Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 15
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَسْتَهْزِئُ : مذاق کرے گا / مذاق کرتا ہے بِهِمْ : ساتھ ان کے وَ : اور يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دے رہا ہے ان کو فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں يَعْمَھُوْنَ : وہ بھٹک رہے ہیں/ اندھے بنے پھرتے ہیں
حالانکہ مذاق (حقیقت میں) اللہ کی طرف سے خود ان کا اڑایا جارہا ہے وہ (اپنے حلم اور کرم بےپایاں سے) ان کی رسی دراز کیے جارہا ہے، جس سے یہ لوگ اپنی سرکشی میں (پڑے) بھٹک رہے ہیں2
37 برائی کا بدلہ برا ۔ والعیاذ باللہ : سو خبث باطن اور سوء نیت کا نتیجہ و انجام بہرحال برا ہوتا ہے۔ سو اللہ پاک کی ڈھیل سے ان کو دھوکہ لگتا ہے اور یہ اور مست ہوجاتے ہیں، اور اس سے ان کی محرومی اور بڑھتی جاتی ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ یعنی وہ ان کو جو ڈھیل دے رہا ہے، اور اپنے رحم و کرم کا جو معاملہ وہ ان سے فرما رہا ہے اس سے یہ نامراد اور دلیر ہوتے ہیں، اور اپنی سرکشی میں بڑھتے چلے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ اس دائمی عذاب میں گرفتار ہوں گے جس سے نکلنے کی پھر کوئی صورت ان کیلئے ممکن نہ ہوگی، اور اس طرح ان کو اپنے اس مذاق کے سنگین نتائج بہرحال بھگتنا ہوں گے، یہاں پر عربی زبان کی مشہور صنعت جس کو " صنعت مشاکلہ " کہا جاتا ہے، کی بناء پر اس کو بھی استہزاء کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے، جیسا کہ ۔ { وَجَزَائُ سَیَّئَۃٍ سَیَّئَۃٌ مِّثْلَہَا } ۔ وغیرہ مثالوں میں پایا جاتا ہے، ورنہ مذاق و استہزا وغیرہ کے جو مشہور معانی ہیں، وہ تو اللہ تعالیٰ میں نہیں پائے جاسکتے کہ وہ ذات اقدس و اعلی اس طرح کے تمام تصورات سے پاک اور وراء الوراء ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ ہم نے اپنے ترجمہ میں اسی فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، وباللہ التوفیق۔ سو جب انسان کا باطن صحیح اور اس کی نیت درست نہ ہو تو اس کا معاملہ اور بگڑتا جاتا ہے۔ پس خبث باطن اور سوء نیت کا نتیجہ و انجام بہت برا ہے کہ اس کی بنا پر انسان محروم سے محروم تر ہوتا جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 38 اللہ تعالیٰ کے حلم و کرم کا ایک مظہر : یعنی وہ رب حلیم و کریم اپنے حلم و کرم کی بناء پر ان کو ڈھیل دیئے جارہا ہے، تاکہ جس نے باز آنا ہو وہ باز آجائے اور جس نے نہ آنا ہو وہ اپنا پیمانہ بھر لے، تاکہ پورا بھگتان بھگتنے کے لئے تیار ہوجائے، اور کل یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے مہلت کیوں نہ دی گئی۔ بہرکیف اس کی طرف سے کرم ہی کرم، اور احسان ہی احسان ہے، آگے انسان کی اپنی کج فکری اور غلط روی ہے کہ وہ اس کو الٹا اپنی گمراہی میں اضافے کا باعث بناتا ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ ـ بہرکیف اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دیئے جاتا ہے، اور ان کو فوراً نہیں پکڑتا اور یہ صرف اسی وحدہ لاشریک کی شان ہے کہ سرکشوں کو اس طرح ڈھیل پر ڈھیل دیئے جاتا ہے، اتنا ظرف اور اس قدر برداشت اس کے سوا اور کسی کے لیے ممکن ہی نہیں۔ سو اس کے امہال سے کبھی کسی کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی کوئی پرسش اور پوچھ ہوگی ہی نہیں کیونکہ وہ رب حلیم و غفور جب پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ بھی بہت سخت ہوتی ہے۔ جیسا کہ مختلف نصوص کریمہ میں اس کی طرح طرح سے وضاحت فرمائی گئی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم من غضب الجبار و عقابہ ۔ بہرکیف اس سے اس وحدہ لا شریک کے کرم لا محدود اور حلم بےمثال کا ایک نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top