Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَآ : تحقیق البتہ ہم نے دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم رُشْدَهٗ : ہدایت یابی (فہم سلیم) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور ہم تھے بِهٖ : اس کے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے ہدایت دی تھی اور ہم ان کے حال سے واقف تھے۔
(2) قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) قال اللہ تعالیٰ ولقد اتینا ابراہیم رشدۃ .... الیٰ .... وکانوا لنا عبدین۔ یہ دوسرا قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جو اہل عرب اور اہل کتاب کے مسلم بزرگ ہیں اور ابتداء عمر سے توحید کے دلدادہ اور شرک اور بت پرستی کے دشمن تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور البتہ تحقیق ہم نے ابراہیم کو موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) سے پہلے یا محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے خاص ہدایت اور خاص صلاحیت عطا کی تھی۔ جو ان کی شان کے لائق تھے اور ہم ان کی ہدایت اور صلاحیت سے واقف اور باخبر تھے ہم ہی نے ان کو مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کا منبع اور مخزن بنایا تھا یا یہ معنی ہیں کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو نبہ ہونے سے پہلے ہی حق کی معرفت عطا کردی تھی یا ان کے بالغ ہونے سے پہلے ہی ہم نے ان کو خاص اور کامل رشد عطاء کی تھی ہم ان کی صالحیت اور اہلیت سے باخبر تھے کیونکہ ان کے وجود کی طرح ان کی صلاحیت بھی ہماری عطاء کردہ تھی اور اس کا ظہور اس وقت ہوا جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیں کیا ہیں جن کے تم معتکف اور مجاور بنے ہوئے ہو اور جن کی عبادت پر تم جمے بیٹھے ہو وہ بولے ہم نے اپنیباپ دادوں کو انہی کی پوجا کرنے والا پایا لہٰذا ہم ان کی تقلید کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ بیشک تم اور تمہارے باپ داداے کھلی گمراہی میں پڑے رہے ان کا یہ عمل کسی حجت اور برہان کی بنا پر نہ تھا بلکہ محض ان کے نفس کی خواہش تھی اور ایسی کھلی گمراہی تھی جو کسی عاقل پر مخفی نہیں وہ سکتی وہ تعجب سیت بولے کیا تو حقیقت میں کوئی حق بات لے کر آیا ہے یا تو دل لگی کرنے والوں میں سے ہے ہمارے ساتھ دل لگی کرتا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا بلکہ تم کھیل اور دل لگی کررہے ہو۔ حق اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور اس بات پر تمام ملائکہ اور تمام مخلوق الٰہی شاہد اور گواہ ہے اور میں بھی منجملہ شاہدوں کے ایک شاہد ہوں اور میں اس امر واضح پر دلیل اور برہان بھی قائم کرسکتا ہوں اور میں اس کو خوب جانتا ہوں اور اس پر یقین رکھتا ہوں اور آہستہ سے کہا کہ خدا کی قسم میں تمہارے ان بتوں کی خوب گت بناؤں گا۔ جب تم پشت پھیر کر ان بتوں کے پاس سے کہیں چلے جاؤ گے۔ یعنی جب تم عید میں چلے جاؤ سے تو میں تمہارے بتوں کا علاج کروں گا یعنی تمہارے بتوں کو توڑ ڈالوں گا جس سے انکا عاجز اور درماندہ ہونا تمہارے مشاہدہ میں آجائے گا۔ پس جب وہ لوگ اپنی عید میں جانے لگے تو ابراہیم (علیہ السلام) مرض کا عذر کرکے پیچھے رہ گئے اور کہا کہ میں بیمار ہوں کسی نے کیا خوب کہا ہے : اگر تماشائے عید طلبند خلیل وار بدیشاں بگو کہ بیمارم جب وہ چلے گئے تو ابراہیم (علیہ السلام) ان کے بت خانہ میں داخل ہوئے تو دیکھا ایک بڑا بت رکھا ہوا ہے اور اس کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے بت ہیں اور ان کے سامنے کھانا رکھا ہوا ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے بطور استہزا ان سے خطاب کیا الا تاکلون تم کھاتے کیوں نہیں۔ بعد ازاں کہا مالکم لا تنظرون تم کو کیا ہوا کہ بولتے نہیں۔ بعد ازاں ایک تبر سے ان کو توڑنا شروع کردیا کما قال تعالیٰ فراغ علیہم ضربا بالیمین۔ اور سوائے ایک بت کے جو سب سے بڑا تھا سب کو توڑ ڈالا اور کلہاڑا اس بڑے بت کی گردن پر رکھ دیا۔ چناچہ فرماتے ہیں : پس کردیا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان بتوں کو ٹکڑے مگر ان کے بڑے بت کو نہ توڑا اور کلہاڑا اس کی گردن میں لٹکا دیا۔ شاید وہ مشرکین اپنے اس بڑے بت کی طرف رجوع کریں جیسا کہ انکا طریقہ ہے کہ وہ مشکلات میں بتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اگر اس سے پوچھیں کہ ان چھوٹے بتوں کو کس نے توڑا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی غرض ان کو الزام دینا تھا کہ جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے وہ ایسے عاجز اور لاچار ہیں کہ اپنی حفاظت بھی نہیں کرسکتے اور اس بڑے بت نے بھی چھوٹے بتوں کی کوئی مدد نہ کی اور عجب نہیں کہ بڑے بت کی گردن میں کلہاڑا لٹکانے سے اشارہ اس طرف ہو کہ اس منظر کو دیکھ کر لوگ خیال کریں کہ اس بڑے بت کو غیرت آئی کہ میرے ساتھ ان چھوٹے بتوں کی کیوں پرستش کی جاتی ہے۔ اس لیے غیرت کی بناء پر اس نے ان سب کو ہلاک کردیا۔ خلاصہ کلام یہ کہ لعلہم الیہ یرجعون۔ میں الیہ کی ضمیر کبیرا لہم (یعنی بڑے بت) کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ شاید عید سے واپسی کے بعد اس بڑے بت کی طرف رجوع کریں۔ جس طرح کہ وہ حل مشکلات میں اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس منظر کو دیکھ کر اس سے یہ کہیں کہ ان بتوں کو کیا ہوا کہ سب کے سب ٹوٹے پھوٹے پڑے ہیں اور تجھے کیا ہوا کہ تو صحیح سالم ویسا ہی ہے اور یہ کیسا تیشہ ہے جو تیری گردن میں لٹکا ہوا ہے یہ دیکھ کر جان لیں گے کہ یہ بت کسی بھلائی اور برائی کے مالک نہیں یہ تو ایسے عاجز ہیں کہ اپنے سے بھی ضرر کو دفع نہیں کرسکتے۔ یہ کہ سے معبود ہوسکتے ہیں۔ اور بعض علما یہ کہتے ہیں کہ ضمیر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ شاید وہ لوگ واپسی کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف رجوع کریں۔ کیونکہ وہ بتوں کی عساوت میں مشہور تھے۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ الیہ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ شاید وہ اپنے بتوں کی عاجزی اور لاچاری اور ان کی ذلت و خواری کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف رجوع کریں، غرض یہ کہ اس بحث و مناظرہ میں دو طریقے اختیار کیے ایک قولی اور ایک فعلی۔ اول زبان سے ان کے بتوں کی بےبسی ثابت کی۔ جب وہ اس سے قائل نہ ہوئے تو زبانی حجت سے گزر کر فعل سے بتوں کی بےبسی ثابت کی کہ وہ اپنی حفاظت اور مدافعت سے بھی عاجز ہیں اس طرح قول اور فعل دونوں طریق سے ان پر حجت قائم کردی۔ پس جب وہ لوگ اپنی عید سے واپس آئے اور بت خانے میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے بتوں کا حال دیھا بولے کسی نے ایسا کیا ہمارے بتوں کے ساتھ وہ شخص جس نے ایسا کام کیا بیشک وہ ظلم کرنے والوں میں سے ہے۔ بعض نے کہا کہ ہم نے ایک نوجوان کو سنا ہے کہ وہ انکا تذکرہ برائی کے ساتھ کرتا رہتا ہے اس کا نام ابراہیم بتلایا جاتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام اس نے کیا ہے یہ کام اس کے سوا کون کرسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب مشرکین سے گفتگو کی تھی تو اس وقت ان کی زبان سے یہ لفظ نکلا تھا۔ قا للہ لاکیدن اصنامکم الخ میں تمہارے ساتھ ایک چال چلوں گا تو جس شخص نے یہ لفظ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے سنا تھا اس نے یہ کہا کہ میرا گمان یہ ہے کہ یہ کام اس نوجوان کا ہے کہ بتوں کا برائی کے ساتھ ذکر کرتا تھا۔ جب یہ خبر نمرود اور اس کے ارکان دولت کو پہنچی تو بولے کہ پھر تو اس کو لے آؤ۔ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تاکہ لوگ گواہی دیں کہ بتوں کو توڑنے والا یہی شخص ہے یا یہ معنی ہیں کہ اس کو لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ اس کو دیکھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی یہی چاہتے تھے کہ مجمع میں اس پر گفتگو ہو تاکہ ان لوگوں کی جہالت اور بےعقلی ظاہر ہو کہ جو ان بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) حاضر کیے گئے اس وقت ان لوگوں نے کہا کہ اے ابراہیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے، ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں کہا بلکہ اس کام کو ان کے اس بڑے نے کیا ہے جو صحیح سالم کھڑا ہے اور تیشہ (کلہاڑا) اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے ہے جو توڑنے کا آلہ ہے۔ شاید اس کو اس بات پر غصہ اور غیرت آئی ہو کہ تم اس بڑے کے ساتھ اور اس کے سامنے ان چھوٹوں کو کیوں پوجتے ہو اس لیے اس نے ان کو توڑ دیا۔ کیا جب اس بڑے بت کا معبود ہونا ممکن ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ کام بھی اس نے ہی کیا ہو اور اگر تمہیں یہ شبہ ہے کہ یہ کام میں نے کیا ہے سو تم ان چھوٹے بتوں ہی سے پوچھ کو اگر یہ بول سکتے ہیں یہ خود ہی بتلا دیں گے کہ یہ کام کس نے کیا ہے۔ تمہارے اعتقاد میں جب یہ بت تمہاری حاجت روائی کرسکتے ہیں تو لامحالہ تمہارے سوال کا جواب بھی دے سکیں گے۔ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ جو اس درجہ عاجز ہے کہ بولنے پر بھی قادر نہیں تو اس کو معبود بنانا حماقت ہے۔ کیونکہ جو بولنے سے بھی عاجز ہے اور جس مکان میں یہ واقعہ پیش آیا اس کے علم سے بھی قاصر ہے تو وہ معبود کیونکر ہوسکتا ہے۔ بتوں کو توڑنے والے بلاشبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے لیکن بل فعلہ کبیرھم۔ کہہ کر توڑنے کا حوالہ بڑے بت پر جو کیا تو وہ بطور جد (حقیقت) نہ تھا بلکہ بطور استہزاء و تمسخر تھا۔ جس سے مقصود ان کی تحقیق و تجہیل تھی کیونکہ صورت حال ایسی تھی کہ یہ فعل (بتوں کا توڑنا) ۔ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) اور بڑے بت کے درمیان دائر تھا جس میں سے ایک بلاشبہ عاجز تھا یعنی بت اور ایک بلاشبہ قادر تھا یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام۔ اور عقلاء کے نزدیک یہ قاعدہ مسلم ہے کہ جو فعل عاجز اور قادر کے درمیان دائر ہو یعنی ایک تو اس فعل پر قادر ہو اور دوسرا اس فعل سے عاجز ہو قادر کو چھوڑ کر عاجز کی طرف اس فعل کی نسبت کی جائے تو عاجز کے ساتھ تمسخر اور استہزاء ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ احتمال کے درجہ میں بھی کافروں کو یہ خیال نہیں آئے گا کہ اس بڑے بت نے ان چھوٹے بتوں کو توڑ کر کلہاڑا اپنی گردن پر لٹکا لیا ہے۔ محض استہزاء کے طور ان سے یہ کہا ہے، یہ ایسا ہے جیسے کسی اعجاز رقم یعنی خوشنما تحریر کی کتابت کی نسبت کسی جاہل اور ان پڑھ کی طرف کردی جائے اور اس ان پڑھ سے کہا جائے کہ یہ اعجاز رقم کتابت آپ ہی نے فرمائی ہے تو بلاشبہ یہ اس جاہل کے ساتھ استہزاء ہوگا اور یہ مطلب ہرگز ہرگز نہ ہوگا کہ فی الحقیقت اس کندہ ناتراش نے یہ خوشمنا تحریر لکھی ہے بلکہ یہ ایک قسم کا طنز ہوگا اگر کسی جاہل کو یہ کہا جائے کہ تو بڑا عالم ہے تو کسی عاقل کے نزدیک یہ جھوٹ شمار نہ ہوگا غرض یہ کہ اس قول بل فعلہ کبیرھم سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصود کسی واقعہ کی خبر دینا نہ تھا کہ اس کو کذب کہا جاسکے بلکہ بطور کنایہ ان کی تحمیق و تجہیل مقصود تھی۔ دیکھو تفسیر کبیر ص 129 ج و حاشیہ شہاب خفاجی علی تفسیر البیضاوی ص 161 اور حضرات اہل علم اس مقام پر حاشیہ شیخ زادہ علی تفسیر البیضاوی ص 355 جلد 4 ضرور دیکھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ نہیں کہا کہ میں نے بت نہیں توڑے یا میں نہیں جانتا کہ کس نے یہ بت توڑے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کے توڑنے اور پھوڑنے کے متعلق صراحتاً نہ اقرار کیا اور نہ انکار کیا بلکہ ایسی بات کہی جس سے خود ظاہر ہوگیا کہ توڑنے والا کون ہے جیسے ایک کوٹھری میں فقط ایک شخص بیٹھا ہے اس نے زید کو پکارا زید نے متوجہ ہو کر وہاں آکر پوچھا کہ اس کوٹھری میں سے مجھے کس نے پکارا۔ اس نے جواب دیا کہ دیوار نے تو صاف مطلب یہ ہے کہ میں نے پکارا، اس لیے کہ اس کوٹھری میں میرے سوا کوئی پکارنے والا نہیں اور دیوار پکار نہیں سکتی۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ میں نے پکارا ہے۔ اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ کلام بطور اخبار نہ تھا بلکہ طریق تعریض و توریہ ان کے الزام اور تحقیق و تجہیل کے لیے تھا اور اس کے بعد کا جملہ فسئلوہم ان کانوا ینطقون۔ اسی تجہیل کی تتمیم و تکمیل کے لیے تھا کہ یہ بت اگر بول سکتے ہیں تو یہ کام بھی کرسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کا بولنا تو محال ہے تو معلوم ہوا کہ انکا یہ کام کرنا بھی محال ہے اور تم ہی نادان ہو کہ ایسی ذات کو معبود بنائے ہوئے ہو کہ جو بولنے پر بھی قادر نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ فرمانا یعنی توڑنے کو بڑے بت کی طرف نسبت کرنا بطور تعلیق بالمحال تھا جس سے مقصود ان کی تبکیت اور توبیخ اور تنبیہ تھی معاذ اللہ یہ کسی واقعہ کی خبر نہ تھی جو کذب (جھوٹ) میں داخل ہو سکے۔ اور بعض احادیث میں جو اس پر کذب کا اطلاق آتا ہے تو وہ محض ظاہری صورت کے اعتبار سے ہے نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے اور مقصود محض الزام اور اتمام حجت ہے۔ (دیکھو تفسیر بیضاوی و حاشیہ شیخ زادہ ص 355 جلد 3) علامہ نسفی (رح) اس آیت کی تفسیر میں کیا خوب فرماتے ہیں فان من لایدفع عن نفسہ الفأس کیف یدفع عن عابدیہ البأس۔ (تحقیق جو ذات اپنے سر سے کلہاڑے کو دفع نہ کرسکے وہ اپنے پرستاروں کی بلا اور مصیبت کو کیسے دفع کرسکتی ہے) ۔ غرض یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ جواب لاجواب سن کر سب خاموش رہ گئے۔ تب انہوں نے اپنی عقلوں کی طرف رجوع کیا اور جہالت اور حماقت پر متنبہ ہو کر شرمندہ ہوئے پھر آپس میں بولے کہ بیشک تم ہی ظالم ہو تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور جہالت اور حماقت پر متنبہ ہو کر شرمندہ ہوئے پھر آپس میں بولے کہ بیشک تم ہی ظالم ہو تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہ ایک عاجز کو اپنا معبود بنایا۔ ابتداء میں مشرکین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تو ظالم بتلایا تھا جب ذرا ہوش آیا تو خود اپنے کو ظالم بتلایا اور جبراً و قہراً حق ان کی زبان پر جاری ہوگیا اور سمجھ گئے کہ بتوں کی عبادت کرنا ظلم ہے اور ان کا توڑنا ظلم نہیں پھر وہ خجالت اور ندامت سے سرنگوں ہوگئے یعنی شرمندگی سے سرجھکالیے اور حیرت میں پڑگئے اور بولے اے ابراہیم تو تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں پھر ہم ان سے کس طرح پوچھیں اور تم ہم سے کیوں کہتا ہے کہ ان سے پوچھو۔ اس طرح سے خود اپنی حیرت کا اقرار کرلیا۔ پس جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس حجت اور اس جواب سے لاجواب ہوگئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا پھر اس اقرار اور اعتراف کے بعد بھی تم اللہ کے سوا ایسی چیز کی پرستش کرتے ہو کہ اگر تم اس کی عبادت کرو تو وہ تم کو نفع نہ پہنچا سکے اور اگر تم اس کی عبادت نہ کرو تو وہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے ایسی بیکار چیزوں کی کیوں پرستش کرتے ہو۔ تف ہے تم پر اور اس چیز پر جس کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو یعنی تم اور تمہارے معبود سب ذلیل اور حقیر ہیں تو کیا تم عقل نہیں رکھتے جو اتنا بھی سمجھ سکو کہ ایسی عاجز اور لاچار چیز کو معبود بنانا صریح حماقت اور جہالت ہے جو چیز توڑی اور پھوڑی جاسکتی ہے وہ معبود کیسے ہوسکتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی جہالت اور حماقت سے گھبرا کر ان کو تف کہا کہ میں ایسے بیوقوفوں سے بری اور بیزار ہوں کہ جو باوجود حق واضع ہوجانے کے اور عذر قطع ہوجانے کے بھی اپنی جہالت پر جمے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس تقریر دل پذیر کا جب کوئی جواب نہ بن آیا تو بمقتضائے اس قول کے۔ چو حجت نماند جفا ہوئے را بپر خاش برہم کشد روئے را تو پر خاش اور بیکار و آزار پر اتر آئے تو آپس میں کہنے لگے کہ اس کو آگ میں جلا دو جو سب سے زیادہ ہولناک عذاب اور سزا ہے اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر کچھ کرسکتے ہو یعنی اپنے معبودوں کی مدد کی صرف یہ صورت ہے کہ اسے آگ میں جلا دو بغیر اس کے ناممکن ہے جب تک یہ زندہ رہے گا برابر تمہارے معبودوں کو برا کہتا رہے گا۔ اور ان کی بےحرمتی کرتا رہے گا۔ چونکہ ابراہیم (علیہ السلام) لوگوں کو آتش دوزخ سے ڈراتے تھے اس لیے نمرود نے یہ رائے دی کہ اس شخص کو آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے۔ جب نمرود اور اس کی قوم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے جلانے پر اتفاق کرلیا اور ایک ہولناک آگ کا سامان کرکے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس آگ میں ڈال دیا اور اس وقت ہم نے آگ کو حکم دیا کہ اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈک اور سلامتی ہوجا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس سے کوئی تکلیف نہ ہو۔ چناچہ ایسا ہی ہوگیا اور ان کا مقصود تو حاصل نہ ہوا بلکہ اسکے برعکس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مزید حقانیت ظاہر ہوگئی۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ برداً کے ساتھ سلاماً کا لفظ نہ فرماتے تو وہ آگ اس قدر ٹھنڈی ہوجاتی کہ ابراہیم (علیہ السلام) اس کی برودت سے مرجاتے یا ٹھٹھرجاتے اور اگر ” علیٰ ابراہیم “ (علیہ السلام) کا لفظ نہ فرماتے تو دنیا کی ساری آگیں ٹھنڈی ہوجاتیں، مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ تو ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں ٹھنڈی ہوجا مگر تیری برودت ایسی معتدل اور خوشگوار ہو کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی راحت کا سبب بنے۔ چناچہ اللہ کے حکم سے ایسا ہی ہوگیا اور کعب احبار ؓ سے منقول ہے کہ آگ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے صرف بند جلائے اور اس کے سوا کوئی ایذاء نہیں پہنچی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے آگ کی روشنی باقی رکھی حرارت کو مبدل بہ برودت کردیا جیسے دوزخ کے مہتمم اور منتظم فرشتہ کو دوزخ کی حرارت محسوس نہیں ہوتی۔ اور شتر مرغ گرم لوہے کا ٹکڑا نگل جاتا ہے اور اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور سمندل ایک جانور ہے جو آگ میں رہتا ہے اور آگ ہی اس کی زندگی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آگ کو اپنے خلیل (علیہ السلام) کے لیے بردوسلام بنا دیا (دیکھو تفسیر غرائب القرآن ص 35 جلد 17 بر حاشیہ ابن جریر اور دیکھو تفسیر کبیر ص 131 ج 6) اور ان لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ فریب اور مکر کرنا چاہا اور ان کو جلانا چاہا پس ہم نے انہی کو ہر زیاں کار سے زیادہ ترزیاں کار کردیا کہ ان کی ساری سعی بیکار گئی اور سب خسارہ اٹھانے والوں سے بڑھ کر ان کو خسارہ اٹھانے والا کردیا اس طرح آگ کا ابراہیم السلام کے حق میں بردوسلام ہوجانا ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ و اہانت ہوا۔ اور معجزہ کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا سبب عادی کے اپنی قدرت و اختیار سے اپنے کسی برگزیدہ بندہ کی تائید وتقویت کے لیے کوئی ایسا امر ظاہر فرمائے کہ سارا عالم اس کے مثل لانے سے اور اس کے مقابلہ سے عاجز ہو۔ من جانب اللہ یہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عزت و کرامت کا سامان ہوا کہ آگ ان کے حق میں گلزار بن گئی اور نمرود کی ذلت اور اہانت کا یہ سامان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قوم پر ایک نہایت حقیر جانور مچھر کو مسلط کیا کہ نمرود کے دماغ میں ایک مچھر گھس گیا جو کسی تدبیر سے نہ نکل سکا یہاں تک کہ نمرود اسی میں ہلاک ہوگیا اور مچھروں نے کافروں کے گوشت کھائے اور ان کے خون چوس لیے۔ (دیکھو تفسیر قرطبی ص 305 ج 11) ذکر ہجرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰہ والسلام اور بعد ازاں ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اور ان کے برادر زادہ لوط (علیہ السلام) کو کافروں سے نجات دی اور ان سے بچا کر اس زمین کی طرف پہنچا دیا جس میں ہم نے جہان والوں کے لیے برکت رکھی ہے مراد اس ارض مبارکہ سے زمین شام ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) عراق میں رہتے تھے جہاں نمرود رہتا تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق سے شام کی طرف ہجرت فرمائی اور ان کے ساتھ اور چند آدمیوں نے بھی ہجرت کی جو ان پر ایمان لے آئے تھے جن میں حضرت لوط (علیہ السلام) بھی تھے جو ساری قوم کے خلاف ابراہیم السلام پر ایمان لے آئے تھے۔ فامن لہ لوط۔ اور آپ (علیہ السلام) کی بی بی سارہ بھی آپ (علیہ السلام) کے ہمراہ تھیں۔ اول جا کر حران میں ٹھہرے پھر کچھ عرصہ بعد وہاں سے مصر چلے گئے پھر وہاں سے شام آئے اور فلسطین کے علاقہ میں اقامت اختیار کی۔ اور لوط (علیہ السلام) نے مؤتفکہ میں رہنا اختیار کیا۔ خدا تعالیٰ نے ان کو اس علاقہ کا نبی بنا دیا۔ غرض یہ کہ ان حضرات نے بحکم الٰہی ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی اور پھر ہجرت کے بعد ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی درخواست کے مطابق بیٹا اسحاق دیا اور یعقوب پوتا بطور نفل اور زیادہ دیا یعنی پوتا بغیر درخواست کے لیے مانگے دیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کل عمر ایک سو پینتالیس برس کی ہوئی۔ اول اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑھاپے میں اسحاق بیٹا عطاء کیا اور پھر اسحاق (علیہ السلام) کا بیٹا یعقوب (علیہ السلام) پیدا ہوا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی زندگی میں پوتے کو بھی دیکھا اور پوتے کو نافلہ فرمایا اس لیے کہ نافلہ کے معنی زیادہ کے ہیں۔ پوتا چونکہ بیٹے پر زیادہ ہے اس لیے اس کو نافلہ کہا یا یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے سوال صرف فرزند کا کیا تھا۔ سو اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو اسحاق (علیہ السلام) فرزند عطا کیا اور یعقوب (علیہ السلام) بغیر سوال کے زیادہ ملے۔ اس لیے ان کو فافلہ سے تعبیر کیا اور ان سب کو یعنی باپ اور بیٹے پوتے سب کو نیک بخت بنایا اور ہم نے ان کو مخلوق کے لیے پیشوا بنایا کہ وہ لوگوں کو ہمارے حکم کے مطابق راہ بتائیں اور ہم نے ان کی طرف نیک کاموں کے کرنے کی عموماً اور نماز قائم کرنے کی اور زکوٰۃ دینے کی خصوصاً وحی بھیجی۔ نیک کاموں میں نماز اور زکوٰۃ کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ عبادات بدنیہ میں نماز سب سے افضل ہے اور عبادات مالیہ میں زکوٰۃ سب سے افضل ہے اور یہ سب خالص ہماری عبادت کرنے والے اور ہمارے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے تھے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) پر طرح طرح سے احسان فرمائے۔ اول تو یہ کہ بچپن ہی سے ان کو رشد و ہدایت سے نواز۔ دوم یہ کہ ظالم و جابر کے مقابلہ میں ان کو غلبہ عطا کیا۔ سوم یہ کہ ان کو بابرکت زمین کی طرف ہجرت کرائی۔ چہارم یہ کہ ان کو اولاد صالح عطاء کی۔ پنجم یہ کہ اولاد کو بھی مقتداء اور پیشوائے عالم بنایا۔ وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔ لطائف و معارف 1۔ ولقد ایتنا ابراہیم رشدہ من قبل کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو انکا رشد پہلے ہی سے دیدیا تھا، یعنی صغر سنی میں ان کو حق کی معرفت اور الہام اور حجت عطا کردی تھی یہ اس امر کی دلیل ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اگرچہ نبوت سے پہلے نبی نہیں ہوتے مگر صاحب الہام و معرفت ضرور ہوتے ہیں۔ 2۔ مشرکین نے جب اپنی عید سے واپس آکر دیکھا کہ بت ٹوٹے پڑے ہیں تو ابراہیم (علیہ السلام) سے پوچھا کہ کیا یہ کام تو نہ کیا ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا بل فعلہ کبیرھم بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کے متعلق صحیح بخاری وغیرہ میں ایک حدیث آئی ہے اس کا مطلب سمجھ لینا چاہئے وہ حدیث یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوائے تین مرتبہ کے کبھی جھوٹ نہیں بولا ایک تو اس وقت کہ جب ان کی قوم نے دریافت کیا کہ ان بتوں کو کس نے توڑا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا بل فعلہ کبیرھم۔ یعنی ان کے بڑے نے توڑا، دوسرے اس وقت جبکہ ان کی قوم نے ان کو اپنے ساتھ عید میں چلنے کو کہا تو انہوں نے کہا۔ انی سقیم۔ یعنی میں بیمار ہوں، تیسرے اس وقت کہ جب مصر کے ایک ظالم بادشاہ نے ان کی بی بی سارہ کو گرفتار کیا تو انہوں نے یہ کہا ھذا اختی یہ میری بہن ہے۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بظاہر جھوٹ بولنا مذکور ہوا حالانکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) تو قطعی طور پر معصوم ہوتے ہیں اسی خیال کی بناء پر بعض لوگوں نے اس حدیث کی صحت سے انکار کردیا مگر یہ صحیح نہیں۔ اس لیے کہ یہ حدیث صحیح بخاری میں سے اور حدیث کی بیشمار معتبر اور مستند کتابوں میں اسانید صحیحہ اور جیدہ سے مذکور ہے جس کی صحت میں آج تک کسی امام حدیث نے کلام نہیں کیا اور نہ کلام کی گنجائش ہے۔ بلکہ اس حدیث میں کذب (جھوٹ) سے تعرض اور کنایہ مراد ہے یعنی ایسی ذو معنی بات کہنا کہ جو حقیقت اور واقع کے اعتبار سے تو صحیح ہوا اور واقع کے مطابق ہو اور ظاہری معنی اور سرسری مطلب کے لحاظ سے سننے والا ایسے معنی سمجھے کہ اس کی سمجھ کے اعتبار سے خلاف واقع ہوں، حضرات انبیاء کی زبان مبارک سے جو کلمہ نکلتا ہے وہ فی الحقیقت ہرگز خلاف واقع نہیں ہوتا البتہ مخاطب اور سامع کے فہم اور ادراک کے لحاظ سے کبھی خلاف واقع ہوتا ہے ” توریہ “ کے معنی اخفاء یعنی چھپانے کے ہیں۔ متکلم نے کسی مصلحت کی بنا پر حقیقت حال کے چھپانے کے لئے ایسا لفظ بولا جس کو متعدد پہلو تھے، سامع اپنے قصور فہم کی وجہ سے اس کو پوری طرح نہ سمجھ سکا۔ سامع کی نظر اس کلام کے ظاہری پہلو پر گئی اور متکلم کی نظر اس کے خفی اور پوشیدہ پہلو پر تھی سو یہ تو ریہ ہے۔ جھوٹ نہیں چونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا مرتبہ بہت بلند ہے اس لیے یہ امر بھی ان کی شان بلند کے مناسب نہیں کہ ان کے کلام میں کوئی پہلو خلاف توقع نکل سکے۔ توریہ اور کنایہ اگرچہ بربنائے مصلحت و ضرورت جائز ہے مگر درجہ رضصت میں، مقام عزیمت یہ ہے کہ بلا کسی توریہ اور کنایہ کے امر حق کو صراحۃً واضح کیا جائے اور کھول کر صاف صاف بیان کیا جائے کما قال اللہ تعالیٰ فاصدع بما تؤمر۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس مقام پر چونکہ بجائے عزیمت کے رخصت کی طرف تنزل فرمایا۔ سو یہ تنزل ان کے مقام جلیل سے کئی درجہ نازل تھا اس لیے قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شفاعت سے پہلو تہی فرمائیں گے اور اپنے ان کنائی الفاظ کو ذریعہ معذرت بنائیں گے۔ ان تین باتوں میں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کوئی بات بھی خلاف واقع نہ تھی البتہ ایک دینی اور شرعی ضرورت کی بناء پر تعریف اور کنایہ کے باب سے تھی مگر ان کی شان رفیع اور مقام بلند کے لحاظ سے ایسی تعریض بھی ان جیسی جلیل القدر ہستی کے حق میں کذب کا حکم رکھتی ہے۔ حسنات الابرابر سیئات المقربین عقلاً و شرعاً یہ امر مسلم ہے کہ تعریض اور توریہ کذب نہیں اور وہ فی حد ذاتہٖ جائز ہے نہ عصمت کے منافی ہے اور نہ نبوت کے منافی ہے۔ بعض مرتبہ خود حق تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو اس کی اجازت دی ہے۔ ایتھا العیر انکم لسارقون۔ دوم یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ تینوں باتیں محض دینی مصلحت کے لیے اور خالص اللہ کے لیے تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ کہنا بل فعلہ کبیرھم اور انی سقیم کہنا یہ دو باتیں کہ جن میں ذرہ برابر بھی اپنا ذاتی نفع نہیں۔ البتہ تیسری بات ھذہ اختی یہ میری بہن ہے اس میں من وجہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنا ذاتی نفع بھی تھا مگر ہر جگہ وہی مصلحت مدنظر تھی۔ اس وجہ سے حدیث میں ہے کل ذلک فی ذات اللہ الاماحل بھا عن دین اللہ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کا ہر کذب (تعریض) محض اللہ کے دین کی حمایت اور مدافعت کے لئے تھا اپنے ذاتی فائدہ اور غرض کے لیے نہ تھا۔ سوم یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ کلمات تعریض اور الفاظ توریہ ایسی شدت اور مصیبت کے وقت میں دینی ضرورت کے لیے استعمال فرمائے کہ ایسی حالت میں صریح کذب کا استعمال فقط جائز ہی نہیں رہتا بلکہ بسا اوقات واجب ہوجاتا ہے ظالم کے ظلم دفع کرنے کے لیے صریح کذب بھی جائز ہے اور کنایہ اور توریہ اور تعریفیں کے جواز میں تو کسی کو کلام نہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے جو الفاظ نکلے وہ سب درست تھے مگر بایں ہمہ ان کے مقام بلند نے اس کو بھی محسوس فرمایا اور دل میں بھی محجوب ہوئے اس لیے قیامت کے دن جو لوگ آپ (علیہ السلام) کے پاس شفاعت کی درخواست لے کر جائیں گے تو ان تین باتوں کو شفاعت سے عذر کے لئے ذکر فرمائیں گے۔ حضرت حق جل شانہ کا ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول رب ارنی کیف تحی الموتی کے جواب میں یہ فرمانا۔ اولم تؤمن یہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے علو شان کی دلیل ہے کہ ان کے اس سوال کو عدم ایمان سے تعبیر کیا گیا۔ اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے ان تعریض اور کنائی الفاظ پر کذب کا اطلاق ان کے علو شان کی دلیل ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جن احادیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ہمیں باتوں میں کذب کی نسبت کی گئی ہے سو یہ اطلاق محض ظاہر اور صورت کے اعتبار سے کیا گیا ہے اور لم یکذب الا فی ثلاث میں الا اسیثناء منقطع کے لیے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو صدیق معظم اور صدق مجسم تھے ان کی زبان سے کبھی کوئی کذب نکلا ہی نہیں۔ مگر ساری عمر میں تین باتیں ان کی زبان سے ایسی نکلیں کہ مخاطب نے سن کر ان سے جو سمجھا وہ خلاف واضح تھا۔ مخاطب کے اعتبار سے ان الفاظ کی صورت جھوٹ کی سی تھی واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ 2۔ وہ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حجت اور برہان سے جب لاجواب ہوگئے تو جھنجھلا کر یہ طے کیا کہ ان کو آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے سو انہوں نے ایک بلند اور بندمکان میں بیشمار ایندھن جمع کیا اور اس پر تیل چھڑک کر اس میں آگ لگا دی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی گردن میں طوق اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر منجنیق کے ذریعے ان کو آگ میں پھینک دیا گیا۔ فرشتوں نے عرض کیا اے پروردگار آپ کا دوست آگ میں ڈالا جا رہا ہے۔ ہمیں اجازت دیجئے کہ اس کی مدد کریں خدا تعالیٰ نے فرمایا وہ میرا دوست ہے اگر تم سے کوئی مدد چاہے تو میری طرف سے اجازت ہے کہ وہ اس کی مدد کرے۔ چناچہ جبریل امین (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ تم کو کچھ حاجت ہے فرمایا کہ تمہاری تو مجھے حاجت نہیں اور اللہ کو میرے حال کا علم ہے وہ میرے لیے کافی ہے وہ میرا رب ہے میرے سوال سے پہلے میرا حال جانتا ہے وہ میرے لیے کافی ہے اور اس کا میرے حال کو جاننا میرے سوال کرنے سے کافی ہے اور حسنبا اللہ ونعم الوکیل۔ پڑھا۔ اللہ کے حکم سے تمام آگ اسی وقت بردوسلام بن گئی اور آگ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بدن سے طوق اور بیڑیاں اور ہتھکڑی تو جلا دی مگر ابراہیم (علیہ السلام) کے جسم کو آنچ تک نہ پہنچی۔ کہا جاتا ہے کہ سات دن تک ابراہیم (علیہ السلام) اس آگ کے مقام میں رہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بیان ہے کہ جیسا عیش مجھے اس آگ میں نصیب ہوا ایسا عیش عمر بھر میں کبھی نصیب نہیں ہوا۔ ایک فرشتہ ان کی تسلی کے لیے ان کے پاس آبیٹھا اور جبریل (علیہ السلام) جنت سے حریر کا ایک قمیص اور ایک فرش لائے اس قمیص کو ابراہیم (علیہ السلام) کو پہنا دیا اور اس فرش کو بجھا دیا اور ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگے اور کہا اے ابراہیم (علیہ السلام) تیرا پروردگار فرماتا ہے کہ کیا تجھے یہ بات معلوم نہیں کہ آگ میرے دوستوں کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ پھر نمرود نے اپنے محل پر چڑھ کر ابراہیم (علیہ السلام) کو جھانکا تو دیکھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) ایک گلزار اور سبزہ زار میں بیٹھے ہیں۔ اور آتش کدہ ان کے لیے گلستان اور بوستان بنا ہوا ہے اور ان کے پاس ایک فرشتہ بیٹھا ہوا ہے اور ان کے چاروں طرف وہ آگ لکڑیوں کے انبار کو جلا رہی ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) درمیان میں نہایت اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں، یہ دیکھ کر نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آواز دی کہ کیا تم اس آگ سے باہر نکل سکتے ہو جواب دیا کہ ہاں اور کھڑے ہوگئے اور آگ میں چلنے لگے حتی کہ اس سے باہر نکل آئے اور نمرود اور اس کے ارکان دولت نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا استقبال کیا اور یہ کہا کہ اے ابراہیم (علیہ السلام) تیرا سحر (جادو) بہت ہی عجیب ہے جو آگ پر بھی چل گیا۔ نمرود یہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ اس شخص کا مقابلہ ممکن نہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کا پیچھا چھوڑ دیا اس طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کامیاب فرمایا اور دشمنوں کی تمام کوششوں کو ناکام بنایا اور ادھر نمرود کے دماغ میں ایک مچھر گھس گیا جس نے اس کو پاک کیا۔ بقدر ضرورت مختصراً ہم نے یہ قصہ ذکر کردیا باقی آثار کی تفصیل اگر درکار ہے تو تفسیر درمنثور ص 321 ج 4 اور تفسیر روح المعانی ص 61 ج 17۔ اور البدایۃ والنہایۃ ص 145 ج 1۔ اور تفسیر روح البیان ص 468 ج 5 دیکھیں۔ ان میں سے بہت سی روایتیں اسرائیلیات بھی ہیں مگر قرآن و حدیث کے معارض نہیں، اس لیے حسب ارشاد نبوی ﷺ حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرح ان پر انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 4۔ اس طرح آگ کا بردو سلام ہوجانا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ تھا اور یہ امر کوئی نہیں۔ تمام کائنات عالم حق تعالیٰ کے تصرف میں ہے اندرونی طور پر ان پر حکم نافذ کرتا ہے کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو جس طرح ہمارے اعضاء ہمارے احکام سے سرتابی نہیں کرسکتے۔ باطنی طور پر نفس ناطقہ اعضاء کو جو حکم دیتا ہے اس کے مطابق اعضاء حرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح بسائط اور مرکبات اللہ کے اندرونی حکم سرتابی نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے معدہ کے اندر ایک خاص حرارت اور آتشی مادہ رکھا ہے جو کھانے کو ہضم کرتا ہے اور اس کو پکاتا ہے اور گلا دیتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز بھی ویسی نہیں گلتی۔ اور معدہ اس چیز کو ایسا گلا دیتا ہے کہ اس کا نام و نشان بھی نہیں رہتا جیسا کہ بول و براز سے طاہر ہے۔ انسان گوشت، روٹی وغیرہ کھاتا ہے مگر یہ امیتاز نہیں ہوتا کہ یہ فیصلہ کس چیز کا ہے۔ معدہ میں پہنچ کر غذا کی صورت نوعیہ اور صورت شخصیہ سب ختم ہوجاتی ہے اور معدہ کی حرارت بلا کی حرارت ہے گوشت تو کیا ریت اور کنکر بھی وہاں جاکر پس جاتے ہیں۔ جیسا کہ پرندوے پیخال سے ظاہر ہے جن کی غذا کنکر وغیرہ ہے۔ غرض یہ کہ معدہ میں اس بلا کی حرارت ہے کہ سخت سے سخت غذا کو گلا کر اور باریک کرکے نکالتی ہے مگر انتڑیوں اور بدن کے پٹھوں کو نہیں جلاتی، معدہ کی حرارت عجب الخلقت حرارت ہے کہ کسی چیز کو جلاتی ہے اور کسی چیز کو نہیں۔ پس جس خالق آتش نے معدہ کی آگ کو بدن کی انتڑیوں اور بدن کے پٹھوں کو جلانے سے روک دیا اسی خالق نے آتش نمرود کو ابراہیم (علیہ السلام) کے جلانے سے روک دیا۔ بہرحال آگ اللہ کی مخلوق ہے اور اسی کے حکم کے تابع ہے جس کے جلانے کا حکم ہوتا ہے اس کو جلاتی ہے اور جس کی حفاظت کا حکم ہوتا ہے اس کی حفاظت کرتی ہے جیسا کہ آتش معدہ میں آپ نے اس کا مشاہدہ کرلیا۔ حکایت : عارف رومی (رح) نے مثنوی میں ایک حکایت نقل کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بت پرست بادشاہ تھا لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کرتا تھا۔ اس نے ایک آگ جلائی اور اس کے پاس ایک بت رکھا اور کہا کہ جو اس بت کو سجدہ کریگا وہ آگ سے نجات پائے گا اسی اثناء میں ایک بچہ والی عورت لائی گئی اور اس سے کہا گیا اس بت کو سجدہ کر۔ وہ عورت مومنہ تھی اس نے بت کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ اس عورت کی گود میں ایک بچہ تھا وہ اس سے چھین کر آگ میں ڈال دیا گیا کہ شاید عورت اپنے بچے کی جان بچانے کے لئے بت کو سجدہ کرے پھر بھی اس نے سجدہ نہ کیا اور بچہ آگ میں ڈال دیا گیا۔ ماں بیتاب ہوگئی۔ یکایک اس آگ میں سے بچہ نے آواز دی اے ماں تم بھی یہاں آجاؤ یہ تو عشرت کدہ ہے یہاں تو خدا کی رحمت جلوہ گر ہو رہی ہے۔ اندر آکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسرار کا جلوہ دیکھو۔ جنہوں نے نمرود کی آگ میں گلاب اور چنبیلی کے پھول پائے تھے میں تجھے حق مادری کا واسطہ دیتا ہوں اندر آجا یہاں تو شہنشاہ حقیقی کا خوان گرم بچھا ہوا ہے۔ اور اے مسلمانو ! تم سب اندر آجاؤ اور پروا نہ کرو جس طرح ہو اس آگ میں کود پڑو اور ماں اپنے بچہ کا یہ کلام سب کر فوراً آگ میں کو دپڑی اور آگ میں کودنے کے بعد اس عورت نے بھی چلا چلا کر یہی کہنا شروع کیا کہ اسے مسلمانو تم بھی اسی باغ میں آجاؤ یہ سنتے ہی لوگ ذوق و شوق کے ساتھ آگ میں کودنے لگے۔ نوبت باینجارسید کو جو سپاہی پہرہ پر مقرر تھے، وہ لوگوں کو منع کرنے لگے، بادشاہ یہ منظر دیکھ کر پشیمان ہوا اور حیران رہ گیا اور وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کو آگ سے ڈرا کر ایمان سے برگشتہ کرے لیکن تقدیر الٰہی نے اس کی تدبیر کو بالکل الٹ دیا یہ دیکھ کر بادشاہ کو جوش آگیا اور آگ سے خطاب اور عتاب شروع کیا۔ چناچہ عارف رومی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں۔ عتاب کردن جہور آتش را کہ چرانمی سوزی و جواب اور کافر بادشاہ کا آگ کو عتاب کرنا کہ تو کیوں نہیں جلاتی اور آگ کا جواب رو باتش کرو شہ کا ے تندخو آں جہاں سوز طبیعی خوت کو بادشاہ غیظ و غضب میں بھرا ہوا آگ سے مخاطب ہو کر بولا اے تندخو تیری طبعی عادت اور مزاجی خاصیت یعنی جلانے والی خصلت کہاں چلی گئی۔ چوں نمی سوزی چہ شد خاصیت یازبخت ماد گرشد نیست تو جلاتی کیوں نہیں۔ تیری طبیعی خاصیت کہاں چلی گئی یا ہماری بدقسمتی سے تیری نیت یعنی تیری حقیقت اور اصل ماہیت ہی بدل گئی ہے اور کیا تو آگ نہ رہی۔ می نہ بخشائی تو بر آتش پرست آنکہ نہ پر ستد ترا او چوں پرست اے آگ تو تو اپنے پرستش کرنے والوں پر بھی رحم نہیں کرتی۔ پس جو شخص تیری پرستش نہیں کرتا وہ تیرے جلانے سے کیونکر بچ گیا۔ ہرگز ای آتش تو صابر نیستی چوں نسوزی چیست قادر نیستی اے آگ تو کسی حال میں بھی صابر نہیں کہ جلانے سے صبر کرے پھر کیا وجہ ہے کہ تو نہیں جلاتی۔ کیا تو جلانے پر قادر نہیں رہی۔ چشم بنداست اے عجیب یا ہوش بند چوں نسوز اند چنیں شعلہ بلند اے آگ بڑے تعجب کی بات ہے اور عجب قصہ ہے یہ کیا نظر بندی ہے یا ہوش بندی ہے کہ اتنا بلند شعلہ جلاتا کیوں نہیں۔ جادوئے کردت کسے یاسیمی است یا خلاف طبع تواز بخت ما است اے آگ کیا تجھ پر کسی نے جادو کردیا ہے یا کوئی طلسم اور شعبدہ ہے یا ہماری بدقسمتی سے تیرے مقتضائے طبیعت کے خلاف یہ کام ہو رہا ہے۔ جواب دادن آتش بادشاہ جہود را بامر بادشاہ حقیقی بادشاہ حقیقی (حق تعالیٰ ) کے حکم سے بادشاہ مجازی کو آگ کا جواب دینا گفت آتش من ہانم آتشم اندر آتا بی بینی تابشم آگ نے (بحکم خداوندی) جواب دیا کہ میں وہی آگ ہوں۔ میری حقیقت اور ماہیت میں کوئی تغیر نہیں ہوا۔ تو اندر آتا کہ تجھ کو میری تپش نظر آئے اور میری جرات کا مزہ چکھے۔ طبع سن دیگر نگشت وعنصرم تیغ حقم ہم بدستوری برم میری طبیعت اور میری اصل نہیں بدلی۔ میں حق کی تلوار ہوں اسکی اجازت سے کاٹتی ہوں جس طرح تلوار اپنے چلنے اور کاٹنے میں مستقل نہیں بلکہ شمشیرزن کے ارادہ اور اختیار کے تابع ہے اسی طرح میں جلانے میں مستقل نہیں کہ بلاحق تعالیٰ کی اجازت کے کسی کو جلا سکوں۔ بر در خرگہ سگان ترکمان چا پلوسی کردہ پیش مہان تم نے دیکھا ہوگا کہ ترکمان کے دروازہ پر کتا بیٹھا رہتا ہے جب کوئی مہمان آتا ہے تو وہ کتا مہمان کے آگے خوشامد کرنے لگتا ہے اور دم ہلانے لگتا ہے۔ در بخرگہ بگذرد بیگانہ او حملہ بیند از سگاں شیرانہ او اور اگر کتا خیمہ کے پاس سے کوئی بیگانہ آدمی گزرتا ہوا دیکھتا ہے تو شیر کی طرح اس پر حملہ کرتا ہے۔ من زسگ کم نیستم در بندگی کم زتر کی نیست حق در زندگی آگ نے کہا کہ میں بندگی اور فرمانبرداری حی و قوم زندہ ہونے میں ترکی سے کم نہیں۔ دور تک اسی طرح سلسلہ کلام چلا گیا ہے حاصل یہ ہے کہ تمام اسباب اور مسببات بالذات اور بالطبع کسی چیز میں مؤثر نہیں اسباب کے سببیت اور اشیاء کی خاصیت سب اس کے حکم کے تابع ہے۔ لیکن سبب را آں سبب آرود پیش بےسبب کے شد سبب ہرگز زخو یش ایں سبب رآاں سبب عامل کند باز گاہے بےپر دعا طل کند یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ ان اسباب ظاہرہ کو اسی نے سبب بنایا ہے کوئی سبب خودبخود سبب نہیں بن گیا وہ قادر مطلق ہے جس نے سبب بنایا ہے وہ جب چاہتا ہے سبب کو کارگر بناتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کو بےاثر اور بیکار بنا دیتا ہے جس طرح ان اسباب حادثہ کا وجود اس کے اختیار میں ہے اسی طرح ان اسباب کی تاثیر اور ان کی خاصیتیں بھی اس کے اختیار میں ہیں۔ حضرات اہل علم تفصیل کے لیے مثنوی مولا روم ص 70 دفتر اول دیکھیں۔ بادو خاک و آب و آتش بندہ اند بامن و تو مردہ باحق زندہ حق جل شانہ کے اس قول یا نار کونی بردا وسلاما میں یہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ سے خطاب فرمایا کہ تو ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں برف اور سلام ہوجا۔ اور نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو حکم دیا کہ یاجبال اوبی معہ والطیر معلوم ہوا کہ یہ سب چیزیں زندہ ہیں اللہ کے حکم کو سنتی اور سمجھتی ہیں اور اسی پر چلتی ہیں آخر موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا ایک لکڑی ہی تو تھا۔ مگر ہر لکڑی میں یہ خاصیت نہیں کہ وہ اژدہا بن کر سانپوں کو نگل جائے اگر بالفرض والتقدیر عصاء موسیٰ اب کہیں سے مل جائے اور بالفرض والتقدیر کسی طرح یہ بھی معلوم ہوجائے کہ یہ وہی عصا ہے تب بھی وہ آثار نمودار نہ ہوں گے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے تھے۔ لہٰذا عقل کا تقاضا یہ ہے کہ طبیعت اور فطرت اور مادہ اور نیچر کے چکر میں نہ پڑے۔ خدا تعالیٰ نے جو خبر دی ہے اس کو بےچون و چرا مان لے، تم کتنے ہی بڑے فلسفی اور سائنسدان ہوجاؤ۔ پوری حقیقت اور پوری ماہیت نہیں ایک چیز کی بھی معلوم نہیں۔ کچھ ظاہری چیزوں کی شدبد ہوگئی ہے جس نے تم کو مغرور بنا دیا ہے، اللہ تم پر رحم کرے۔ جواب دیگر : اگر یہ تسلیم کرلیا جاے کہ آگ کا طبعی خاصہ جلانے کا ہے تو کیا عقلا یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جسم کی حفاظت کے لیے کوئی ایسا سامان پیدا کردیں کہ آگ اثر نہ کرسکے۔ جیسے آج کل ایسی چیزیں ایجاد ہوئیں ہیں وہ جسم کو آگ کے شعلوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ جن کو فائر پروف کہا جاتا ہے تو کیا خدا کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے خلیل کے جسم کی حفاظت کے لیے کوئی سامان پیدا کر دے۔ محمد بن اسحاق راوی ہیں کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں ڈالے گئے تو جبرئیل امین (علیہ السلام) جنت سے حریر کا ایک قمیص اور ایک فرش لے کر آئے اس قمیص کو تو ابراہیم (علیہ السلام) کو پہنا دیا اور اس فرش کو ان کے نیچے بچھا دیا (دیکھو روح المعانی ص 63 ج 17) تو کیا یہ ممکن نہیں کہ جنت کا یہ حریری قمیص اور حریری فرش اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے محفوظ رکھنے کے لیے فائر پروف کا کام دے سکے۔ 5۔ ایک کرامت : یہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ تھا بعض مرتبہ ق جل شانہ کسی مقبول بندہ کو اپنے نبی کے معجزہ کا کوئی نمونہ عطاء فرما دیتے ہیں۔ جو اس کی کرامت ہوتی ہے اور وہ کرامت جو ولی کے ہاتھ ہوتی ہے وہ کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے معجزہ سے کمتر اور فروتر ہوتی ہے۔ علماء اور اولیاء چونکہ انبیاء کے وارث ہوتے ہیں، اس لیے اتباع شریعت کی برکت سے نبی کے طفیل میں بحق وارثت کبھی کبھی کوئی کرامت عطا ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ خطیب (رح) نے فوائد میں لکھا ہے کہ جو واقعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا اسی قسم کا ایک واقعہ (بطور نمونہ) ہمارے نبی اکرم ﷺ کے بعض متبعین یعنی بعض صحابہ کے ساتھ پیش آیا اور وہ حضرت ابو مسلم خولانی ؓ ہیں کہ اسود عنسی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا۔ تو ابو مسلم ؓ کو بلایا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ جس اللہ کا رسول ہوں آپ نے فرمایا میں نہیں سنتا یعنی میں نہیں گواہی دیتا۔ اس پر اسود عنسی نے حکم دیا کہ آگ جلائی جائے۔ چناچہ آھ جلائی گئی اور اس میں ابو مسلم کو ڈال دیا گیا۔ پھر اس کو خبر دی گئی کہ وہ اس میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ یہ سن کو اسود عنسی خوف زدہ ہوگیا وہ آگ آپ پر بردوسلام بنا دی گئی۔ پھر ابو مسلم ؓ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد مدینہ آئے اور ابوبکر ؓ خلیفہ تھے۔ جب مدینہ پہنچ کر صدیق اکبر ؓ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے تو اس وقت وہاں ابوبکر ؓ کے پہلو میں عمر ؓ بھی بیٹھے تھے۔ ابو مسلم ؓ کو دیکھ کر فاروق اعظم کھڑے ہوگئے اور مرحبا کہہ کر ان کو اپنے اور ابوبکر ؓ کے درمیان بٹھلایا اور کہا کہ الحمد للہ کہ جس نے موت سے پہلے محمد رسول ﷺ کی امت میں ایسا شخص دکھلا دیا جس کے ساتھ وہ معاملہ کیا گیا جو ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا گیا تھا۔
Top