Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 16
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ
وَمَا خَلَقْنَا
: اور ہم نے نہیں پیدا کیا
السَّمَآءَ
: آسمان
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
وَمَا
: اور جو
بَيْنَهُمَا
: ان دونوں کے درمیان
لٰعِبِيْنَ
: کھیلتے ہوئے
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو (مخلوقات) ان دونوں کے درمیان ہے اس کو لہو و لعب کے لئے پیدا نہیں کیا
بیان توحید و ابطال شرک قال اللہ تعالیٰ وما خلقنا السماء والارض وما بینھما لعبین .... الیٰ .... کذلک نجزی الظلمین۔ (ربط) ابتداء سورت سے لیکر یہاں تک کا مضمون تحقیق نبوت و رسالت سے متعلق تھا، اب آئندہ آیات میں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال فرماتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ آسمان و زمین کی پیدائش میں غوروفکر کرو تاکہ تم کو اللہ کی معرفت حاصل ہو عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام چیزیں اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں۔ (یا یوں کہو) کہ گزشتہ آیات میں کفار کی غفلت اور اعراض اور ان کے لہو ولعب کو بیان کیا اب آگے یہ بیان کرتے ہیں کہ عالم کی پیدائش کھیل تماشہ نہیں بلکہ حق اور باطل میں فرق کرنے کے لیے یہ عالم پیدا کیا گیا ہے کہ کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ وہ دنیا میں آزاد ہے جو چاہے کرے یہ عذاب ہے اور ثواب ہے اور نہ کوئی داروگیر اور پکڑ دھکڑ ہے۔ ایحسب الانسان ان یترک سدی۔ تم کو چاہئے کہ آسمان اور زمین کی پیدائش کو کھیل اور تماشہ نہ سمجھو بلکہ اس کے عجائب وغرائب میں نظر اور فکر سے کام لو اور گزشتہ بستیوں کو جو ہلاک اور برباد کیا گیا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ انہوں نے دنیا کو کھیل اور تماشہ سمجھا اور جس غرض کے لیے دنیا پیدا کی گئی اس سے غفلت اور اعراض برتا۔ اور آسمان و زمین کے عجائب میں غوروفکر سے اس کے صانع اور خالق کا پتہ نہ لگایا اور انبیاء و رسل نے جب ان کو خبردار کیا تو ان کی تکذیب کی۔ حق تعالیٰ نے اس تکذیب کی پاداش میں ان پر عذاب نازل کیا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل اور تماشہ کے لیے اور دل بہلانے کے لیے نہیں پیدا کیا۔ گزشتہ بستی والوں کی طرف کوئی نادان یہ گمان نہ کرے کہ یہ سارا عالم کھیل اور تماشا ہے اور انسان طبعا آزاد پیدا ہوا ہے جو اس کا جی چاہئے کرے۔ انسان مرنے کے بعد نیست و نابود ہوجاتا ہے۔ مرنے کے بعد نہ ثواب نہ عقاب ہے سو یہ گمان بالکل غلط ہے بلکہ انسان خدا کا بندہ ہے اور اس کا پیدا کیا ہوا ہے۔ بندہ کا خدا سے آزاد ہوجانا ناممکن اور محال ہے خدا نے بندہ کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ آسمان اور زمین کی عجائب صنعت میں غوروفکر سے اس کے خالق کی معرفت حاصل کرے اور عالم کی اس ظاہری آرائش اور رونق سے دھوکہ نہ کھائے اور خوب سمجھ لے کہ اس عالم کی پیدائش عبث اور بےفائدہ نہیں بلکہ اظہار قدرت کے لئے اور کمال حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔ نبگر بچشم فکر کہ از عرش تافرش درہیچ ذرہ نیست کہ سرے عجیب نیست اور معرفت صانع کے بعد اپنے خالق اور پروردگار کی عبادت اور اطاعت کریں اور یقین کریں کہ یہ دنیا آخرت کے لیے پیدا کی گئی ہے وہاں پہنچ کر بندہ کو ہر نیک و بد کی جزا و سزا ملتی ہے اور ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے وما خلقنا السماء والارض وما بینھما باطلا، ذلک ظن الذین کفروا۔ یعنی کافروں کا گمان یہ ہے کہ اس عالم کی پیدائش عبث اور بےفائدہ ہے اور مرنے کے بعد حساب کتاب کچھ نہیں۔ گزشتہ امتیں اسی خیال باطل میں مبتلا تھیں کہ یہ دنیا محض کھیل اور تماشہ ہے اور جزاء و سزا کوئی چیز نہیں۔ اس لیے سب کے سب تہ وبالا کر دئیے گئے تاکہ مجرموں اور منکروں کو اس طرح سزا دی جائے اور اگر ہم کھیل اور تماشہ بنانے کا ارادہ کرتے جس کے دیکھنے سے آدمی کا دل خوش ہوتا ہے جیسے نیوی اور اولاد تو یہ چیزیں ہم اپنے پاس سے بنا لیتے جو ہماری شان کے لائق ہوتیں کیونکہ ہمارے پاس کی چیزیں جسمانی آلائشوں سے بالکل پاک اور منزہ ہیں جیسے ملائکہ جن کو ہم نے خالص نور سے پیدا کیا ہے اگر ہم ایسا کرنے والے ہوتے تو ہمارے پاس کیا کمی تھی مگر ہم تو اس سے منزہ ہیں۔ ہم کو بیوی بچوں کی کوئی احتیاج نہیں اور نہ یہ چیزیں ہماری شان کے لائق ہیں اس لیے ہم نے اس کو نہیں چاہا۔ اس آیت میں نصاری اور یہود اور مشرکین کے رد کی طرف اشارہ ہے کہ جو خداوند پاک کی طرف پسر اور دختر اور جورو کی نسبت کرتے ہیں اور فرزندیت اور زوجیت کے دونوں قول باہم متلازم ہیں۔ کما قال تعالیٰ لو اراد اللہ ان یتخذ ولدا لاصطفی مما یخلق ما یشاء سبحانہ ھو اللہ الواحد القھار۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ فرزند بنانا چاہتا تو اپنی مخلوقات میں جس کو چاہتا چھانٹ لیتا مگر بارگاہ الٰہی اس سے مقدس ہے سبحانہ ان یکون لہ ولد۔ اور اگر بفرض محال ہم بنا ہی لیتے تو وہ ہماری بنائی ہوئی چیز ہوتی اور مخلوق اور حادث ہوتی۔ خدا اور معبود تو نہ ہوتی۔ کما قال تعالیٰ لو اراد اللہ ان یتخذ ولدا لاصطفی مما یخلق ما یشاء سبحانہ ھو اللہ الواحد القھار۔ غرض یہ آسمان و زمین کے بنانے سے ہمارا مقصود کھیل اور تماشا نہیں۔ ہماری ذات لہو و لعب سے پاک اور منزہ ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم اوپر سے حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں پھر وہ حق اس باطل کا دماغ اور بھیجہ پلپلا کردیتا ہے۔ پس وہ باطل ناگہاں بےجان ہوجاتا ہے اور اس کا سارا دم ختم ہوجاتا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا کھیل اور تماشہ نہیں بلکہ میدان کا رزا رہے۔ حق باطل پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کا سر کچل ڈالتا ہے جس سے وہ باطل جانبر نہیں ہوتا اور حق میں دین کی تمام باتیں اور باطل میں کفر و شرک اور معصیت کی تمام باتیں داخل ہیں۔ جن و انس کی پیدائش سے مقصود خالق کی بندگی ہے اور اے باطل پرستو تمہارے لیے کم بختی اور بربادی ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم خدا کے اوصاف بیان کرتے ہو۔ یعنی تم لوگ جو خدا تعالیٰ کے لیے بیٹا اور بیٹیاں تجویز کرتے ہو یہ سب تمہارا افتراء ہے اور تمہاری ہلاکت اور بربادی کا سامان ہے۔ اب آگے یہ بتلاتے ہیں کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں اللہ ہی کی ملک ہیں۔ اور سب اس کی عبودیت اور بندگی میں لگی ہوئی ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اللہ ہی کی ملکیت ہے جو کوئی آدمی یا جن یا فرشتہ وغیرہ وغیرہ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کی مخلوق اور مملوک ہے اور خاص کر جو فرشتے اس کے پاس ہیں اور پروردگار الٰہی کے مقرب ہیں اور جن کو تم پوجتے ہو ان کی شان تو یہ ہے کہ وہ ذرہ برابر اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ کبھی اس کی عبادت سے تھکتے ہیں۔ دن رات اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگے رہتے ہیں کبھی سست نہیں پڑتے۔ یعنی ان کی تسبیح و تقدیس مسلسل اور متواتر ہے۔ ہیچ میں وقفہ نہیں کیونکہ تسبیح ان کے بمنزلہ سانس کے ہے معلوم ہوا کہ فرشتوں کو معبود بنانا حماقت ہے اس آیت میں آسمان کی چیزوں کے معبود بنانے کو باطل فرمایا۔ اب آئندہ آیت میں زمین کی چیزوں کو معبود بنانے کا ابطال فرماتے ہیں کیا ان بت پرستوں نے زمین کی چیزوں میں سے یعنی اینٹ اور پتھر میں سے معبود بنا لیے ہیں کیا یہ بت مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں یعنی معبود تو وہ ہے کہ جو چلانے اور پیدا کرنے پر قادر ہو اور ایسا تو صرف اللہ ہی ہے لہٰذا بتوں کو معبود ٹھہرانا کمال حماقت ہے کہ ان نادانوں نے مغلیات کو اور ایسی چیزوں کو جو پیدا کرنے پر ذرہ برابر قادر نہیں ان کو خدا کا ہمسر ٹھہرانا پر لے درجے کی بےوقوفی ہے غرض یہ کہ اس آیت میں مشرکین کی جہالت اور حماقت بیان فرمائی۔ اب آئندہ آیت میں متعدد معبود ہونے کے بطلان پر ایک دلیل عقلی اور برہان قطعی قائم کرتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ تعدد الٰہ قطعا باطل ہے اور دلیل یہ ہے کہ اگر آسمان و زمین میں چند خدا ان کے مدبر اور ان میں متصرف ہوتے اور سب کے سب فی الحقیقت صفات الوہیت کے ساتھ باوجہ الکمال والتمام موصوف ہوتے اور کمال قدرت و اختیار کے ساتھ ان کے مدبر اور ان میں متصرف ہوتے تو بلاشبہ دونوں خراب اور برباد ہوجاتے۔ یعنی عالم کا جو نظام دکھائی دیتا ہے وہ سب درہم برہم ہوجاتا اور طلوع و غروب اور دن اور رات اور گرمی اور سردی اور بادلوں کا برسنا اور زمین سے پیداوار کا ہونا وغیرہ وغیرہ یہ سارا نظام لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ آسمان اور زمین اپنی اپنی جگہ قائم ہیں اور چاند اور سورج اپنے اپنے وقت پر نکلتے اور ڈوبتے ہیں اور دن رات آرہے ہیں اور جا رہے ہیں اور آسمان سے پانی کا برسنا اور زمین سے روئیدگی حسب دستور جاری ہے غرض یہ سارا خانہ عالم ایک ہی طریقہ اور ایک ہی وتیرہ پر چل رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ تمام عالم کا مدبر اور متصرف صرف ایک ہی خدا ہے جس کے حکم سے یہ سارا کارخانہ چل رہا ہے کسی دوسرے کے ارادہ اور تصرف کو ذرہ برابر اس میں دخل نہیں پس اگر اللہ کے سوا آسمان و زمین کی تخلیق اور تدبیر میں اور چند خدا شریک ہوتے تو باہمی اختلاف اور کشمکش کی وجہ سے آسمان و زمین کا نظام درہم برہم ہوجاتا کیونکہ جس وقت حاکم متعدد ہوں تو لامحالہ رایوں میں تمانع اور تنازع یعنی باہم اختلاف پیش آئیگا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ نظام مملکت تباہ اور خراب ہوگا۔ اسی طرح اگر عالم کے خالق اور مدبر دو خدا ہوتے تو آسمان و زمین کا تمام نظام درہم برہم ہوجاتا و لیکن آسمان و زمین کا قیام اور انکا نظام باحسن وجوہ سب کے سامنے ہے تو نتیجہ یہ نکلا کردو الٰہ (دو خدا) کا وجود باطل ہے پس اگر ذرا بھی سمجھ ہے تو دنیا کے نظم و نسق کو دیکھ کر اس کی وحدانیت کے قائل ہوجائیں۔ عارف جامی (رح) فرماتے ہیں۔ گر خدا بودے از یکے افزوں کے بماندے جہاں بدیں قانوں در فیض وجود بستہ شدے تار و پود بقا گسستہ شدے ہمہ عالم عدم شدے باہم بلکہ بیرون نیا مدے زعرم داند آں کش ز عقل باشدبہر کہ دو شہ راجو جاشودیک شہر سلک جمعیت از نظام افتد رخنہ درکار خاص و عام افتد عقلا یہ بات محال ہے کہ دو خدا ایک ہی تدبیر پر بالکلیہ اور بہ ہمہ وجوہ متفق ہوجائیں اور ایک دوسرے خدا کی کسی وقت کسی امر میں ذرہ برابر بھی مخالفت نہ کرے اس لیے کہ جب وہ خدا ہونگے اور دونوں مستقل خدا ہوں گے تو لامحالہ ہر ایک کی صفات اور ہر ایک کا علم اور قدرت اور ارادہ اور اختیار بھی دوسرے خدا کی صفات اور اس کے علم اور قدرت اور ارادہ اور اختیار سے مختلف اور جدا ہوگا اس لئے کہ صفات، ذوات کے تابع ہوتی ہیں جب ذوات متعدد اور مختلف ہیں تو لامحالہ صفات بھی مختلف ہوں گی۔ عقلا یہ بات محال ہے کہ ذوات تو مختلف ہوں اور صفات خداوندی چونکہ لازم ذات ہیں اور ازلی اور ابدی اور قدیم ہیں جن میں کسی قسم کے تغیر اور تبدل کا امکان نہیں تو لامحالہ جب دو خدا ہونگے اور ان کے علم اور ارادے بھی ضرور مختلف ہونگے اور انکا اختلاف بھی ذاتی ہوگا جس میں تغیر و تبدل کا کوئی امکان نہ ہوگا تو لامحالہ ان کے افعال بھی مختلف ہونگے اور نظام عالم بھی مختلف ہوگا ہر جزئی دوسری جزئی سے مختلف ہوگی۔ پس جب ہر خدا کی تدبیر اور اس کا تصرف دوسرے خدا کی تدبیر اور تصرف سے مختلف ہوگا تو کارخانہ عالم ضرور درہم برہم ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ کے سوا جنس خدا کا موجود ہونا محال ہے یعنی کسی اور خدا کا ہونا محال ہے۔ کہ جس کے ماننے سے یہ محال اور خرابی لازم آتی ہے عقلا یہ بات محال ہے کہ یہ کہا جائے کہ دو درزیوں میں سے ہر ایک درزی نے بعینہٖ اس ایک کرتہ کو سیا ہے یا بعینہٖ ایک ہی طعام کو دو شخصوں میں سے ہر ایک نے بعینہٖ یہ طعام کھایا ہے۔ دو مؤثر تام القدرۃ اور مستقل الاختیار کے دو مستقل قدرتوں سے ایک ہی کا اثر نمودار ہونا عقلا محال ہے یہ آیت حق جل شانہ کی توحید کی ایک دلیل عقلی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا کئی خدا ہوتے تو جس طرح مختلف بادشاہوں کے ایوان میں تمانع اور تنازع یعنی باہم اختلاف اور تزاحم ہوتا ہے اور ہر ایک اپنی رائے کا نفاذ چاہتا ہے تو اسی طرح اگر آسمان و زمین کے چند خدا ہوتے تو ان چند خداؤں کی خدائی میں بھی ضرور اختلاف اور تزاحم ہوتا۔ اور ہر ایک اپنا ہتھیار اور حکم چلانا چاہتا اس لیے کہ خدائی کے لیے انتہائی کبریائی اور قہر اور غلبہ اور فوقیت لازم ہے جس میں برابری اور ہمسری کی ذرہ برابر گنجائش نہیں۔ وہ خداؤں میں صلح و اتفاق کا کوئی امکان نہیں۔ دنیا ہی دیکھ لو کہ برابر کے دو مستقل اور با اختیار حاکموں میں تنازع اور تمانع یعنی باہم اختلاف اور تزاحم کا واقع ہونا ایک لازمی امر ہے اور تخالف اور تزاجم کے لیے فساد اور خرابی لازم ہے خاص کر جبکہ ہر ایک صاحب قدرت ہو پس اگر خدا تعالیٰ کے سوا چند خدا ہوں جو اس عالم کے کاموں کی تدبیر کریں تو ہر خدا اپنی اپنی رائے اور اختیار کو پورا پورا جاری اور نافذ کرنا چاہے گا اس لیے کہ قدرت کاملہ اور اختیار کا ملہ کا ہونا ضروری ہے کہ اپنی قدرت اور اختیار سے جو چاہے نافذ کرسکے۔ اور سب پر قاہر اور غالب رہے اور کسی کو مجال دم زدنی نہ ہو۔ پس چند خداؤں کی موجودگی میں باہم اختلاف اور جنگ کا ہونا لازم ہے اور وہ خداؤں کی جنگ کا نتیجہ ظاہر ہے کہ جب دو خداؤں میں جنگ ہونے لگے اور خدائی میں رسہ کشی ہونے لگے تو لامحالہ آسمان و زمین تباہ و برباد ہوجائیں گی اور اگر ایجاد عالم سے پہلے ہی دونوں خداؤں کے ارادوں میں اختلاف ہوجاتا کہ ایک خدا عالم پیدا کرنا چاہتا اور دوسرا یہ چاہتا کہ پیدا نہ ہو تو پھر سرے سے عالم کے وجود میں آنے سے پہلے ہی دو خداؤں کے ارادوں میں ٹکر اور رسہ کشی ہوگی تو ایسی صورت میں کوئی چیز وجود ہی میں نہیں آسکتی اور اگر موجودہ چیز پر دو خدا زور آزمائی کرنے لگیں تو اس کشمکش میں وہ چیز ٹوٹ پھوٹ کر برابر ہوجائے گی۔ خلاصہ کلام یہ کہ آسمان اور زمین تباہ اور برباد ہوجاتے یا مرے سے وجود ہی میں نہ آتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آسمان و زمین دونوں موجود ہیں اور اپنے نظام پر قائم ہیں اور آسمان اور زمین کے نظام میں کوئی فساد اور خلل نظر نہیں آتا آفتاب اور ماہتاب کا طلوع اور غروب اور دلیل و نہار کی آمدورفت اور آسمان سے بارشوں کا برسنا اور زمین سے پھلوں اور غلوں کا پیدا ہونا ابتداء آفرنیش عالم سے بدستور ایک ہی طریقے پر جاری ہے سر مواس میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوا کہ یہ کارخانہ عالم ایک ہی خدا کی تدبیر اور تصرف سے چل رہا ہے کوئی دوسرا خدا نہیں جو تدبیر عالم میں اس کا شریک اور سہیم ہو اور وہ صرف ایک ہے حق جل شانہ نے اس آیت میں اثبات توحید اور تعدد الٰہ کے ابطال پر جو دلیل ذکر فرمائی ہے وہ دلیل عقلی بھی ہے منطقی پیرایہ میں اس کی تعبیر یہ ہے کہ اثبات مدعیٰ کے لیے ایک صغریٰ چاہئے اور ایک کبری چاہئے کہ دونوں مقدموں کے ملانے سے نتیجہ نکل سکے۔ سو اس دلیل کا صغری یہ ہے کہ تعداد الٰہ مستلزم فساد عالم ہے اور کبریٰ یہ ہے کہ فساد عالم منتقی ہے پس نتیجہ یہ نکلا کہ تعدد الٰہ باطل اور منتقی ہے اور جب خدا کا متعدد ہونا باطل ٹھہرا تو خدا کی وحدانیت ثابت ہوگئی۔ اصلاح علماء میں یہ دلیل۔ ” برہان تمانع “ کے نام سے مشہور ہے اور تمانع کے معنی تزاجم اور تنازع اور تخالف کے ہیں۔ لہٰذا اس دلیل کو دلیل تزاجم اور دلیل تنازع اور دلیل تخالف بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ تقریبا مترادف ہیں۔ علامہ تفتازانی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس حجت اور برہان کا ذکر ہے وہ اقناعی ہے اور شرط اور جزاء کے درمیان لزوم عادی ہے عقلی اور قطعی نہیں جیسا کہ بولتے ہیں کہ وہ بادشاہ ایک اقلیم میں نہیں سما تے اور دو تلواریں ایک نیام میں نہیں سما سکتیں اور امام غزالی (رح) اور امام رازی (رح) اور دیگر حضرات متکلمین کی رائے یہ ہے کہ یہ برھان قطعی ہے حضرات اہل علم اس برہان کے قطعی یا اقناعی ہونے کی تفصیل کے لئے۔ اتحاف شرح احیاء العلوم از ص 127 جلد 2 تا ص 135 جلد 2 کی مراجعت کریں۔ حق جل شانہ نے اس دلیل کو اس آیت میں مختصرا اور مجملا ذکر فرمایا ہے امام فخر الدین رازی (رح) اور دیگر حضرات متکلمین نے جو اس دلیل کی تقریر فرمائی ہے ہم اس کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہدیہ ناظرین کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ آیت کریمہ کے چند الفاظ کے تحت علم اور استدلال کا دریا کیسا موجزن ہے۔ دلیل تمانع کی پہلی تقریر خداوند عالم ایک ہے کوئی اس کا شریک اور سہیم نہیں اس لیے کہ دو خداؤں کے وجود کا قائل ہونا محال کو مستلزم ہے اور جو چیز محال کو مستلزم ہو وہ خود محال ہے لہٰذا دو خداؤں کا وجود قطعا محال اور ناممکن ہے دلیل کا اصل یہ ہے کہ اگر دو خدا فرض کیئے جائیں اور دونوں صفات الوہیت کے ساتھ علی وجہ الکمال موصوف ہوں تو ضروری ہے۔ 1۔ کہ ہر ایک خدا قادر مطلق ہو اور اس کی قدرت تمام کائنات کو محیط ہو اور جملہ مقدورات پر قادر ہو کوئی ذرہ اس کی قدرت سے باہر نہ ہو اور اس کے سوا جو کچھ ہے سب اس کے قبضہ قدرت میں مسخر اور مقہور نہ ہو بلکہ اس کی قدرت غیر محدوف اور غیر متناہی ہو۔ 2۔ اور خدا کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہو۔ 3۔ اور سب سے اعلیٰ اور بالا اور برتر ہو یکتا اور بےمثال اور بےنظیر ہو۔ 4۔ اور غنی مطلق ہو یعنی جمیع ماسوا سے مستغنی اور بےنیاز ہو۔ 5۔ اور عجز اور لاچارگی اور مجبوری کے شائبہ سے بھی پاک اور منزہ ہو بغیر ان صفات کمالیہ کے خدائی ناممکن اور محال ہے ورنہ پھر بندوں نے کیا قصور کیا کہ وہ خدا نہ بن سکیں۔ پس اول تو یہ صفات الوہیت ہی وحدانیت کی دلیل ہیں اس لیے کہ سب سے اعلیٰ اور بالا اور سب سے برتر ہونا اور اور اس کی قدرت کا غیر متناہی ہونا اور کسی کا اس سے بڑھ کر نہ ہونا ایک ہی ذات میں منحصر ہے اگر کوئی دوسرا اس کے برابر کا ہوا تو یہ خدا سب سے اعلیٰ اور بالا نہ رہے گا اور جو دوسرا اس کے برابر کا ہوگا تو وہ اس کے قبضہ قدرت میں مسخر نہ ہوگا تو وہ پہلا خدا قاہر مطلق اور قادر مطلق نہ رہے گا اور اگر با ایں ہمہ پھر بھی کوئی تعدد الٰہیہ یعنی چند خداؤں کے وجود کا قائل ہوتا ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ اگر آسمان و زمین میں دو یا دو سے زیادہ خدا ہیں تو لامحالہ دونوں اسی شان کے ہوں گے جو خدا کے لیے ضروری ہے ورنہ خدا نہ ہونگے۔ تو اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عالم علوی اور عالم سفلی کی تخلیق اور اس کی تدبیر اور اس کا انتقام دونوں خداؤں کے کلی اتفاق سے چل رہا ہے یا کبھی کبھی اختلاف بھی پیش آجاتا ہے جو صورت بھی لی جائے محال لازم آئیگا۔ اتفاق کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ یہ عالم۔ دونوں خداؤں کی مجموعی قوتوں اور اجتماعی قوتوں اور اجتماعی قدرتوں سے پیدا ہوا ہے یا دوسری صورت اتفاق کی یہ ہے کہ دونوں خداؤں میں سے ہر خدا مستقلا اس عالم کا خالق اور موجد ہے پس اگر اتفاق کی پہلی صورت لی جائے اور یہ کہا جائے کہ یہ دونوں خداؤں کے اتفاق سے دونوں کی مجموعی قوتوں سے کارخانہ عالم کا کام چل رہا ہے تو اس صورت میں یہ محال لازم آئیگا کہ دونوں میں سے کوئی بھی مستقل خد نہ رہے گا بلکہ دونوں یا تینوں کا مجموعہ مل کر خدا ہوگا۔ علیحدہ علیحدہ کوئی بھی خدا نہ ہوگا بلکہ ایک کمیٹی مل کر خدا بنے گی اس لیے کہ اس صورت کا حاصل تو یہ ہوگا کہ ایک خدا سے کام نہیں چل سکتا تھا، اس لیے دونوں خداؤں نے مل کر عالم کا انتظام کیا پس جب کسی خدا کا بھی تنہا عالم کے انتقام پر قدرت نہ ہوئی بلکہ انتظام کے لیے دوسری قوت اور قدرت کی محتاج ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کی قدرت ناقص ہے اور جس کی قدرت ناقص ہو اور انتظام میں دوسری قوت کا محتاج ہو تو وہ خدا نہیں ہوسکتا مثلاً اگر دو قوتیں مل کر کسی پتھر کے لڑھکانے کا سبب بنیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص کی انفرادی قوت اس پتھر کے لڑھکانے کے لیے کافی نہیں بلکہ دونوں کے مجتمع ہونے کی ضرورت ہے تو ایسی صورت میں ہر ایک کی قوت نا تمام اور ناکافی ہوگی اور دوسری قوت کی محتاج ہوگی کہ اس کے ساتھ مل کر پتھر کو لڑھکاسکے۔ تو اگر دو خداؤں میں بھی یہی صورت فرض کی جائے تو لازم آئیگا کہ دونوں خداؤں میں سے کوئی بھی خدا نہ رہے اس لیے کہ ہر ایک قرار پائے گا تو اس صورت میں خدا کا مرکب ہونا لازم آئے گا اور خدا کا مرکب ہونا محال ہے کیونکہ جو چیز مرکب ہوتی ہے وہ حادث اور ممکن ہوتی ہے اور خدا کا واجب الوجود ہونا عقلا ضروری ہے۔ اتفاق کی دوسری صورت : اور وہ خداؤں میں اتفاق کی دوسری صورت یہ ہے کہ ہر خدا مستقل خدا ہے اور اپنی ایجاد اور تاثیر میں مستقل ہے اور دونوں یا تینوں خدا کسی ایک ارادہ پر سب متفق ہیں اور دونوں یا تینوں خداؤں کے ارادہ سے یہ عالم وجود میں آیا ہے اور ہر خدا کی قدرت اور تاثیر کو مستقلا اس کے وجود میں دخل ہے تیو یہ صورت بھی محال ہے اس لیے کہ اس صورت میں یہ خرابی لازم آئے گی کہ ایک مقدور پر دو مستقل قدرتیں طاری اور وارد ہوجائیں اور ایک شئے واحد۔ دو علتین مستقلتین کی معلول بن جائے اور عقلا یہ امر محال ہے کہ ایک شیء کی دو علتیں تامہ ہوں ایک علت تامہ کے بعد دوسری علت تامہ فالتو ہے اور ایک قدرت کاملہ کے بعد دوسری قدرت کاملہ بیکار ہے ایک مقدور کا دو مستقل قادروں سے وقوع اور حصول عقلا محال ہے اسی طرح سمجھو ایک عالم کی دو علت تامہ اور وہ خالق مستقل بالتاثیر نہیں ہوسکتے۔ جب ایک شئی ایک خالق مستقل کی ایجاد اور تاثیر سے وجود میں آگئی تو یہ امر محال ہے کہ اب وہی شئی بعینہٖ دوسرے خالق کی ایجاد اور تاثیر سے وجود میں آئے جو شئی ایک خدا کے ارادہ سے وجود میں آگئی اور آچکی تو دوسرا خدا اس کو کیسے موجود کرے گا موجود، کو موجود کرنا تحصیل حاصل ہے۔ ایجاد تو معدوم چیز کی ہوتی ہے۔ موجود کی ایجاد تحصیل حاصل ہے جو بلاشبہ محال ہے اور اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ یہ عالم دو یا تین خداؤں کی ایجاد اور تاثیر سے وجود میں آیا ہے اور ہر خدا اپنی ایجاد اور تاثیر میں مستقل ہے تو لازم آئے گا کہ عالم دو وجود کے ساتھ موصوف ہو کیونکہ ایجاد کے معنی وجود کے عطا کرنے کے ہیں۔ پس اگر یہ عالم دو خداؤں کی ایجاد سے وجود میں آیا ہے اور ہر خدا نے اپنے پاس سے اس کو وجود عطا کیا ہے تو لا محالہ اس عالم کے پاس دو وجود ہونے چاہییں حالانکہ ہم دیکھتے ہیں یہ عالم صرف ایک ہی وجود کے ساتھ موصوف اور موجود ہے اور یہ امر یعنی عالم کا ایک وجود کے ساتھ موجود ہونا بدیہی اور مسلم ہے۔ دنیا میں کوئی عاقل عالم کے لیے دو وجود یا تین وجود کا قائل نہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ اس عالم کو ایک ہی خدا کی طرف سے وجود عطا ہوا ہے اور اس کا موجد یعنی معطی وجود ایک خدا ہے ورنہ اگر اس کو دو خدا کی طرف سے وجود ملتا تو اس کے پاس دو وجود ہوتے مثلاً اگر کسی شخص کو دو آدمی علیحدہ علیحدہ ایک روپیہ دیں تو اس کے پاس دو روپے ہونے چاہئیں۔ عقلاً یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ ایک فقیر کو دو آدمیوں نے علیحدہ علیحدہ روپیہ دیا لیکن وہ دو روپے جب اس کی جیب میں پہنچے تو ایک روپیہ بن گئے۔ اسی طرح اگر اس عالم کے دو خالق اور دو موحجد ہوں اور ہر خالق اس کو وجود عطا کرتا تو اس کے پاس دو وجود ہوتے اور یہ عالم دو وجود کے ساتھ موصوف ہوتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عالم کی ہر چیز ایک ہی وجود کے ساتھ موصوف ہے اور ایک ہی وجود کے ساتھ موجود ہے، دو موجود کے ساتھ موجود نہیں آخر وہ دوسرے خدا کا عطاء کردہ وجود کہاں چلا گیا، لہٰذا معلوم ہوا کہ اس عالم کو ایک ہی خدا کی طرف سے وجود ملا ہے دو خداؤں کی طرف سے نہیں ملا۔ پس ثابت ہوگیا کہ اس عالم کا خالق اور موجد ایک ہی خدا ہے جس نے اس عالم کو وجود کا یہ خلعت عطا کیا ہے۔ اختلاف کی صورت اگر دو خداؤں میں تنازع اور تمانع یعنی اختلاف کی صورت فرض کریں کہ ان دو معبودوں میں کبھی کبھی اختلاف بھی ہوجاتا ہے تو لامحالہ اختلاف کی صورت میں دونوں میں مقابلہ ہوگا۔ ایک خدا کچھ چاہے گا اور دوسرا اس کے خلاف چاہے گا۔ ایک خدا کسی شئے کا ہونا چاہے گا اور دوسرا اس کا نہ ہونا چاہے گا تو یہ صورت خدائی میں رسہ کشی اور زور آزمائی کی ہوگی۔ دونوں طرف کے خداؤں میں مقابلہ ہے اور ہر ایک کی قدرت کامل ہے پس جب دو خداؤں میں اختلاف اور مقابلہ ہوگا تو عقلا تین ہی صورتیں ممکن ہیں۔ پہلی صورت : پہلی صورت یہ ہے کہ مقابلہ میں دونوں برابر ہوں اور دونوں کا چاہا پورا ہوجائے یعنی دونوں خداؤں کی مراد پوری ہو تو اس صورت میں اجتماع نقیضین لازم آئیگا اور یہ محال ہے اس لیے کہ ایک ہی وقت زید کا پیدا ہونا یا نہ پیدا ہونا یا ایک ہی وقت میں زید کا حرکت کرنا یا نہ کرنا پورا ہوجائے یہ تو اجتماع نقیضین ہے جو بالاتفاق عقلاً محال ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ وقت واحد میں زید زندہ بھی ہوجائے اور اسی وقت مر بھی جائے اور ایک ہی وقت میں زید متحرک بھی ہو اور ساکن بھی ہو۔ دوسری صورت : اور دوسری صورت یہ ہے کہ مقابلہ میں ایک خدا کا چاہا تو پورا ہوا۔ اور دوسرے خدا کا چاہا پورا نہ ہوا تو اس صورت میں ایک خدا تو اپنے ارادہ میں غالب آیا اور دوسرا مغلوب ہوا۔ سو جو مطلوب ہوا وہ خدا نہیں ہوسکتا اس لیے کہ جو مخلوب ہوا وہ عاجز ہوا۔ اور عاجز خدا اور واجب الوجود نہیں ہوسکتا۔ خدا وہ ہے کہ جو ظاہر اور غالب ہو لہٰذا اگر مقابلہ میں دو خداؤں میں سے ایک خدا کی مراد پوری ہوگی تو وہ تو قادر اور ظاہر ہوا اور جس خدا کی مراد پوری نہ ہوئی وہ عاجز اور مغلوب اور مقہور ٹھہرا بہرحال مقابلہ کی اس صورت میں خدا ایک رہا دوسرا خدا نہ رہا۔ تیسری صورت : اور دو خداؤں میں مقابلہ کی تیسری صورت یہ ہے کہ اختلاف اور تزاحم کی صورت میں کسی خدا کی بھی مراد پوری نہ ہو تو اس صورت میں اول تو ارتفاع نقیضین لازم آئیگا جو باتفاق عقلا محال ہے، دوم یہ کہ دونوں خداؤں میں سے کوئی خدا نہ رہے گا۔ اس لیے کہ دونوں اپنے ارادوں میں عاجز ہیں پس ثابت ہوا کہ دو یا چند معبود ماننے کی صورت میں محال لازم آتا ہے تو ثابت ہوگیا کہ عالم علوی اور سفلی سب کا خدا ایک ہی ہے اب بحمدہ تعالیٰ ہماری اس تقریر سے یہ شبہ دور ہوگیا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ آسمان و زمین میں کئی خدا ہوں اور سب باہم متعلق ہوں اور کارخانہ عالم سب کے اتفاق سے چل رہا ہو جیسا کہ جمہوری سلطنتوں میں ایسا ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں نظام عالم میں کوئی فساد لازم نہ آئیگا تو ہماری تقریر سے اس وسوسہ کا جواب ہوگیا الوہیت میں جمہوریت نہیں چلتی الوہیت میں یہ صورت ناممکن اور محال ہے کہ ایک ہی چیز پر دو مستقل اور کامل قدرتیں جمع ہوں اور یہ کہا جائے کہ یہ چیز دو قدرتوں کے مجوعہ سے وجود میں آتی ہے اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ایک خدا کی انفرادی قدرت اس شئے کے وجود کے لیے کافی نہیں۔ جب تک دونوں قدرتیں جمع نہ ہوجائیں، اس وقت تک یہ شئے موجود نہیں ہوسکتی اور جب کسی شئے کے وجود کے لیے دو خدا کی قدرتوں کا جمع ہونا ضروری ہوا تو اس کیا مطلب تو یہ نکلا کہ ہر خدا کی قدرت الگ الگ ناقص اور نا تمام ہے اور تنہا ایک خدا اس چیز کے پیدا کرنے پر قادر نہیں تو پھر دونوں میں سے کوئی بھی خدا نہ رہا بلکہ دونوں کا مجموعہ مل کر خدا ہوا اور اگر یہ کہو کہ ایک خدا کی قدرت اس چیز کے موجود کرنے کے لئے کافی ہے تو اس صورت میں دوسرے خدا کی قدرت بےکار ہوجائے گی اور دوسرا خدا خدا نہ رہے گا، اس لیے کہ وہ خدا ہی کیا ہوا کہ جس کی قدرت کے بغیر کوئی چیز پیدا ہوسکے، یہ بارگاہ الوہیت ہے کوئی کارخانہ صنعت و حرفت تو نہیں کہ جو دو آدمیوں کی شرکت سے چل سکے۔ بہرحال اگر دو قادر مطلق کسی ارادہ پر متفق بھی ہوجائیں تو اس اتفاق میں وہ مجبور نہیں اور نہ ان پر یہ امر واجب اور لازم ہے کہ وہ آپس میں ضرور متعلق رہیں ورنہ ہر ایک کا عاجز اور مجبور ہونا لازم آئیگا اور کوئی بھی خدا نہ رہے گا۔ ایک خدا پر دوسرے خدا کی موافقت واجب نہیں وہ اگر چاہے تو دوسرے کے خلاف بھی کرسکتا ہے۔ ایک خدا دوسرے خدا کے ساتھ اتفاق کرنے پر مجبور نہیں، اگر وہ اس اتفاق پر مجبور ہوجائے تو اس کا فعل اضطراری ہوگا نہ کہ اختیاری حالانکہ قدرت میں اختیار شرط ہے خدا وہ ہے جو قادر مطلق ہو اور کسی امر پر مجبور نہ ہو اور ظاہر ہے کہ اختلاف کی صورت میں ایک ہی خدا رہ سکتا ہے دوسرا خدا نہیں رہ سکتا اور اگر بفرض محال تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ عقلاً یہ جائز ہے کہ دو خداؤں میں اختلاف نہ ہو تو لا محالہ اس کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ ایک خدا دوسرے خدا سے کہے کہ تو وہی ارادہ کہ جو میں کرتا ہوں خلاف ارادہ نہ کرنا تو اس صورت میں دوسرا خدا پہلے خدا کی طرف سے مامور ہوگیا اور مامور ہوگیا اور مامور اور محکوم خدا نہیں ہوسکتا۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک خدا دوسرے خدا کے خلاد ارادہ کرنے پر قادر ہی نہ ہو تو یہ عجز اور مجبوری ہے اور عاجز اور مجبور خدا نہیں ہوسکتا۔ یا دونوں خداؤں میں سے کوئی خدا بھی دوسرے کے خلاف ارادہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اس صورت میں دونوں کا عاجز ہونا لازم آئیگا اور دونوں میں سے کوئی بھی خدا نہ رہے گا (دیکھو کتاب الانصاف للامام الباقلانی ص 34) برہان تمانع کی دوسری تقریر قاضی بیضاوی (رح) نے تمانع کی تقریر اور تعبیر اس طرح فرمائی ہے کہ اگر آسمان و زمین میں چند خدا ہوں تو وہ حال سے خالی نہیں کہ وہ یا تو باہم متفق ہونگے یا باہم مختلف ہونگے۔ پہلی صورت : یعنی اگر وہ چند خدا باہم متفق ہوں تو لازم آئے گا کہ ایک ہی چیز پر متعدد قدرتیں جمع ہوجائیں اور ایک شئے دو قدرتوں سے وجود میں آئے اور عقلاً یہ بات محال ہے کہ ایک شئے چند مستقل قدرتوں سے وجود میں آئے اور چند کامل اور مستقل مؤثروں کا ایک ہی اثر ہو اس لئے جب ایک مستقل قدرت اس شئے کے وجود کے لیے کافی ہے تو دوسری اور تیسری مستقل قدرت بیکار ہے پس مثلاً اگر دو خدا ہوں اور دونوں کی قدرت مستقل بالتاثیر ہو اور حدوث عالم کے لیے ہر خدا کی قدرت کافی ہو تو پھر یہ کہنا کہ وہ عالم دو خداؤں کی دو مستقل اور کامل قدرتوں سے موجود اور حادث ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک معلول دو مستقل علتوں سے اور ایک مقدور دو مستقل قدرتوں سے وجود میں آیا ہے اور یہ امر بلاشبہ بالکل باطل اور مہمل ہے اس لیے کہ ایک معلول پر دو علتوں کا تو ارد باتفاق عقلا محال ہے۔ ایک شئے کی دو علت تامہ نہیں ہوسکتی کیونکہ علت تامہ کے معنی یہ ہیں کہ اس کے پائے جانے کے بعد فوراً بلا کسی انتظار کے معلول وجود میں آجائے پس جب معلول ایک علت تامہ اور قدرت کاملہ سے وجود میں آگیا تو دوسری علت اور قدرت بیکار ہوئی اور جو چیز بیکار ہے وہ علت تامہ نہیں ہوسکتی۔ پس معلوم ہوا کہ حدوث عالم کے لیے ایک خداوند قدیر کا ارادہ کافی ہے اور دوسرے خدا کا ارادہ بیکار ہے اور جو بیکار ہے وہ خدا نہیں ہوسکتا۔ حضرات اہل علم اگر منطقی پیرایہ میں اس کی تعبیر کرنا چاہیں تو اس طرح کرلیں کہ خداوند قدوس (یعنی اس کا ارادہ) حدوث عالم کی علت تامہ ہے اور علت تامہ متعدد نہیں ہوسکتی پس ثابت ہوا کہ خدا متعدد نہیں ہوسکتے۔ بالفاظ دیگر دلیل کے لیے ایک صغری چاہئے اور ایک کبری اور پھر نتیجہ صغری تو یہ ہے کہ خداوند قدوس (یعنی اس کا ارادہ) حدوث عالم کی علت تامہ ہے اور کبریٰ یہ ہے کہ علت تامہ ہمیشہ ایک ہی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خدائے برحق ایک ہی ہوسکتا ہے۔ دوسری صورت : یہ ہے کہ دو خدا باہم مختلف ہوں پس اگر چند خدا ہوں اور ان میں باہم اختلاف ہو تو نظام عالم درہم برہم ہوئے گا (جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے) اور اگر تخلیق وتکوین عالم سے پہلے ہی دو خداؤں کے ارادوں میں اختلاف ہوجائے تو سرے سے عالم کا وجود میں آنا ہی ناممکن ہوجائے اور یہ دونوں باتیں بالکل باطل ہیں نظام عالم باحن وجوہ موجود ہے تو معلوم ہوا کہ تعدد الہہ (یعنی چند خداؤں کا وجود) باطل اور محال ہے اور ظاہر ہے کہ جب چند خداؤں میں اختلاف ہوگا تو لامحالہ ایک کا اپنے ارادہ میں عاجز اور ناکام ہونا لازم آئے گا اور عجز اور ناکامی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ یہ تمام کلام۔ قاضی بیضاوی (رح) کی شرح اور تفصیل ہے حضرات اہل علم حاشیہ شہاب خفاجی علی تفسیر البیضاوی ص 248 ج 6 اور حاشیہ ابن التجید اور حاشیہ تتوی علی التفسیر البیضاوی ص 212 ج 5 دیکھیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ چند معبودوں کا ہونا عقلا محال ہے اس لیے کہ چند معبود اگرچہ واجب الوجود ہونے میں شریک ہونگے لیکن صفات اور افعال کے اعتبار سے لامحالہ ایک دوسرے سے مختلف اور جدا اور ممتاز ہونگے کیونکہ تعدد اور اثنینیت کے لیے باہم تمایز ضروری ہے ورنہ پھر دو ، دو نہ رہیں گے بلکہ ایک ہوجائیں گے اور جب چند معبود صفات اور افعال میں ارادہ اور ختیار میں مختلف ہونگے اور اس باہمی تنازع اور تخالف کی وجہ سے یا تو عالم سرے سے وجود ہی میں نہ آئیگا یا اس کا نظام درہم برہم ہوجائیگا کیونکہ دو قادر مطلق کا ہر فعل اور ہر ارادہ میں اور ہر مصنوع اور مخلوق میں بالکل متفق ہونا اور کسی قسم کا دونوں میں اختلاف نہ ہونا عقلاً محال ہے۔ اور دو فرمانروا اور ارکان دولت بعض مرتبہ انتظامی امور میں اتفاق کرتے ہیں سو وہ انکا اتفاق۔ اختلاف سے بچنے کے لیے ہوتا ہے اور بدرجہ مجبوری ہوتا ہے کہ وقتی ضرورت ان کو اتفاق پر مجبور کردیتی ہے جس سے ان کا عجز ثابت ہوتا ہے گویا بالفاظ دیگر اپنے عجز پر پردہ ڈالنے کے لیے بنا بر مصلحت آپس میں سمجھوتہ کرلیتے ہیں کہ دونوں کی عزت اور آبرو اس اتفاق میں ہے۔ سو یہ امر بارگاہ الوہیت میں ناممکن اور محال ہے، مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ممبروں میں ایسا اتفاق میں ہے۔ سو یہ امر بارگاہ الوہیت میں ناممکن اور محال ہے، مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ممبروں میں ایسا اتفاق ممکن ہے مگر دو خداؤں میں ایسا اتفاق بلاشبہ مجال ہے کہ ضرورت اور مصلحت کی بناء پر موافقت دونوں کے عاجز اور مضطر ہونے کی دلیل ہے اور خدا اس سے پاک اور منزہ ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ جل شانہ کا یہ ارشاد لو کان فیہما الہۃ الا اللہ لفسدتا ایسا ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد وارد ہوا ہے وما کان معہ من الہ اذا لذھب کل الہ بما خلق ولعلا بعضھم علیٰ بعض۔ ( سورة مؤمون) ان دونوں آیتوں کا مضمون ایک ہے اور اسی طرح ایک تیسری آیت اذا لابتغوا الی ذی العرش سبیلا۔ کا مضمون بھی تقریبا یہی ہے اس لیے بمناسبت مقام مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سورة مومن ون کی آیت میں جس دلیل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مختصرا اس کی بھی تقریر کردی جائے۔ قال اللہ تعالیٰ وما کان معہ من الہ اذا لذھب کل الہ بما خلق ولعلا بعضھم علی بعض۔ یہ سورة مومن ون کی آیت ہے حق جل شانہ نے اس آیت میں توحید کی دو دلیلیں بیان فرمائیں (اول) تو یہ وما کان معہ من الہ اذا لذھب کل الہ بما خلق۔ یعنی اگر خدا تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا خدا ہوتا تو لامحالہ ہر خدا کی مخلوق دوسرے خدا کی مخلوق سے جدا ہوتی کیونکہ جب صانع دو ہیں اور الگ الگ ہیں تو ان کی صنعت اور کاریگری بھی علیحدہ علیحدہ ہونی چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ یہ کس خدا کی مخلوق ہے دوسری دلیل یہ ہے ولعلا بعضہم علی بعض۔ یعنی اگر کئی خدا ہوتے تو ایک دوسرے پر چڑھائی کر بیٹھتا، کیوں کہ خدائی تو کمال کبریائی اور کمال علو اور قہر اور غلبہ اور استقلال کو مقتضی ہے، دو خداؤں میں صلح کا کوئی امکان نہیں۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سارا عالم متحد ہے اور ایک دوسرے سے مربوط ہے اور ایک خالق کی مخلوق دوسرے خالق کی مخلوق سے جدا اور ممتاز نہیں کہ دیکھ کر کہا جاسکتا کہ یہ چیز فلانے خدا کی پیدا کی ہوئی ہے اور یہ چیز فلانے خدا کی۔ جیسے کسی چیز پر کارخانہ کی مہر دیکھ کر معلوم کرلیتے ہیں کہ یہ چیز فلانے کارخانہ کی بنی ہوئی ہے۔ پس جب خالق دو ہیں تو ان کی مخلوق بھی الگ الگ ہونی چاہئے جب فاعل دو ہیں تو ان کے مفعول بھی جدا جدا ہونے چاہئیں اور ہر مخلوق پر کوئی علامت اور نشان ہونا چاہئے جس سے معلوم ہوجائے کہ یہ فلاں کی مخلوق ہے۔ توحید کی ایک دلیل تو یہ ہوئی اور دوسری دلیل یہ ہے ولعلا بعضھم علی بعض یعنی جب خدا دو ہوں گے اور دونوں قادر مطلق اور قاہر مطلق ہونگے تو لامحالہ ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے۔ پس جو مقابلہ میں غالب آجائے گا وہی خدا ہوگا اور اگر مقابلہ میں دونوں برابر رہے تو تب کوئی بھی خدا نہ رہے گا اس لیے کہ برابر سرابر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک خدا دوسرے خدا کا پورا مقابلہ نہیں کرسکا جو دلیل ہے کمزوری اور لاچاری کی اور کمزوری اور مجبوری اور لاچاری خدائی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ (دیکھو منہاج السنۃ لابن تیمیہ (رح) ص 68 از جلد 2 ص 73 جلد 2) توحید اور اسلام مذہب اسلام کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ اس کی بنیاد دلائل عقلیہ اور فطریہ پر قائم ہے۔ اسلام کے اصول مسلمہ میں ایک اصل توحید ہے جو اسلام کی اصل اول اور رکن رکین ہے اور دوسری اصل نبوت و رسالت ہے اور تیسری اصل قیامت و آخرت ہے اسلام کے دیگر اصول کی طرح۔ توحید بھی بیشمار دلائل عقلیہ سے ثابت ہے جن میں ذرہ برابر شک اور شبہ کی گنجائش نہیں۔ اسلام نے جس قسم کی توحید پیش کی ہے اہل اسلام جس قدر بھی اس پر فخر کریں اور شکر کریں سب بجا اور۔۔۔۔ ہے اجمالی طور پر اگرچہ ہر مذہب میں توحید کا اقرار پایا جاتا ہے مگر وہ شرک کی نجاستوں سے آلودہ ہے۔ عیسائی تین خدا مانتے ہیں اس گروہ کے نزدیک خدائی مثلث ہے اور مجوس دو خدا کے قائل ہیں۔ آدھی مخلوق ایک خدا کی اور آدھی ایک خدا کی گویا کہ ہر خدا میں نصفا نصف خدائی کی کمی رہی۔ اور ہندوکم از کم تین خدا کے قائل ہیں۔ برھما، بشن، مہادیو، اوتاروں کی تو کوئی انتہا نہیں جو ان کے نزدیک اوصاف خداوندی کے ساتھ موصوف ہیں۔ توحید کا مل اسلام نے پیش کی کہ جس طرح خدا کی ذات میں کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کی صفات میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں۔ قرآن اور حدیث دلائل توحید سے بھرا پڑا ہے منجملہ بیشمار دلائل توحید کے ایک دلیل تمانع بھی ہے جو آیت مذکورہ بالا یعنی لوکان فیہا الہۃ الا اللہ لفسدتا میں مذکور ہے اور جس کی تقریر ناظرین کے سامنے آچکی ہے امید ہے کہ ناظرین کو قرآن کی اس برہان کی معقولیت اور قطعیت کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ اب میں نصاریٰ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا تین ہیں ایک باپ یعنی خدا تعالیٰ ، دوسرا بیٹا یعنی مسیح علیہ السلام، تیسرا روح القدس اور یہ تینوں آپ کے نزدیک غیر مخلوق اور ازلی اور ابدی اور قادر مطلق ہیں۔ (دیکھو دعائے عمیم) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آپ کے نزدیک خدائے مجسم ہیں (پس مشرق و مغرب کے پادریوں سے میرا سوال یہ ہے) کہ کیا آپ اپنے اس عقیدہ تثلیث پر کوئی عقلی دلیل دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ آپ حضرات یہ کہتے ہیں کہ خدا تین ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تینوں ایک ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ تین ایک میں اور ایک تین میں۔ ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین۔ اے پادریو ! اگر تم دعوائے تثلیث میں سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔ انشاء اللہ تعالیٰ قسم ہے خدائے وحدہ لاشریک کی کہ نہیں لاسکتے۔ نہیں لاسکتے۔ نہیں لاسکتے۔ اور علیٰ ہذا اگر ہندوستان کے سارے ہلومان اور بھارت کے سارے پنڈت جمع ہوجائیں تو وہ اپنے عقیدہ پر کوئی عقلی دلیل نہیں لاسکتے۔ یہ مذہب اسلام کا طغرائے امتیاز ہے کہ وہ اپنے مسائل کو عقل اور فطری دلائل سے ثابت کرتا ہے۔ دلیل توحید توحید کی یہ روشن دلیل جو اس آیت میں ذکر کی گئی اور جو برہان تمانع کے نام سے مشہور ہے وہ ناظرین کرام نے پڑھ لی اب ہم مزید اطمینان اور مزید عرفان کے لیے اور چند دلائل توحید ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ دلیل (1): امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ خداوند ذوالجلال واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، یعنی کوئی اس کے ہم پلہ اور ہم رتبہ نہیں۔ چناچہ آفتاب کو اس معنی کر واحد کہہ سکتے ہیں۔ کہ وہ روشنی میں یکتا ہے اور جو چیز کسی کمال میں یکتا ہو اس پر واحد کا لفظ بولا کا سکتا ہے دلیل (2): اسی طرح جب خدا کو واحد کہا جائے تو اس کے یہ معنی ہونگے کہ وہ صفات کمال اور سمات جلال و جمال میں یکتا ہے کوئی دوسری چیز اس کے ساتھ شریک نہیں۔ پس اگر اس کا کوئی شریک ہو تو تین احتمال ہیں۔ (1) یا تو وہ جملہ صفات کمال اور بالا اور برتر ہوگا۔ (2) یا اس سے اس کا مساوی یعنی اس کے برابر اور ہمسر اور اس کا ہم پلہ ہوگا۔ (2) یا اس سے اعلیٰ اور بالا اور برتر ہوگا۔ (3) یا اس سے کم ہوگا اور تینوں باتیں باطل ہیں پہلی شق تو اس لیے باطل ہے کہ جن دو چیزوں پر لفظ دو کا بولا جائے ان کا باہم متغایر ہونا ضروری ہے ورنہ دو کہنا جائز نہ ہوگا کیونکہ تغایر کے لیے باہمی تمایز ضروری ہے۔ پس خدا کا شریک تمام صفات اور سمات میں من کل الوجوہ یعنی ہر اعتبار اور ہر لحاظ سے خدا کے مماثل اور مساوی اور برابر ہوا تو دونوں میں امتیاز کیسے ہوگا۔ اور بغیر اکتیاز کے تغایر ممکن نہیں لہٰذا دوسرے کو خدا کہنا غلط ہوگا۔ اور جب اثنینیت (دوئی) ختم ہوئی تو وحدت اور وحدانیت لازم آگئی اور دوسری شق اس لیے باطل ہے کہ خدا کا شریک خدا سے اس لیے اعلیٰ نہیں ہوسکتا کہ خدا اسی کو کہا جاتا ہے کہ جو جملہ کمالات میں اپنے کل ماسوا سے فائق اور اعلیٰ اور بالا ہو۔ کسی صفت میں بھی کسی موجود سے بھی کم یا اس کے مساوی نہ ہو پس جس کا نام آپ خدا کا شریک رکھتے ہیں حقیقت میں خدا وہی ہے جس کو آپ خدا بتاتے ہیں وہ خدا نہیں اس لیے کہ اس پر خدا کی تعریف صادق نہیں آتی، دونوں میں جو اعلیٰ اور بالا اور برتر ہوگا وہی خدا ہوگا اور جو کمتر اور ناقص ہوگا وہ خدا نہیں ہوگا اور تیسری شق اس لیے باطل ہے کہ جو شریک اس سے کم ہوگا وہ اس کا شریک نہیں کہا سکتا تو اس صورت میں خدا ایک ہی رہے گا۔ (دیکھو کتاب الاقتصاد للامام الغزالی (رح)) دلیل (3) : امام شہرستانی (رح) دلیل تمانع کی تقریر کے بعد فرماتے ہیں۔ نیز اگر دو خدا ہونگے تو لامحالہ دونوں برابر کے ہونگے اور ہر ایک دوسرے سے من کل الوجوہ یعنی ہر اعتبار سے مستغنی اور بےنیاز ہوگا تو دونوں میں سے کوئی بھی خدا نہ ہوگا اس لیے کہ خدا وہ ہے کہ جو سب سے بےنیاز ہو اور اس کے سوا کوئی بھی اس سے بےنیاز نہ ہو بلکہ سب اس کے محتاج ہوں گے۔ کام قال تعالیٰ واللہ الغنی وانتم الفقراء۔ نیز اگر دو خدا فرض کئے جائیں تو وہ دونوں یا تو صفات ذاتیہ میں متفق اور متحد ہوں گے یا مختلف ہوں گے اگر متفق ہوئے تو دونوں میں امتیاز اور باہمی فرق کیسے ہوگا اور اگر مختلف ہوئے تو جو خدا صفات کمال کے ساتھ متصف ہوگا تو وہ خدا نہ ہوگا اس لیے کہ جب ایک خدا تو کمال قدرت کے ساتھ موصوف ہوا تو دوسرا خدا جو اس کے مخالف ہے وہ لامحالہ کمال علم اور کمال قدرت سے جاری ہوگا تو وہ خدا کیسے ہوگا۔ دلیل (4): نیز ایک خدا کا وجود تو دلائل عقلیہ قطعیہ سے ثابت ہے اور دوسرے خدا کا وجود محض فرض ذہنی اور احتمال عقلی کے درجہ میں ہے جس پر کوئی دلیل نہیں اور جو چیز فرض ذہنی کے درجہ میں ہو وہ خدا نہیں ہوسکتی۔ (دیکھو نہایہ الاقدام از ص 90 تا ص 100) دلیل (5): نیز تمام ممکنات وجود سے قبل حالت عدم میں تھیں پس اگر دو خدا اور دو خالق مانے جائیں تو یہ بتلایا جائے کہ کون سے خدا نے اس ممکن کے وجود کو اس کے عدم پر ترجیح دی ایک صانع اور خالق اور ایک واجب الوجود کا وجود ماننا تو لازمی ہے کہ جس نے ممکن کو وجود عطا کیا اب دوسرے خدا واجب الوجود کے اثبات کے لیے کوئی دلیل چاہئے اس لیے کہ ترجیح بلا مرجح عقلا محال ہے۔ دلیل (6): نیز اثبات صانع کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے افعال و آثار قدرت سے استدلال کیا جائے پس اگر وہ خدائے برحق مانے جائیں تو ہر خدا کے لیے علیحدہ علیحدہ دلیل چاہئے کہ یہ کہا جاسکے کہ یہ نشانات قدرت و صنعت فلاں صانع کے وجود کی دلیل ہیں اور یہ نشانات قدرت فلاں صانع کے وجود کی دلیل ہیں۔ (نہایۃ الاقدام ص 93) دلیل (7): نیز عقلا یہ امر ممکن نہیں کہ یہ کہا جائے کہ دو خداؤں میں سے بعض چیزوں کو ایک خدا نے پیدا کیا اور بعض چیزوں کو دوسرے خدا نے پیدا کیا کیونکہ اس صورت میں دونوں کا ناقص ہونا لازم آئے گا کہ خدائی دونوں کے درمیان میں نصفا نصف ہے آدھے کا یہ مالک ہے اور آدھے کا دوسا مالک ہے پوری ملکیت اور پوری مالکیت کسی کو بھی حاصل نہیں اور اگر بالفرض ساری خدائی ایک ہی خدا کو دی جائے تو اس کی ملکیت اور مالکیت میں زیادتی اور اضافہ ہوجائیگا اور ظاہر ہے کہ کمی اور زیادتی مخلوق کی ملکیت میں ہوتی ہے۔ خدا کی مالکیت توازل سے ابد تک کامل ہی رہتی ہے۔ اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی۔ دلیل (8): نیز اگر ایجاد عالم کے لیے ایک خدا کافی نہیں تو پھر دو اور تین بھی کافی نہیں ہوں گے حسب ضرورت خداؤں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ یہاں تک توحید کی آٹھ دلیلیں ہوئیں اور ان کے علاوہ ایک دلیل۔ دلیل تمانع تھی جس کا ذکر آیت مذکورہ میں تھا اور ایک دلیل سورة مومنون کی آیت تھی جس کی مختصر تقریر اور تفسیر ہم نے بیان کی یعنی آیت وما کان معہ من الہ اذا لذھب کل الہ بما خلق ولعلا بعضھم علی بعض۔ اس طرح یہاں تک توحید کی دس دلیلوں کا بیان ہوگیا فتلک عشرۃ کاملۃ۔ امام رازی قدس اللہ سرہ نے اس آیت یعنی لو کان فیہما الہۃ الا اللہ لفسدنا کی تفسیر میں توحید کی چودہ دلیلیں عقلی ذکر کی ہیں اور نقلی دلائل اس کے علاوہ ہیں حضرات اہل علم اصل تفسیر کی مراجعت کریں۔ (تفسیر کبیر ص 105 ج 6 ص 108 ج 6) اور اس ناچیز نے اپنی تالیف مسمی بہ علم الکلام میں توحید باری تعالیٰ کی دس عقلی دلیلیں ذکر کی ہیں وہاں دیکھ لی جائیں۔ ایں سخن رانیست ہرگز اختتام ختم کن واللہ اعلم بالسلام فائدہ علمیہ و نحویہ متعلقہ بہ آیت لو کان فیہما الہۃ الا اللہ لفسدنا۔ بحمدہ تعالیٰ برہان توحید کی تقریر ایسی صاف اور واضح کردی گئی کہ جو اہل اسلام کی تسلی اور تشفی کے لیے کافی ہے اب ہم خالص اہل علم کے لیے ایک علمی اور نحوی فائدہ ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ آیت ہذا یعنی لوکان فیہما الہۃ الا اللہ۔ میں جو لفظ الا واقع ہے یہ عام طور پر استثناء کے لیے آتا ہے اور گاہ بگاہ بمعنی غیر بھی آتا ہے جو درحقیقت معنی و صفی کے لیے وضع ہوا ہے۔ سو سیبویہ اور کسائی اور اخفش اور زجاج اور جمہور ائمہ نحویہ کہتے ہیں کہ کلمہ الا اس آیت میں استثناء کے لیے نہیں بلکہ بمعنی غیر ہے جو اللہ کی صفت ہے اور اسی وجہ سے لفظ باعتبار اعراب کے مرفوع ہے نہ کہ منصوب کیونکہ یہ صفت ہے مرفوع کی لہٰذا یہ بھی مرفوع ہوگا اگر بجائے لفظ الا کے لفظ غیر ہوتا تو وہ بلاشبہ مرفوع ہوتا تو لفظ غیر کا اعراب الا کے بعد والے کلمہ پر جاری ہوا جیسا کہ کسی شاعر کا قول ہے۔ و کل اخ مفارقہ اخوہ لعمر ابیک الا الفرقدان یعنی قسم ہے تیرے باپ کی عمر کی۔ ہر بھائی سوائے فرقدین کے اپنے بھائی سے جدا ہونے ولا ہے ” فرقدان “ دو ستاروں کا نام ہے جو قطب کے قریب ہیں۔ سو اس شعر میں الا بمعنی غیر ہے جو کل اخ کی صفت ہے جو اسی وجہ سے مرفوع ہے یعنی فرقدان آیا ہے اور اگر استثناء کے لیے ہوتا تو الا الفرقدین منصوب ہوتا۔ اسی طرح آیت میں لفظ الا اگر استثناء کے لیے ہوتا تو لفظ اللہ منصوب ہوتا مگر آیت میں بجائے نصب کے رفع آیا ہے اور آیت میں لفظ الا کو استثناء کے لیے لینا اور لفظ اللہ کو منصوب پڑھنا دو وجہ سے ناجائز ہے ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس آیت میں معنوی فساد لازم آتا ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ لو جاء فی القوم الا زیدا لقتلتہم۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر قوم میرے پاس ایسی حالت میں آتی کہ زیدان سے مستثنیٰ ہوتا تو میں ساری قوم کو قتل کردیتا جس کا بطور مفہوم یہ مطلب ہے کہ اگر زید قوم کے ہمراہ ہوتا تو پھر میں قوم کو قتل نہ کرتا اسی طرح اگر آیت ہذا میں لفظ الا استثناء کیلئے ہوتا اور لفظ اللہ منصوب ہوتا تو آیت کے یہ معنی ہوتے کہ اگر آسمان و زمین میں ایسے چند خدا جن سے اللہ مستثنیٰ ہوتا تو دونوں خراب ہوجاتے تو اس سے بطریق مفہوم یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر آسمان و زمین میں ایسے چند خدا ہوتے کہ اللہ بھی ان کے ساتھ ہوتا تو آسمان و زمین خراب نہ ہوتے، کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ استثناء اس حکم کی قید ہوتا ہے جو مستثنیٰ سے متعلق ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ تعد دالٰہ کی صورت میں فساد عالم کا حکم اس قید کے ساتھ مقید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان الہہ سے مستثنیٰ اور خارج ہو ورنہ نہیں۔ حالانکہ یہ معنی باطل اور غلط ہیں اس لیے کہ تعدد الہہ کی صورت میں آسمان و زمین کا فساد ہر حال میں لازم ہے خواہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو یا نہ ہو تعدد الہہ کی صورت میں فساد عالم لازم ہے خواہ اللہ تعالیٰ ان میں داخل ہو یا ان سے خارج یا مستثنیٰ ہو اور اگر لفظ الا معنی غیر لیا جائے تو پھر یہ خرابی لازم نہ آئے گی اور یہ ہوگا کہ اگر اللہ کے سوا آسمان اور زمین میں چند خدا ہوتے تو آسمان و زمین دونوں تباہ و برباد ہوجاتے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ الھۃ نکرہ ہے اور جمع جب نکرہ ہو تو محققین کے نزدیک اس سے استثناء جائز نہیں اس لیے کہ جمع منکر میں ایسا عموم نہیں کہ اگر استثناء نہ ہو تو مستثنیٰ اس میں داخل ہوجائے، یہ فائدہ علمیہ ہم نے خاص مدرسین تفسیر کے لیے لکھ دیا ہے عام ناظرین کو اس کی ضرورت نہیں۔ حضرات اہل علم حاشیہ شیخ زادہ علی تفسیر البیضاوی ص 345 ج 3 دیکھیں۔ اور یہی مضمون البحر المحیط لابی حیان ص 305 میں ہے جس میں استثناء کے علاوہ بدلیت پر بھی کلام کیا ہے حضرات مدرسین اس کی مراجعت کریں۔ حق جل شانہ نے گزشتہ آیت میں توحید کی ایک عقلی اور قطعی دلیل بیان فرمائی۔ اب آئندہ آیت میں اپنی تسبیح و تنزیہ کو بیان فرماتے ہیں کہ وہ خدائے وحدہ لاشریک لہ تو شرک کے شائبہ اور واہمہ سے بھی پاک اور منزہ ہے۔ پس اللہ جو عرش کا مالک ہے وہ ان باتوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرک اس کی شان میں کہتے ہیں یعنی نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ وہ اولاد رکھتا ہے اس کی عظمت و جلال اور کبریائی کہ تو یہ شان ہے کہ اس کے کسی کام کے متعلق بطور باز پرس یا بطور احتجاج سوال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا وہ مالک مطلق اور حاکم مطلق ہے وہ جو کرے حق ہے اس سے پوچھا نہیں جاسکتا۔ غلام کی مجال نہیں کہ وہ اپنے مالک سے باز پرس کرسکے اور بندے سب پوچھے جاتے ہیں۔ سب اس کے مخلوق اور مملوک بندے ہیں، قیامت کے دن بندوں سے سوال ہوگا کہ یہ کیوں کیا اور وہ کیوں کیا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزاء سزا ملے گی، کیونکہ سب اس کے مملوک اور بندے ہیں سب پر مالک اور آقا کے حکم کی بجا آوری فرض اور لازم ہے اور جس سے سوال اور باز پرس ہو سکے وہ خدا نہیں ہوسکتا۔ قال اللہ تعالیٰ فو ربک لنسیلنھم اجمعین عما کانوا یعملون۔ پس جب کوئی اس کی عظمت میں شریک نہیں تو پھر الوہیت اور معبودیت میں کون اس کا شریک ہوسکتا ہے کیا خدا کی اس بےمثال عظمت و جلال معلوم کرلینے کے بعد بھی ان لوگوں نے اللہ کئے سوا ایسے معبود ٹھہرائے ہیں جو اس کی مخلوق ہیں اور اس سے کمتر ہیں۔ یہ ان کی صریح غلطی ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اگر بالفرض ہوتا تو یہ عالم کبھی کا تباہ اور برباد ہوجاتا اور اس کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ آپ ﷺ ان منکرین توحید سے کہہ دیجئے کہ اچھا تم اپنی دلیل لاؤ کہ خدا کے سوا اور بھی خدا ہوسکتے ہیں۔ ہم نے توحید کو دلیل عقلی سے تو پہلی آیت لو کان فیہما الہۃ الا اللہ لفسدتا۔ میں ثابت کردیا رہی دلیل نقلی تو وہ یہ ہے کہ یہی بات یعنی توحید میرے ساتھ والوں کی ہے اور یہی بات ہے مجھ سے پچھلے والوں کی کہ اس رب العرش کے سوا کوئی رب نہیں یعنی قرآن اور توریت اور انجیل اور دیگر صحف انبیاء سب اس پر شاہد ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے کسی کتاب میں اللہ کا شریک ہونا نہیں ملتا۔ ہر کتاب میں توحید کا حکم اور شرک کی ممانعت موجود ہے پھر تم نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا یا خدا کا بیٹا کیسے بنا لیا پھر ان میں اکثر آدمی حق اور باطل میں تمیز نہیں کرتے۔ پس اس لیے وہ حق سے روگرداں اور منہ موڑے ہوئے ہیں اور اے نبی ﷺ ان کو یہ معلوم نہیں کہ ہم نے آپ ﷺ سے پہلے دنیا میں کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہی وحی بھیجتے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی عبادت اور بندگی کرو۔ مطلب یہ کہ توحید تمام شریعتوں کا متفق علیہ مسئلہ ہے اور ان نادانوں میں سے بعض نے یہ بھی کہا کہ رحمن نے اپنے لیے اولاد نبائی ہے کون کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیز (علیہ السلام) خدا تعالیٰ کے فرزند ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں سب غلط ہے اللہ اس بات سے پاک اور منزہ ہے بلکہ جن کے حق میں ان کا یہ گمان ہے وہ سب اللہ کے معزز اور محترم بندے ہیں جن کو اللہ نے عزت و کرامت بخشی مسلسل لیل و نہار ان کی عبادت اور ہر لمحہ و لحظہ ان کی تسبیح و تقدیس اس کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں معاذ اللہ اس کی اولاد نہیں۔ اور ایک دلیل ان کی عبدیت کی یہ ہے کہ وہ آداب عبودیت میں اس درجہ غرق ہیں کہ کسی بات میں اللہ پر سبقت نہیں کرتے۔ یعنی بغیر اس کی اجازت کے کوئی حرف زبان سے نہیں نکالتے اس کے حکم کے منتظر رہتے ہیں اور وہ اللہ ہی کے حکم سے کام کرتے ہیں۔ پس جب ان کی عبدیت اور اطاعت کا یہ حال ہے تو ان کو شریک ٹھہرانا بالکل بےسود ہے مطلب یہ ہے کہ کفار اپنے دل سے یہ امید نکال دیں کہ فرشتے ان کی شفاعت کریں گے۔ فرشتے بغیر اذن الٰہی کے ہرگز شفاعت نہیں کرسکتے۔ فرشتے کسی قول و فعل میں حکم الٰہی سبقت نہیں کرتے ملائکہ میں یہ طاقت نہیں کہ از خود اپنی طرف سے کوئی بات کرسکیں یا اپنے ارادہ سے کوئی فعل کرسکیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ علم الٰہی ان کو محیط ہے۔ خدا خوب جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور ان کے پیچھے ہے یعنی خدا تعالیٰ کو ان کے گزشتہ اور آئندہ کے سب اعمال اور احوال معلوم ہیں۔ کما فی قولہ تعالیٰ وما نتنزل الا بامر ربک لہ ما بین ایدینا وما خلقنا وما بین ذلک وما کان ربک نسیا۔ اور اسی وجہ سے ان کے ادب کی یہ کیفیت ہے کہ وہ کسی کیلئے سفارش نہیں کرتے مگر اس شخص کے لیے کہ جس کے لیے خدا پسند کرے یعنی جو مومن ہو اور لا الہ الا اللہ کا قائل ہو اور خدا کی وحدانیت کا مقر ہو۔ فرشتے دنیا میں بھی اہل ایمان ہی کی شفاعت کرتے ہیں اور وہ فرشتے ہر وقت خدا کے خوف سے اور اس کے قہر اور جلال سے کانپتے اور تھتراتے رہتے ہیں۔ خدا کی عظمت ہر وقت ان کی نظروں کے سامنے ہے اور اگر بالفرض کوئی ان میں یہ کہے کہ اللہ کے سوا میں معبود ہوں۔ مجھ کو پوجو تو ایسے کو ہم جہنم کی سزا دیں گے اور ہم ظالموں کو ایسی سزا دیا کرتے ہیں یعنی جو خدائی کا دعویٰ کرے اس کی سز اجہنم ہے اور فرشتے اور انبیاء ان باتوں سے پاک اور منزہ ہیں جو مشرکین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ سب اللہ کے مطیع اور فرمانبردار بندے ہیں اور ہر لمحہ اس سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں اس کے سامنے بول بھی نہیں سکتے۔ پھر کس بناء پر تم نے ان کو خدا کی اولاد ٹھہرایا۔ فرشتے اور انبیاء (علیہ السلام) سب خدا کے بندے ہیں۔ معاذ اللہ اس کی اولاد نہیں۔
Top