Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 24
فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓئِكَةً١ۖۚ مَّا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَۚ
فَقَالَ : تو وہ بولے الْمَلَؤُا : سردار الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا مِنْ : سے۔ کے قَوْمِهٖ : اس کی قوم مَا ھٰذَآ : یہ نہیں اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُرِيْدُ : وہ چاہتا ہے اَنْ يَّتَفَضَّلَ : کہ بڑا بن بیٹھے وہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَاَنْزَلَ : تو اتارتا مَلٰٓئِكَةً : فرشتے مَّا سَمِعْنَا : نہیں سنا ہم نے بِھٰذَا : یہ فِيْٓ اٰبَآئِنَا : اپنے باپ داد سے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی وہ یہ سن کر کہنے لگے یہ آدمی اس کے سوا کیا ہے کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہے ؟ مگر چاہتا ہے تم پر اپنی بڑائی جتائے اگر اللہ کو کوئی ایسی ہی بات منظور ہوتی تو کیا وہ فرشتے نہ اتار دیتا ؟ ہم نے اپنے اگلے بزرگوں سے تو ایسی کوئی بات کبھی نہیں سنی
سرداران قوم کی طرف سے سیدنا نوح (علیہ السلام) کو جو جواب دیا گیا : 24۔ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے یہی بات چلی آرہی ہے کہ اہل ثروت ‘ اصحاب اقتدار اور قوم کے وڈیروں ہی نے صالحین کی مخالفت میں پہل کی ہے کیونکہ انہی کا وجود ساری خرابیوں اور فسادات کا منبع ہوتا ہے اور اصلاح کی براہ راست رد بھی انہی کے اقتدار اور ان کے مفاد پر پڑتی ہے اس لئے وہ عوام کے دلوں میں طرح طرح کے شبہات ڈال کر انہیں اہل حق سے برگشتہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں ، انبیاء کرام (علیہ السلام) کے خلاف سب سے پہلے انہوں نے ہمیشہ یہ ہتھیار استعمال کیا کہ یہ بشر ہیں ‘ یہ ہماری طرح کے انسان ہیں ‘ پھر یہ بھی کبھی نبوت کے منصب عالی پر فائز ہو سکتے ہیں ؟ اور ان کا یہ ہتھیار اکثر کارگر ثابت ہوا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ خود اپنے آپ کو بھی تو آخر انسان ہی سمجھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ہم کیا ہیں ؟ زمانے کے بدمعاش اور سفاک ‘ دھوکہ باز ‘ پرلے درجے کے فریبی ‘ بدکاری وبدکرداری کا ایک پلندہ ‘ سنگدل ‘ بےرحم ‘ لالچی ‘ عیاش ‘ مکار اور عیار تھے اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ انسان جس حیوان کا نام ہے وہ تو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ وہ خود ہیں بلکہ وہ تو خود دوسرے کتنے لوگوں کے سردار ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایسے کسی کو نبی مان لیاجائے یا ایسا انسان بھلا نبی بن جائے ‘ کیسے ہو سکتا ہے ؟ بلاشبہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بیچارے مجبور تھے اور انکی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا لیکن کیا آج کل کے ان مولویوں ‘ علاموں اور رضا خانیوں کو بھی اسی طرح مجبور سمجھ لیا جائے کیا یہ سب بھی اسی طرح کے سفاک ‘ دھوکہ باز ‘ بدکردار ‘ سنگدل ‘ بےرحم ‘ لالچی ‘ عیاش ‘ مکار اور عیار ہیں اسی لئے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بشریت سے انکاری ہیں اگر بات ایسی ہے تو بلاشبہ ہم ان کو بھی مجبور سمجھیں گے ہاں ! بلاریب ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ وہ خود انسانیت سے محروم تھے اس لئے انسان کی ان بےپناہ خوبیوں اور بےانداز کمالات سے قطعا بیخبر تھے اس لئے جب کبھی بھی کسی نبی نے اپنی قوم کو دعوت حق دی تو قوم کے رئیسوں نے اپنی قوم کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی کہ یہ تو انسان ہے اور انسان کبھی رسول نہیں ہو سکتا اور لوگوں نے اپنی سادگی کے باعث ان کی اس بات کو ہمیشہ قبول کیا لیکن افسوس کہ اس وقت قوم کے سیاسی سرداروں کی جو حالت تھی آج قوم کے مذہبی راہنماؤں کی وہ حالت نظر آرہی ہے اس لئے اس کا فیصلہ تم خود کرلو کہ اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھ کر ہم ترقی کی طرف گامزن ہیں یا تنزلی کی طرف اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ وہ ایسا کہہ کر پکے کافر تھے اور ہم یہ کہہ کر پکے مسلمان ۔ انہوں نے قوم کے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ ” اگر اللہ کو کوئی ایسی بات منظور ہوتی تو کیا وہ فرشتے نہ اتار دتیا ؟ “ ان کے اس سوال کا جواب دوسری جگہ خود قرآن کریم نے دے دیا جہاں ارشاد فرمایا اے پیغمبر اسلام ! ﷺ کہہ دے اگر ایسا ہوا ہوتا کہ زمین میں انسانوں کی جگہ فرشتے بسے ہوتے اور اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ضرور آسمان سے ایک فرشتہ پیغمبر بنا کر اتار دیتے ۔ “ (بنی اسرائیل 17 : 95) اگر کوئی شیشے کو دیکھے تو کیا نظر آتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ وہ اپنا منہ ہی دیکھتا ہے پھر وہ شخص شیشہ کو دیکھ کر منہ چڑھائے وہ کس پر منہ چڑھاتا ہے ؟ اپنے منہ پر کیوں ؟ اس لئے کہ برے کو برا ہی منہ دکھائی دیتا ہے یہی حال سیدنا نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں کا تھا اور یہی حال آج کل کے سرداروں کا ہے ۔ قرآن کریم ہم کو بتاتا ہے کہ انہوں نے دوسرا ہتھیار انبیاء کرام کے خلاف جو استعمال کیا ہے وہ یہ تھا کہ یہ خود بڑا بننا چاہتے ہیں ۔ انہیں اقتدار کی ہوس ہے ؟ کیا ان کے دل اس بات کا یقین رکھتے تھے ؟ ہرگز نہیں ! یہ ان کا محض جھوٹا پروپیگنڈا تھا اور اس طرح وہ محض اپنی دنیاوی جاہ و حشمت کے تحفظ کے لئے ایسا بےبنیاد الزام لگاتے تھے ، بہرحال وجہ کچھ بھی ہو انہوں نے یہ بےبنیاد الزام سیدنا نوح (علیہ السلام) پر لگایا اور اہل غرض کا یہ دیرینہ حربہ ہے جو وہ اہل حق کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں اور بلاشبہ اب بھی کرتے ہیں اور اس وقت تک یہ لوگ ایسا کرتے رہیں گے جب تک عوام کی وہ آنکھ پوری طرح نہ کھل جائے جو نیک وبد ‘ مصلح ومفسر اور مخلص وخود غرضی میں امتیاز کرسکے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو ایسی آنکھ عطا فرما دے ۔
Top