Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پھر بدل ڈالا الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا قَوْلًا : بات غَيْرَ الَّذِیْ : دوسری وہ جو کہ قِیْلَ لَهُمْ : کہی گئی انہیں فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا عَلَى : پر الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا رِجْزًا :عذاب مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : کیونکہ کَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
مگر بدل دیا ان ظالموں نے اس کو ایک اور ہی بات سے، اس کے خلاف جو کہی گئی تھی، جس کے نتیجے میں ہم نے اتارا ان ظالموں پر ایک بڑا ہی سخت (اور ہولناک) عذاب آسمان سے، ان کی ان نافرمانیوں (اور حکم عدولیوں) کی بنا پر جو کہ یہ لوگ کرتے چلے آرہے تھے2
171 بنی اسرائیل کی ایک اور گستاخی اور باغیانہ جسارت : یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ اور جو کچھ ان سے کہا گیا تھا اس کو بجا نہ لائے۔ اس خلاف ورزی اور حکم عدولی کو یہاں پر تبدیل سے تعبیر فرمایا گیا۔ جیسا کہ سورة فتح کی پندرھویں آیت کریمہ میں تبدیل کا لفظ اسی معنی کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے۔ یہ حضرات مفسرین کرام کا ایک قول ہے۔ جیسا کہ تفسیر المراغی اور تفسیر القاسمی وغیرہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے قول کے مطابق لفظ تبدیل یہاں پر اپنے مشہور و معروف اور متبادر معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے۔ یعنی یہ کہ ان ظالموں نے اپنے رب کی طرف سے تعلیم فرمودہ لفظ " حطۃ " کو جو کہ خود انہی کے بھلے اور فائدے کیلئے تھا، بدل دیا۔ اور اس کی بجائے انہوں نے اپنی طرف سے دوسرے الفاظ تجویز کر لئے مثلا یہ کہ " حِطَّۃٌ " کی بجائے " حَبَّۃٌ فِیْ شَعْرَۃٍ " یا " حِنْطَۃٌ فِیْ شَعِیْرَۃٍ " وغیرہ کہا (فتح القدیر، صفوہ وغیرہ) ۔ سو دین کے تعلیم فرمودہ کلمات کو بدلنا ایک ہولناک جسارت ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ خداوند قدوس کی طرف سے تعلیم و تلقین فرمائے گئے کلمات کریمہ میں جو معنویت اور جو جامعیت اور خیر و برکت پائی جاسکتی ہے وہ کسی انسان کے تجویز کردہ کلمات میں آخر کہاں اور کیسے پائی جاسکتی ہے ؟ اس لیے اس وحدہ لاشریک کے تعلیم فرمودہ کلمات کریمہ کی پابندی میں ہر طرح کی خیر و برکت ہے سو خیر سب کی سب اتباع میں ہے اور شر ابتداع میں ۔ اللہ تعالیٰ ابتداع کی ہر شکل سے محفوظ رکھے۔ 172 ِاللہ کے قول کو بدلنے کی بنا پر یہودیوں کیلئے ایک سخت عذاب : سو حکم خداوندی کی تبدیلی کی جسارت پر ان بنی اسرائیل کیلئے آسمان سے ایک سخت اور نہایت ہولناک عذاب نازل کیا گیا۔ قرآن حکیم نے اس کی تصریح نہیں فرمائی کہ یہ عذاب کیا تھا جو ان بدبختوں پر نازل ہوا۔ مگر ایک تو رجزاً کی تنوین سے جو کہ " تفخیم " کیلئے ہے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی بڑا ہولناک اور سنگین عذاب تھا۔ اور رجز کے معنی ہی محققین کے نزدیک اشد العذاب کے ہیں، سو اسی کو ظاہر کرنے کیلئے ہم نے ترجمہ کے اندر بین القوسین " اور ہولناک " کا اضافہ کیا ہے۔ اور دوسری بات اس عذاب کے متعلق اس آیت کریمہ میں یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ وہ ۔ { مِنَ السَّمَآئ } ۔ یعنی اوپر آسمان کی طرف سے تھا جس کو ٹال دینا یا روک دینا کسی کے بس میں نہ تھا۔ مگر اس سے آگے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہ عذاب تھا کس طرح کا۔ البتہ تفسیری روایات کے مطابق وہ طاعون کا عذاب تھا جس سے ستر ہزار بنی اسرائیلی آناً فاناً لقمہء اجل بن گئے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ ۔ اور حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ طاعون ایک مرض تھا جس کے ذریعے تم سے پہلے کی امتوں کو عذاب دیا جاتا تھا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 173 برے اعمال کی کچھ سزا دنیا میں بھی : سو اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ بداعمالیوں کی کچھ سزا بطور نقد اس دنیا میں بھی ملتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جبکہ پوری سزا آخرت کے اس ابدی جہاں ہی میں ملیگی جو کہ " دار الجزا " ہے جبکہ دنیا " دار الجزا " نہیں " دار العمل " ہے۔ بہرکیف اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے، مگر یہ پوری سزا نہیں ہوتی، بلکہ اسی قدر ملتی ہے جس قدر کہ حضرت حق جل مجدہ کی حکمت اور اس کی مشیت کا تقاضا ہوتا ہے۔ رہی اعمال کی پوری سزا و جزاء تو وہ آخرت ہی میں ملے گی، جس کی دوسری متعدد نصوص میں تصریح فرمائی گئی ہے۔ مثلًا سورة آل عمران کی پچیسویں آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے { وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّاکَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ } ۔ " اور قیامت کے اس روز میں ہر شخص کو اس کی کمائی کا بھرپور بدلہ دیا جائے گا، اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا) اس کے علاوہ دیگر متعدد آیات کریمہ میں بھی اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ مثلًا سورة بقرہ آیت 272 ، 281 ، سورة آل عمران آیت نمبر 70 ، 161 ، سورة ھود آیت 15 و نمبر 1 1 1 ، النور 25 ، فاطر 30 الزمر 70 اور الاحقاف 19 وغیرہ وغیرہ۔ سو ان تمام آیات کریمہ میں اس امر کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ اعمال کا پورا پورا بدلہ آخرت ہی میں ملے گا، اور اس کی بنیادی طور پر دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ یہ دنیا دراصل " دارالجزائ " نہیں " دارالعمل " ہے۔ " دارالجزائ " کا مرحلہ اس دنیا کے خاتمے کے بعد اس جہان ہی میں آئے گا جو کہ آخرت کا اور بدلہ و جزاء کا جہان ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی محدودیت کی بناء پر اس قابل ہے ہی نہیں کہ اس میں اعمال کا پورا بدلہ مل سکے، اس لئے اعمال کی پوری سزا و جزاء تو اگرچہ آخرت ہی میں ملے گی لیکن ان کا کچھ نہ کچھ صلہ و بدلہ انسان کو اس دنیا میں بھی ملتا ہے، جیسا کہ یہاں پر اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے اور اس کے علاوہ دوسری بہت سی نصوص کریمہ میں بھی اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ مزید تفصیل انشاء اللہ کسی دوسرے مناسب موقع و محل پر۔ وَالتَّوْفِیْقُ بِیَد اللّٰہ ۔ سُبْحَانِہٗ وَتَعَالٰی -
Top