Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 95
قَالَ مَا مَكَّنِّیْ فِیْهِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ رَدْمًاۙ
قَالَ : اس نے کہا مَا مَكَّنِّيْ : جس پر قدرت دی مجھے فِيْهِ : اس میں رَبِّيْ : میرا رب خَيْرٌ : بہتر فَاَعِيْنُوْنِيْ : پس تم میری مدد کرو بِقُوَّةٍ : قوت سے اَجْعَلْ : میں بنادوں گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان رَدْمًا : مضبوط آڑ
اس نے کہا مجھے میرے رب نے جو قدرت دے رکھی ہے وہ بہت ہے، اس لیے مجھے تمہارے چندے وغیرہ کی تو ضرورت نہیں البتہ تم لوگ محنت سے میری مدد کرو تاکہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنادوں2
139 سدِّ سکندری کی تعمیر اور اہل بدعت کے ایک مغالطے کا جواب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ذو القرنین نے اس کے جواب میں ان لوگوں سے کہا کہ " تم لوگ اپنی محنت اور مشقت کے ذریعے میری مدد کرو "۔ تاکہ میں تمہارے لیے تمہاری طلب اور درخواست کے مطابق ایسی ایک دیوار بنادوں یعنی تم لوگ جسمانی قوت و محنت اور رجال کار کے ذریعے۔ اہل بدعت کے بعض بڑوں نے استعانت بغیر اللہ کے اپنے شرکیہ عقیدے کے لئے اپنی تحریفانہ ذہنیت سے کام لیتے ہوئے اس ارشاد ربانی ۔ { اَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ } ۔ سے استدلال کی ناکام کوشش کی ہے ۔ { فَاَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَکَانٍ بَعِیْدٍ } ۔ چناچہ موصوف اس مقام پر اپنے حواشی تفسیریہ ۔ بلکہ تحریفیہ ۔ میں لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ بندوں سے مانگنا جائز ہے اور یہ ۔ { وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ } ۔ کے خلاف نہیں۔ سو یہ موصوف کی محض ایک خوش فہمی اور مغالطہ انگیزی ہے۔ ورنہ ان سے کوئی پوچھے کہ کیا ذوالقرنین نے اس موقعہ پر مردوں سے یا غیر حاضر ہستیوں سے مدد مانگی تھی ؟ یا اپنے سامنے موجود لوگوں سے ؟ اور ان کو اسباب و وسائل کے درجے میں ایسا کرنے کو کہا تھا ؟ ممنوع و محذور تو وہ استعانت و استمداد ہے جو مافوق الاسباب ہو۔ جیسے مشرک لوگ مردوں وغیرہ سے اور مافوق الاسباب طور پر دوسروں سے مانگتے ہیں نہ کہ اسباب و وسائل کے درجے میں کہ اس کے تو کوئی بھی خلاف نہیں کہ یہ دنیا تو ہے ہی " دارالاسباب "۔ الغرض شرکیہ استمداد جو ظاہری اسباب و وسائل کے بغیر ہو اس سے اس آیت کریمہ کا کوئی تعلق نہیں۔ اور اسباب و وسائل کے درجے میں جس مدد و استمداد کا یہاں ذکر ہے اس کا کسی کو بھی انکار نہیں۔ تو پھر یہ آیت کریمہ تمہارے مشرکانہ عقائد کی دلیل آخر کس طرح بن سکتی ہے ۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔ اس قدر بےباکی سے تم لوگ اللہ کے کلام کی تحریف کرتے ہو اور پھر بھی دعویٰ ہے ایمان و توحید اور عشق رسول ﷺ کا ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ عقیدئہ و کردار کے ہر انحراف اور زیغ وضلال کی ہر قسم اور ہر شکل سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 140 سدِّ سکندری اور اس سے متعلق بعض اہم باتوں کا ذکر : سو ذو القرنین نے ان لوگوں سے کہا کہ " تم میری مدد کرو تاکہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنادوں "۔ جس کو پھلانگ کر یاجوج ماجوج تم تک نہ پہنچ سکیں۔ سو یاجوج ما جوج ایک شرپسند اور غارت گر قسم کی قوم تھی۔ سکندر نے اس دیوار کی تعمیر اور بندش کے ذریعے سے جو کہ انہوں نے ان لوگوں کی اپیل پر تعمیر کی تھی یاجوج ماجوج کی اس یورش اور شر انگیزی کو روک دیا۔ اور ان لوگوں کو یاجوج ماجوج کی ان فتنہ سامانیوں سے محفوظ کردیا۔ رہ گئی یہ بات کہ جغرافیائی حدود کے اعتبار سے یہ قوم اور یہ سدِّ سکندری کہاں واقع ہے ؟ تو اس پر نہ تو آیت قرآنی کی تفسیر موقوف ہے اور نہ ہی دین متین کا کوئی بنیادی عقیدہ اور ضروری مسئلہ۔ اگر ایسے ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور بیان فرما دیتا۔ اس لئے صحت و سلامتی کی راہ یہی ہے کہ " اَبْہِمُوْا مَا اَبْہَمَہُ اللّٰہُ " کے کلیہ کے مطابق اس کو ایسے مبہم ہی رہنے دیا جائے اور خواہ مخواہ کے قیاسات اور ظنون کی بناء پر قائم کردہ کسی رائے کو آیات قرآنیہ کے قطعی مصداق کا درجہ اور یقینی محمل نہ قرار دیا جائے۔ اسی لئے جن لوگوں نے تاتاری فتنہ کو اس کا مصداق قرار دیا صاحب روح المعانی نے ان کو گمراہی کا مرتکب قرار دیا اور فرمایا کہ یہ نصوص حدیث کی مخالفت ہے۔ البتہ اگر تاتاری فتنہ کو یاجوج ماجوج کے فتنے کے مشابہ قرار دیا جائے تو یہ درست ہے۔ اور صاحب روح المعانی نے بھی اس احتمال و اعتبار کو درست مانا ہے۔ اسی طرح جن لوگوں نے موجودہ روس اور چین کو یاجوج ماجوج کا مصداق قرار دیا تو اگر ان کی مراد یہ ہے کہ یہ فتنہ یاجوج و ماجوج کے مشابہ یا اس کے ایک نمونے کے طور پر ہے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ اور اس کی تغلیط کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر اس سے ان لوگوں کی مراد یہ ہے کہ یہ اسی فتنہ یا جوج و ماجوج کا مصداق ہے جس کی خبر نصوص قرآن و سنت میں علامت قیامت کے طور پر دی گئی ہے تو یہ بالکل غلط اور گمراہانہ بات ہے جس سے نصوص قرآن و سنت کا انکار لازم آتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ کیونکہ صحیح احادیث کی رو سے یاجوج ماجوج کا یہ خروج حضرت عیسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) کے نزول کے بعد اور ان ہی کے زمانے میں ہوگا۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) کا نزول ابھی تک نہیں ہوا۔ بلکہ وہ قیامت کے قریب ہوگا اور خدا ہی جانے وہ وقت کب آئے گا۔ اسی طرح سدِّ سکندری کے بارے میں بھی قطعیت اور یقین کے ساتھ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ کہاں واقع ہے ؟ اور یہ کہ کیا وہ باقی ہے یا نہیں ؟ بعید نہیں کہ وہ پہاڑیوں وغیرہ کے گرنے اور باہم مل جانے کی وجہ سے کسی پہاڑی کی شکل اختیار کرچکی ہو اور کوئی صریح اور قطعی قسم کی نص ایسی موجود نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ وہ دیوار قیامت تک جوں کی توں باقی رہے گی۔ اس کے تاقیام قیامت باقی رہنے پر بڑا استدلال اس ارشاد ربانی سے کیا جاتا ہے ۔ { فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ رِبِّیْ جَعَلَہ دَکًّا } ۔ اور بنیاد اس استدلال کی یہ ہے کہ یہاں پر { وَعْدُ رَبِّی } سے مراد قیامت ہے۔ حالانکہ یہ الفاظ کریمہ اس بارے میں قطعی نہیں۔ بلکہ اس کا صاف اور واضح مفہوم یہ ہے کہ سدِّ سکندر کی یہ روک ضروری نہیں کہ قیامت تک ایسے ہی باقی رہے۔ بلکہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ جب چاہیں گے اور ان کے علم میں اس کا جو بھی وقت مقرر ہوگا وہ جب آپہنچے گا تو یہ دیوار مہندم ہوجائے گی۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ یہ بالکل قرب قیامت کے متصل ہو۔ چناچہ تفسیر بحرمحیط میں لکھا ہے " وَالْوَعْدُ یَحْتَمِلُ اَنْ یُّرَادَ بِہٖ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ وَاَنْ یُّرَادَ بِہٖ وَقْتُ خُرُوْجِ یَاجُوْجَ وَمَأْجُوْج " (بحوالہ معارف القرآن) ۔ دوسرا استدلال اس سلسلے میں مسند احمد (رح) و ترمذی (رح) کی اس حدیث سے کیا جاتا ہے جس میں مذکور ہے کہ یاجوج ماجوج اس دیوار کو کھودتے رہتے ہیں مگر " انشاء اللہ " نہ کہنے کی وجہ سے دوسرے روز وہ ویسے ہی ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ " انشاء اللہ " کہیں گے تو دوسرے روز اس کو پار کرلیں گے۔ (ملخص) ۔ مگر اول تو محققین کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے۔ ابن کثیر نے اس کو " معلول " قرار دیا ہے۔ اور دوسرے اس میں بھی اس امر کی کوئی تصریح نہیں کہ جس روز وہ " انشاء اللہ " کی برکت سے اس کو پار کرلیں گے وہ قیام قیامت کے متصل ہی ہوگا۔ نیز اس میں اس کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ وہ سب کے سب اسی دیوار کے پیچھے رکے رہیں گے۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان کی کچھ جماعتیں اور قومیں اس سے پہلے ہی نکل آئیں۔ سو خلاصہ بحث وبیان یہ ہوا کہ اول تو سدِّ سکندری کی پوری تحدید و تعیین مشکل امر ہے کہ اس طرح کی کئی دیواروں کا ذکر وبیان تاریخ و سیر کی کتابوں میں ملتا ہے۔ دوسرے نصوص قرآن و سنت سے اس کی بھی کوئی صاف وصریح دلیل نہیں ملتی کہ وہ قیامت تک باقی رہے گی۔ نیز یہ کہ یاجوج ماجوج کا وہ انتہائی خوفناک اور تباہ کن خروج اور حملہ جو انسانی آبادی کو تباہ و برباد کر دے گا وہ تو یقیناً قیامت کے قریب اور اس کے متصل ہی ہوگا جیسا کہ نصوص و روایات حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے۔ لیکن اس کے چھوٹے اور ابتدائی نوعیت کے نمونے اس سے پہلے بھی ظہور پذیر ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ فتنہ تاتار وغیرہ اور سدِّ سکندری کے ٹوٹنے اور اس کے ختم ہوجانے یا قیام قیامت تک اس کے باقی و برقرار رہنے کے بارے میں قطعیت اور یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دونوں احتمال موجود ہیں۔ (روح، معارف، مراغی، جامع، محاسن وغیرہ) ۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ تعالیٰ وَھُوَ اَعْلَمْ بِمُرَادِ کَلَامِہٖ جَلّ وعَلَا ۔ مزید تفصیل انشاء اللہ اپنی مفصل تفسیر میں اگر قدرت کو منظور ہوا اور اس کا موقع مل سکا ۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِِّقُ وَھُوَا الْمُسُتعَانُ فی کل حین وآن -
Top