Al-Qurtubi - Al-Kahf : 95
قَالَ مَا مَكَّنِّیْ فِیْهِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ رَدْمًاۙ
قَالَ : اس نے کہا مَا مَكَّنِّيْ : جس پر قدرت دی مجھے فِيْهِ : اس میں رَبِّيْ : میرا رب خَيْرٌ : بہتر فَاَعِيْنُوْنِيْ : پس تم میری مدد کرو بِقُوَّةٍ : قوت سے اَجْعَلْ : میں بنادوں گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان رَدْمًا : مضبوط آڑ
(ذوالقرنین نے) کہا کہ خرچ کا جو مقدور خدا نے مجھے بخشا ہے وہ بہت اچھا ہے تم مجھے قوت (بازو) سے مدد دو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط اوٹ بنادوں گا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قال ما مکنی فیہ ربی خیر اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قال ما مکنی فیہ ربی خیر یہ ذوالقرنین نے ان لوگوں کو کہا : جو اللہ تعالیٰ نے مجھے قدرت اور ملک عطا فرمایا وہ تمہارے خراج اور مال سے بہتر ہے لیکن تم بدنی قوت سے میری مدد کرو، یعنی مردوں کے ساتھ اور ببدنی عمل کے ساتھ اور اس آلہ کے ساتھ میری مدد کرو جس کے ساتھ میں وہ دیوار تیار کروں۔ اس کلام میں ذی القرنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید ہے کیونکہ اگر لوگ خراج جمع کرتے تو کوئی اس کی مدد نہ کرتا اور وہ دیوار کی تعمیر اس کے سپرد کردیتے اور ان کا اپنے جسموں سے مدد کرنا اس عمل کو جلدی مکمل کر کے اور خوبصورت بنانے کا باعث تھا اور جو انہوں نے اس کے یے ذکر کیا وہ خراج سے زیادہ تھا۔ ابن کثیر نے مامکننی، دونوں کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی قراء نے مامکنی فیہ ربی پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 اس آیت میں دلیل ہے کہ بادشاہ پر فرض ہے کہ وہ اپنی رعیت کی حفاظت کرے اور ان کی ضروریات کو پورا کرے اور ان کی سرحدوں کی اصلاح کرے، ان کے مال سے جو ان پر لازم کیے گئے ہیں اور ان حقوق سے جو اس کے ذریعے ان کے خزانہ میں جمع ہیں حتیٰ کہ اگر حقوق اس خزانہ کو ختم بھی کردیں اور ضروریات اسے صفر تک پہنچا دیں تو ان کے اموال سے جبراً ٹیکس لیا جائے گا اور بادشاہ پر ضروری ہے کہ وہ رعیت کے بارے میں عمدہ اور بہتر انداز میں غورو فکر کرے۔ یہ تین شروط کے ساتھ ہے (i) وہ کسی چیز کے ساتھ اپنے آپ کو ترجیح نہ دے (ii) پہلے اس مال سے حاجت مندوں پر خرچ کرے اور ان کی مدد کرے (iii) ہر ایک کو اس کی قدرو منزلت کے مطابق عطا کرے۔ اس کے بعد اگر مال ختم ہوجائے اور خزانہ خالی ہوجائے اور حوادثات ظاہر ہوں تو بادشاہ لوگوں کو اموال کے خرچ کرنے سے پہلے اپنے جسموں کو پیش کرنے کے لیے کہے اگر جسمانی طاقت سے کام نہ چلے تو پھر تدبیر کے تصرف و تقدیر پر ان سے اموال لیے جائیں گے۔ جب ذوالقرنین پر ان لوگوں نے مال پیش کیا تاکہ وہ ان سے یاجوج وماجوج کی زیادتی کو روکے تو اس نے کہا : مجھے مال کی ضرورت نہیں مجھے تمہاری افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ فاعینونی بقوۃ یعنی میرے ساتھ تم جسمانی خدمت بجا لائو۔ اموال میرے پاس ہیں اور جسمانی قوت تمہارے پاس ہے۔ اس نے دیکھا کہ ان کے مال مفید نہیں کیونکہ ان کے اموال کو اجرت کے طور پر لے گا تو جس کام کی ضرورت ہے وہ اس سے کم ہیں، پھر ان پر اجر لوٹے گا، پس بدنی خدمت خود اپنی طرف سے پیش کرنا بہتر ہے۔ ضابطہ یہ ہے کہ کسی سے کام لینا حلال نہیں مگر ضرورت کے لیے جو لاحق ہوتی ہے اس سے وہ مال جبراً لیا جائے گا خفیۃً نہیں اور مال وہ عدل کے ساتھ خرچ کرے گا، ترجیحات کے اعتببار سے نہیں، جماعت کی رائے سے خرچ کرے گا نہ کہ اپنی مرضی سے۔ اللہ تعالیٰ درست سمت کی توفیق دینے والا ہے۔
Top