Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 11
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ
وَكَمْ قَصَمْنَا : اور ہم نے کتنی ہلاک کردیں مِنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں كَانَتْ : وہ تھیں ظَالِمَةً : ظالم وَّاَنْشَاْنَا : اور پیدا کیے ہم نے بَعْدَهَا : ان کے بعد قَوْمًا : گروہ۔ لوگ اٰخَرِيْنَ : دوسرے
اور ہم نے بہت سی بستیاں ہلاک کیں کہ وہاں کے رہنے والے ظالم تھے۔ اور اٹھائے ہم نے اس کے بعد دوسرے لوگ
ربط آیات : سورۃ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے محاسبہ اعمال کا ذکر کیا کہ لوگوں کے حساب کتاب کی منزل قریب آچکی ہے۔ مگر یہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ قرب قیامت کا احساس اس وجہ سے ہے کہ اللہ کا آخری نبی اور اس کی آخری کتاب آچکی ہے اور اب قیامت کبریٰ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں۔ جہاں تک انفرادی حساب کتاب کا تعلق ہے تو یہ انسان کی انفرادی موت کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے لہٰذا حساب کتاب کی منزل کا قریب ہونا اس لحاظ سے بھی درست ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں کی خفیہ میٹنگوں کا ذکر کیا کہ وہ اسلام کو ناکام بنانے کی ہر ممکن منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ان کا ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ ہم ایک انسان کو کیسے پیغمبر تسلیم کرلیں۔ اللہ نے ان کے اس نظریہ کا رد فرمایا اور واضح کیا کہ اس سے پہلے تمام انبیاء اور رسل انسانوں میں سے ہی آتے رہے ہیں ، لہٰذا نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کا انسان ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ فرمایا اگر تمہیں اس حقیقت کا علم نہیں ہے تو اہل علم سے تصدیق کرلو۔ تاریخ دانوں سے پوچھ لو ، وہ تمہیں بتائیں گے کہ سابقہ انبیاء بھی واقعی انسان ہی تھے ، کوئی نبی کسی غیر مخلوق سے نہیں آیا ، اور نہ ہی غیر انسان سے کسی انسان کی راہنمائی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ فاسئلوا اھل الذکر سے مفسرین کرام تقلید کا مسئلہ بھی ثابت کرتے ہیں۔ امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک ناواقف آدمی کے لئے ضروری ہے کہ جس چیز کا اسے علم نہ ہو وہ علم والے سے پوچھ کر عمل کرے۔ چونکہ ایک عام آدمی خود اجتہاد نہیں کرسکتا ، لہٰذا اس کے لئے صاحب علم کی تقلید ضروری ہوجاتی ہے۔ اس قسم کی آیات دوسرے مقامات پر بھی موجود ہیں۔ اللہ نے انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق فرمافا کہ ہم نے ان کے اجسام ایسے نہیں بنائے جو کھانا نہ کھاتے ہوں۔ یہ تو فرشتوں کی خاصیت ہے کہ وہ کھانے پینے اور مباشرت کی ضروریات سے پاک ہیں۔ البتہ دیگر انسانوں کی طرح لوازمات بشر یہ نبیوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور وہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آتے۔ اپنی طبعی عمر پوری کرکے باقی انسانوں کی طرح وہ بھی اپنے رب کے پاس چلے جاتے ہیں۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اہل ایمان کے ساتھ کامیابی کا اور نافرمانوں کے ساتھ ناکامی کا جو وعدہ کیا ہے ، اس کو پورا کریں گے۔ درمیان میں اللہ نے بطور نصیحت فرمایا کہ تمہارے لئے ایک ایسی عظیم کتاب نازل کی گئی ہے جس میں تمہارے لئے سراسر نصیحت ہے ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ تمہارے لئے کتنی عزت اور شرف کا مقام ہے کہ اللہ نے تمہاری زبان میں ایک عظیم الشان نصیحت نامہ نازل فرمایا ہے۔ اور تمہیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ نافرمانوں کے لئے انذار : آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کا حال بیان کرکے انذار کیا ہے خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ اگر تم بھی نافرمانی کرو گے تو خدا کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ ارشاد ہوتا ہے وکم قصمنا من قریۃ ہم نے کتنی ہی بستیوں کو پیس ڈالا کانت ظالمۃ جن کے رہنے والے ظالم لوگ تھے۔ ظلم وتعدی اور کیر وشرک کرنے والوں کو ہم نے ہلاک کردیا۔ قصم کا لفظی معنی توڑنا ہوتا ہے۔ یعنی ہم نے ان بستیوں کو توڑ پھوڑ کر چکنا چور کردیا ۔ وانشانا بعدھا قوما اخرین اور اس کے بعد ہم نے دوسرے لوگوں کو ان کی جگہ کھڑا کردیا۔ جب ایک نافرمان قوم کو صفحہ ہستی سے ناپید کیا تو دوسری قوم کو عروج دے دیا۔ قوم نوح کو ہلاک کیا تو ان کی جگہ قوم ہود اور قوم صالح کو کھڑا کردیا۔ پھر جب انہوں نے بھی ظلم وتعدی کا بازار گرم کیا تو انہیں بھی نیست ونابود کردیا گیا اور ان کی جگہ دوسری قومیں برسراقتدار آگئیں۔ فرمایا تم یہ نہ سمجھو کہ تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر تم بھی اپنی قبیح حرکات سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی سابقہ اقوام سے مختلف نہیں ہوگا۔ اللہ نے سابقہ اقوام کے متعلق فرمایا فلما احسوا باسنا جب انہوں نے ہماری گرفت اور عذاب کو محسوس کیا ، یعنی جب ان پر ہمارے عذاب کی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں اذاھم منھا یرکضون تو اچانک وہ ان سے ایڑھی لگا کر بھاگنے لگے ، رکض کا معنی گھوڑے کو ایڑھی لگا کر تیز دوڑانا ہوتا ہے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ عذاب دیکھ کر کرنا فرمانوں نے اس سے بچنے کے لئے گھوڑے کی سی تیزی کے ساتھ ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی ، مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا لا ترکضوا اب مت بھاگو۔ تم بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ اس طرح بھاگنے کی بجائے وارجعوا الی ما اترفتم فیا واپس آئو اس خوشحالی اور آسودگی کی طرف جس میں تم ڈالے گئے تھے۔ اتراف کا معنی خوشحالی ، آسودگی اور تن آسانی ہوتا ہے۔ فرمایا تمہیں ہر قسم کی سہولتیں حاصل تھیں۔ ومسکنکم تم اپنے گھروں اور باغات میں سکونت پذیر تھے۔ اللہ نے تحکماً فرمایا ، اب کدھر جاتے ہو ، جائو اپنی انہی جائیدادوں اور تن آسانیوں کی طرف جن کی وجہ سے اللہ کے نبیوں کی تکذیب کرتے تھے اور اللہ کے سچے پروگرام اور دین کی مخالفت کرتے تھے۔ اب ادھر ہی جائو لعلکم تسئلون تاکہ تم سے پوچھا جائے۔ اللہ نے فرمایا کہ تمہاری ذہنیت کے لوگ پہلے بھی موجود تھے انھم……………مترفین (الواقعۃ 45) اس سے پہلے یہ بھی اسی اتراف یعنی خوشحالی میں مبتلا تھے دنیا کی ہر چیز میسر تھی ۔ مگر آخرت کی فکر نہیں تھی۔ انہوں نے اللہ کی وحدانیت کو تسلیم نہ کیا اور اس کے حکم کی تعمیل نہ کی ، لہٰذا ان پر اللہ کا عذاب آیا اور وہ صفحہ ہستی سے نابود کردیے گئے۔ مفسرین کرام تسئلون کی دو طرح سے تفسیر بیان کرتے ہیں پہلا نقطہ نظریہ ہے کہ مجرمین سے ان کی سزا کے متعلق پوچھا جائے گا ، کہ اب تمہاری کاریں اور کوٹھیاں کہاں گئیں ، تمہارے آرام و آسائش اور لہو ولعب کے سامان کا کیا ہوا ؟ اب یہ چیزیں تمہیں عذاب الٰہی سے کیوں نہیں بچاتیں ؟ استفسار کا دوسرا معنی مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں تم اپنی اپنی قوم کے سردار تھے ، پورا خاندان اور برادری تمہارے ماتحت تھی ، سب تمہارے حکم کے منتظر رہتے تھے۔ تم صاحب رائے تھے اور لوگ تم سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ اب عذاب کو دیکھ کر کہاں بھاگتے ہو ؟ چلو اپنی قوم کے پاس شاید اب بھی وہ تمہارے مشورے کے منتظر ہوں کہ عذاب الٰہی سے کیسے بچاجاسکے۔ اب ان کو مشورہ دو کہ وہ کیا کریں۔ ظالموں کا اعتراف جرم : اس کے جواب میں قالوا ان مجرموں نے کہا جو کہ عذاب میں مبتلا ہوئے یویلنا انا کنا ظلمین ہائے افسوس ! ہائے ہماری بدبختی ، بیشک ہم ظلم کرنے والے تھے ، اس وقت اعتراف کریں گے کہ دنیا میں ہم واقعی ظلم کرتے رہے ، شرک اور کفر میں مبتلا رہے۔ اللہ کے نبیوں سے استزاء کیا ، کتاب الٰہی کا انکار کیا اور اپنی آسودہ حالی میں ہی مگن رہے۔ ہم نے غلط پروگرام کی کامیابی کے لئے سرمایہ اور قوت لگائی ، بیشک ہم ہی ظالم تھے۔ ارشاد خداوندی ہے فما زالت تلک دعوھم ان کی یہ پکار برابر جاری رہی یعنی وہ اعتراف جرم کرتے رہے حتی جعلنھم حصیدا خمدین یہاں تک کہ ہم نے کردیا ان کو کٹا ہوا کھیت اور بجھ جانے والی آگ کی مانند۔ جب کھیت پک کر تیار ہوجاتا ہے تو فصل کاٹ لی جاتی ہے اور باقی کچھ نہیں بچتا ، حصیداً کا یہی معنی ہے۔ اور جب آگ خوب بھڑکنے کے بعد بالکل بجھ جاتی ہے اور اس کی حرارت اور روشنی کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا تو اس کو خمد کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اعتراف جرم کے بعد ہم نے انہیں بالکل نیست ونابود کردیا ، گویا کہ وہ دنیا میں کبھی آئے نہ تھے۔ اس قسم کی بہت سی قوموں کا اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے ، اور بعض کا نہیں کیا کیونکہ اس کا اپنا فرمان ہے۔ ورسلا……… ……علیک (النساء 164) کتنے ہی رسول ہیں جن کا ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا ہے اور ایسے بھی ہیں جن کا ذکر ہم نے نہیں کیا ہے۔ یہ بات اللہ نے تنبیہ اور انذار کے طور پر فرمائی ہے تاکہ نزول قرآن کے زمانے اور بعد میں آنے والے لوگ سابقہ اقوام کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ مقصد تخلیق کائنات : آگے ارشاد ہوتا ہے وما خلقنا السمآء والارض وما بینھما لعبین اور نہیں پیدا کیا ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کھیلتے ہوئے۔ یعنی پوری کائنات اللہ نے محض کھیل تماشے کے لئے پیدا نہیں فرمائی ذلک ظن الذین کفروا (صٓ 27) یہ تو کافروں کا گمان ہے کہ یہ کائنات کھیل تماشہ ہے ۔ ہم نے تو اس کارخانہ حیات اور اسکے تمام مصنوعات کو خاص حکمت کے ساتھ پیدا فرمایا ہے اور اس کی کوئی غرض اور مصلحت ہے جو کہ ظاہر ہونے والی ہے۔ اس کائنات کا آغاز بھی ہے اور اس کا انجام بھی۔ یہ سارا سلسلہ اللہ نے بنی نوع انسان کو بام عروج تک پہنچانے کے لئے قائم کیا ہے۔ اہل ایمان اچھی طرح جانتے ہیں اور کتے ہیں ربنا ما…………… ……النار (آل عمران 191) اے ہمارے پروردگار ! تو نے اس کائنات کو بےسود نہیں پیدا کیا ، اس کی کوئی غرض وغایت ہے اور وہ یہی ہے کہ انسان ترقی کی منازل طے کرے اور خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ جائے۔ لہٰذا ہم درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں دوزخ کی سزا سے بچالے۔ مزید ارشاد خداوندی ہے لواردنا ان نتخذ لھوا لا تخذنہ من لدنا اگر ہم اس کائنات کو کھلونا ہی بنانا چاہتے تو یقینا ہم اسے اپنے پاس بناتے ان کنا فعلین اگر ہم ایسا کرنے والے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اس کائنات کو کھیل تماشہ بنانا ہوتا تو ہم اسے اپنے پاس ہی رکھ لیتے ، اسے مخلوق کے سامنے کیوں رکھتے ؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ پرانے زمانے میں روم اور یونان بڑی متمدن سلطنتیں سمجھی جاتی تھیں وہاں کے لوگ تھیٹروں میں بیٹھے کھیل تماشے میں مصروف رہتے تھے۔ ان کی دل لگی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ زندہ غلاموں کو شیر کے آگے ڈال دیتے تھے۔ شیر ان کو دیکھتے ہی دیکھتے چیر پھاڑ کر کھا جاتے تھے اور بڑے بڑے امراء اس کھیل سے محفوظ ہوتے تھے۔ آج بھی دنیا میں اس قسم کے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ قتل ، اغواء اور ڈکیتی کی وارداتیں سرعام ہورہی ہیں ، بےگناہ لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے اور صاحبان اقتدار اپنی آنکھوں سے تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے کھیل تماشے کے لئے کائنات کو تخلیق نہیں کیا۔ آج دنیا میں جس قدر ظلم و زیادتی ہورہی ہے ، ملک یوم الدین انصاف کے دن کا مالک پروردگار ایک دن ضرور انصاف کرے گا اور کسی ظالم کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ بہرحال فرمایا کہ اگر ہم کائنات کو لہو ولعب کا ذریعہ بناتے تو پھر مخلوق کے سامنے پیش نہ کرتے بلکہ اسے اپنی صفات کے مشاہدے تک ہی محدود رکھتے ۔ حق و باطل کی کشمکش : آگے اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی کشمکش کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے بل نقذف بالحق علی الباطل حقیقت یہ ہے کہ ہم حق کو باطل کے اوپر پھینکتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے فیدمغہ فاذا ھوزاھق پھر حق باطل کے دماغ کو پھوڑا ڈالتا ہے اور اس طرح حق و باطل کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے اور پھر حق کے مقابلے میں باطل پاش پاش ہوجاتا ہے۔ باطل کی کشمکش اور پھر اس کی ناکامی کا ذکر اللہ نے سورة الرعد میں بھی کیا ہے اللہ نے باطل کی مثال سیلاب میں اٹھنے والی جھاگ سے دی ہے کہ وقطی طور پر جھاگ میں بڑا جوش و خروش ہوتا ہے مگر وہ جلدی ہی ختم ہوجاتی ہے ، اور زرخیز مٹی نیچے رہ جاتی ہے۔ اسی طرح جب کسی دھات سونے چاندی وغیرہ کو پگھلایا جاتا ہے تو اس کے اوپر بھی جاگ آجاتی ہے جو جلدی ہی ختم ہوجاتی اور اصل چیز باقی رہ جاتی ہے۔ حق و باطل میں یہی فرق ہے۔ باطل میں وقتی طور پر بڑا جوش ہوتا ہے۔ مگر وہ جلدی ہی مغلوب ہوجاتا ہے اور حق باقی رہتا ہے امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہر انسان میں حق و باطل کی کشمکش ہر جاری رہتی ہے ایک طرف انسان میں موجود ملکیت کا مادہ ہوتا ہے اور دوسری طرف بہیمیت کا ۔ چناچہ حکم یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بہیمیت کو کمزور کیا جائے اور ملکیت کو طاقتور بنایا جائے تاکہ انسان کو ابدی فلاح حاصل ہوجائے۔ اگر اس کے برخلاف بہیمیت کو غلبہ حاصل ہوگیا تو انسان ہمیشہ کے لئے ناکام ہوجائے گا۔ اس دنیا میں حق و باطل ہمیشہ آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں اور پھر نتیجے کے اعتبار سے غلبہ حق کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ باطل دنیا میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا جوش و خروش جھاگ کی طرح ہے جو جلد ہی ختم ہوجاتا ہے ، چناچہ فہم اور انجام کے اعتبار سے بھی حق کو ہی غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ ہم حق کو باطل کے اوپر پھینکتے ہیں ، پھر حق باطل کا سر پھوڑا ڈالتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باطل زائل ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی اللہ نے یہ عام قانون بتلایا ہے وقل ……………زھوقا (بنی اسرائیل 81) اے پیغمبر ﷺ ! آپ کہہ دیں کہ حق آگیا اور باطل چلا گیا ، باطل جانے والی چیز ہی ہے۔ سورة مومن میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی موجود ہے انا للنصر………الاشھاد (آیت 51) نتیجے اور مشن کے اعتبار سے ہم اپنے رسولوں اور اہل ایمان کو ہی غلبہ عطا فرمائیں گے۔ اگرچہ ان پر کڑی آزمائشیں آتی ہیں مگر بالآخر مشن انہی کا کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اس دنیا میں انہیں کامیابی حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی وہی سرخرو ہوتے ہیں۔ فرمایا ولکم الویل مما تصفون اے منکرین ! حق کا مقابلہ کرنے والو ! قرآن کو پریشان خواب کہنے والو ! نبی کو اپنے جیسا انسان کہنے والو ! ہلاکت اور تباہی تمارے مقدر میں ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم کہتے ہو ، خدا تعالیٰ کی توحید کے بارے میں تمہارا نظریہ درست نہیں تم اللہ کے نبیوں کی توہین کرتے ہو۔ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو ماننے کے لئے تیار نہیں ، انہی باتوں کی وجہ سے تمہارے لئے تباہی اور بربادی ہے۔ اللہ نے یہ تنبیہ اور وعید بھی فرمادی ہے۔
Top