہوتے نہیں کہ پہلے ہی خلاف ورزی اور عہد شکنی کی راہیں تلاش کرلی جاتی ہیں، یہاں تو جو کچھ زبان یا قلم سے نکلتا تھا دین و مذہب اور خدا تعالیٰ کے حکم کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کی پابندی لازمی تھی، جب آنحضرت ﷺ کو اس غلطی کا علم ہوا تو آپ نے اصول شرعیہ کے مطابق ان دونوں مقتولوں کی دیت (خون بہا) ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا اور اس کے لئے مسلمانوں سے چندہ جمع کیا، اس میں بنو نضیر کے پاس بھی چندہ کے سلسلے میں جانا ہوا (ابن کثیر)
بنو نضیر کو جلا وطن کرنے کے وقت اسلام اور مسلمانوں کی رواداری موجودہ اہل سیاست کے لئے سبق آموز معاملہ
آج کے بڑے حکمران اور بڑی حکومتیں جو انسانی حقوق کے تحفظ پر بڑے بڑے لیکچر دیتے ہیں اور اس کے لئے ادارے قائم کرتے ہیں اور دنیا میں تحفظ حقوق انسانیت کے چودھری کہلاتے ہیں ذرا اس واقعہ پر نظر ڈالیں کہ بنو نضیر کی مسلسل سازشیں، خیانتیں، قتل رسول کے منصوبے جو آپ کے سامنے آتے رہے اگر آج کل کے کسی حکمران اور کسی سربراہ مملکت کے سامنے آئے ہوتے تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا، آج کل تو زندہ لوگوں پر پٹرول چھڑک کر میدان صاف کردینا کسی بڑے اقتدار و حکومت کا بھی محتاج نہیں، کچھ غنڈے شریر جمع ہوجاتے ہیں اور یہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں، شاہانہ غیظ و غضب کے کرشمے کچھ اس سے آگے ہی ہوتے ہیں۔
مگر یہ حکومت خدا کی اور اس کے رسول کی ہے جب خیانتیں اور غداریاں انتہاء کو پہنچ گئیں تو اس وقت بھی ان کے قتل عام کا ارادہ نہیں فرمایا، ان کے مال و اسباب چھین لینے کا کوئی تصور نہیں تھا، بلکہ (1) اپنا سب سامان لے کر صرف شہر خالی کردینے کا فیصلہ کیا۔ (2) اور اس کے لئے بھی دس روز کی مہلت دی کہ آسانی سے اپنا سامان ساتھ لے کر اطمینان سے کسی دوسرے مقام پر منتقل ہوجائیں جب اس کی بھی خلاف ورزی کی تو قومی اقدام کی ضرورت پیش آئی۔ (3) اس لئے کچھ درخت تو جلائے گئے، کچھ کاٹے گئے کہ ان پر اثر پڑے، مگر قلعہ کو آگ لگا دینے کا یا ان کے قتل عام کا حکم اس وقت بھی نہیں دیا گیا۔
(4) پھر جب مجبور ہو کر ان لوگوں نے شہر خالی کردینا منظور کرلیا تو اس فوجی اقدام کے باوجود ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ ایک اونٹ پر جس قدر سامان ایک آدمی لے جاسکتا ہے لے جائے، اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے مکانوں کی کڑیاں، تختے، دروازے، کواڑ تک اتار کر لاد لئے۔
(5) اس سازو سامان کے ساتھ منتقل ہونے والوں کو کسی مسلمان نے ترچھی نظر سے نہیں دیکھا، امن و عافیت اور پورے اطمینان کے ساتھ سامان لے کر رخصت ہوئے۔
آنحضرت ﷺ کے یہ معاملات اس وقت کے ہیں جبکہ آپ کو اپنے دشمن سے انتقام پورا پورا لے لینے کی مکمل قدرت و طاقت حاصل تھی، ان غدار، خائن، سازشی دشمنوں کے ساتھ اس وقت آپ کا یہ معاملہ اسی کی نظیر ہے جو فتح مکہ کے بعد اپنے قدیمی دشمنوں کے ساتھ آپ نے فرمایا۔
Top