Tafseer-e-Majidi - Al-Muminoon : 24
فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓئِكَةً١ۖۚ مَّا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَۚ
فَقَالَ : تو وہ بولے الْمَلَؤُا : سردار الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا مِنْ : سے۔ کے قَوْمِهٖ : اس کی قوم مَا ھٰذَآ : یہ نہیں اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُرِيْدُ : وہ چاہتا ہے اَنْ يَّتَفَضَّلَ : کہ بڑا بن بیٹھے وہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَاَنْزَلَ : تو اتارتا مَلٰٓئِكَةً : فرشتے مَّا سَمِعْنَا : نہیں سنا ہم نے بِھٰذَا : یہ فِيْٓ اٰبَآئِنَا : اپنے باپ داد سے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
تو ان کی قوم میں جو کافر رئیس تھے وہ کہنے لگے،21۔ کہ یہ (شخص) اور ہے کیا بجز اس کے کہ تمہارا ہی جیسا انسان ہے،22۔ چاہتا ہے کہ تم سے برتر ہو کر رہے اور اگر خدا (یہی) چاہتا تو وہ فرشتوں کو بھیجتا ہم نے یہ بات اپنے پہلے بڑوں سے تو سنی ہی نہیں،23۔
21۔ (اپنی قوم کی عام پبلک سے) 22۔ (اور جب خالی خولی انسان ہی ہے تو پھر خدا کا اوتار یادیوتا وغیرہ کیسے ہوسکتا ہے) مشرک قوموں کی بنیادی غلطی بھی عقیدہ رسالت میں گمراہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی ہدایت کے لئے جب کوئی آئے گا وہ یا تو خود خدا ہوگا بہ شکل انسان، اور یا کوئی دیوتا، یہ اسلام ہی ہے جس نے اس بنیادی گمراہی پر ضرب لگائی اور بار بار اعلان کیا کہ رسول تو محض بشر ہی ہوتا ہے مع تائید وحی کے۔ بجز دولت وحی کے کوئی شے بھی اس میں عام انسانوں سے زائد نہیں ہوتی۔ اہل توحید کو اور مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والوں کو یہ بات بالکل موٹی سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن مشرکوں کی سمجھ میں اتنی بات بھی نہیں آتی۔ 23۔ یعنی کیسی انوکھی اس شخص کی دعوت ہے۔ دیوی دیوتا جنہیں ہم اور ہمارے باپ دادا ہمیشہ سے مانتے چلے آئے ہیں۔ ان کا یہ شخص منکر ہے۔ اور سب سے نرالی بات یہ کہہ رہا ہے کہ معبود بس خالی ایک ہی ہے !۔ منکرین دعوت پیغمبر ہر دور میں اپنے زمانہ کے نہایت جمود پسند (کنسروٹیو) قسم کے لوگ ہوا کئے ہیں۔ (آیت) ” یرید ان یتفضل علیکم “ برتری سے مراد دنیوی یعنی جاہ و ریاست کی برتری مراد ہے۔ بدبخت منکروں نے ہمیشہ اپنے ظرف وطینت پر قیاس کرکے پیغمبروں کی نیت سے بدگمانی کی ہے اور انہیں اپنا ہی جیسا طالب دنیا فرض کیا ہے۔ (آیت) ” لوشآء اللہ لانزل ملئکۃ “۔ یعنی خدا کو ہماری اصلاح وہدایت ہی اگر منظور ہوتی تو اس غرض کے لئے کوئی فوق البشر ہستی نازل کی جاتی۔ کوئی دیوی دیوتا آتے، کوئی اوتار ظاہر ہوتے۔
Top