Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 183
وَ اُمْلِیْ لَهُمْ١۫ؕ اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ
وَاُمْلِيْ : اور میں ڈھیل دوں گا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ : بیشک كَيْدِيْ : میری خفیہ تدبیر مَتِيْنٌ : پختہ
ہم انہیں ڈھیل دیتے ہیں اور ہماری مخفی تدبیر بڑی ہی مضبوط ہے
قانون امہال ہی اصل میں تدبیر الٰہی ہے جس کو لوگ نہیں سمجھتے : 207: قرآن کریم میں بار بار یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ انتظار کرو عنقریب حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے گا ۔ یہ کیوں فرمایا گیا ؟ اسلئے قانون الٰہی اس طرح ہے کہ ہر باطل عمل فوراََ نابود نہیں ہوتا اور ہر عمل حق فورا فتح مند نہیں ہوتا ۔ ایسا کیوں ہے ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ کی رحمت کا مقتضا یہی ہے کہ ایسا نہ ہو جس رحمت کا مقتضا یہ ہوا کہ مادیات میں تدریج و امہال کا قانون نافذہو اس کی رحمت کا مقتضا یہ ہوا کہ معنویات میں بھی تدریج و امہال کا قانون کام کرے اور عالم مادیات ہو یا معنویات کائنات ہستی کے ہر گوشہ میں قانون فطرت ایک ہی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ دنیا میں کوئی انسانی جماعت اپنی بد عملیوں کے ساتھ مہلت حیات پا سکتی۔ وہ کہتا ہے جس طرح مادیات میں ہر حالت بتدریج نشو ونما پاتی ہے اور ہر نتیجہ کے ظہور کے لئے ایک خاص مقدار ، ایک خاص مدت اور ایک خاص وقت مقرر کردیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح اعمال کے نتائج کے لئے بھی مقدار و اوقات کے احکام مقرر ہیں اور ضروری ہے کہ ہر نتیجہ ایک خاص مدت کے بعد اور ایک خاص مقدار کی نشو و نما کے بعد ظہوار میں آئے پھر اس چیز کو قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے کید سے تعبیر کیا ہے اور کیدی متین کے معنی ہیں ایک نہایت سلجھی ہوئی تدبیر ۔
Top