Tafseer-e-Madani - An-Naml : 8
فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَا١ؕ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَهَا : اس ( آگ) کے پاس آیا نُوْدِيَ : ندا دی گئی اَنْۢ بُوْرِكَ : کہ برکت دیا گیا مَنْ : جو فِي النَّارِ : آگ میں وَمَنْ : اور جو حَوْلَهَا : اس کے آس پاس وَسُبْحٰنَ : اور پاک اللّٰهِ : اللہ رَبِّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں
پھر جب موسیٰ وہاں پہنچے تو انھیں ایک آواز آئی کہ برکت ہو ان پر بھی جو اس آگ کے اندر ہیں اور اس پر بھی جو اس کے آس پاس ہے اور یہ نور ذات خداوندی نہیں کہ اللہ جو پروردگار ہے سب جہانوں کا پاک ہے ہر حد بندی سے1
8 حضرت موسیٰ کیلئے صدائے خیر و برکت : یعنی حضرت موسیٰ جب وہاں پہنچے تو انکو آواز آئی کہ " برکت ہو اس پر جو آگ کے اندر ہے اور اس پر بھی جو آگ کے پاس ہے "۔ " جو آگ کے اندر ہے "، یعنی فرشتے۔ اور " جو آگ کے پاس ہے " یعنی موسیٰ ۔ اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت ہو بہرحال یہ امر قطعی ہے کہ اللہ پاک کی ذات بےہمتا جس کے نور مطلق کی یہ ایک تجلی تھی وہ خود اس میں نہیں تھی کہ وہ بےمثال ذات ایسی تمام حدود وقیود سے پاک اور وراء الوراء ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اسی لئے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا گیا ۔ { وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } ۔ یعنی اللہ اس سے پاک ہے کہ کوئی مخلوق یا کوئی زمان و مکان اس کا احاطہ کرسکے۔ (المراغی، المحاسن، جلالین، مدارک اور خازن وغیرہ) ۔ بہرکیف وہاں پہنچنے پر حضرت موسیٰ کو اس صدائے خیر و برکت سے نوازا گیا اور شرف نبوت سے مشرف و سرفراز فرمایا گیا۔ سو اس سے یہ امر واضح فرما دیا گیا کہ شرف نبوت خالصتاً خداوند قدوس کا ایک عطیہ اور احسان ہوتا ہے۔ اس میں بندے کے کسی کسب و عمل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ بلکہ نبوت سے پہلے پیغمبر کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اس قصہ سے آشکارا وعیاں ہے۔
Top