Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 138
هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ
ھٰذَا : یہ بَيَانٌ : بیان لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَھُدًى : اور ہدایت وَّمَوْعِظَةٌ : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور سراسر ہدایت، اور ایک (بےمثل و) عظیم الشان نصیحت، پرہیزگاروں کے لئے
277 قرآن حکیم ایک عظیم الشان اور بےمثل بیان : " ھذا " کا مشارالیہ قرآن حکیم ہے۔ اور تنوین تعظیم کی ہے۔ سو قرآن حکیم حق اور حقیقت کی تفہیم و توضیح کیلئے ایک ایسا عظیم الشان اور کافی و شافی بیان ہے، جس کی دوسری کوئی نظیر و مثال نہ اس سے پہلے کبھی کہیں پائی گئی اور نہ آئندہ قیامت تک کبھی پائی جاسکے گی۔ اور دوسرا قول و احتمال اس میں یہ ہے کہ اس کا مشارالیہ وہ مضمون ہے جو کہ بیان ماسبق سے مفہوم ہو رہا ہے۔ حضرات اہل علم سے یہ دونوں ہی قول مروی و منقول ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک درست اور اپنے طور پر وجیہ ہے۔ اور ان میں سے پہلے کو ابن جریر نے اختیار کیا ہے (صفوۃ، محاسن، اور معارف وغیرہ) ۔ بہرکیف حق و حقیقت کی تبیین و توضیح کیلئے قرآن حکیم ایک عظیم الشان اور بےمثال بیان ہے ۔ فالحمد للہ جل وعلا - 278 قرآن حکیم سراسر ہدایت : یعنی یہاں پر " ہادی " نہیں " ھدی " فرمایا گیا ہے، جو کہ مصدر ہے۔ اس لئے ہم نے اس کا ترجمہ " ھدایت دینے والا " یا " رہنمائی کرنے والا " نہیں کیا۔ جیسا کہ عام طور پر کیا جاتا ہے، بلکہ اس کے مصدری معنیٰ کی وضاحت کے لئے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ یعنی " سراسر ہدایت " یا اس سے ملتے جلتے کچھ دوسرے الفاظ سے کیا جائے۔ اور حق اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ کتاب حکیم سراسر ھدایت، نری ہدایت اور عین ہدایت ہے۔ اس کو جس اعتبار سے اور جس پہلو سے بھی دیکھا جائے اور اس میں غور کیا جائے، اس سے ہدایت ہی ہدایت اور رہنمائی ہی رہنمائی ملے گی۔ اور جس طرح کہ ایک اندھا بہرا شخص اپنا ہاتھ اپنے کسی نہایت قریبی اور قابل اعتماد عزیز کے ہاتھ میں دے کر مطمئن ہوجاتا ہے کہ اب مجھے کوئی خطرہ اور پرواہ نہیں، یہ مجھے صحیح راستے پر ہی لے جائے گا، اسی طرح جو کوئی اپنی زمام اختیار اس کتاب حکیم کے حوالے کر دے گا، یہ اس کو امن و سلامتی کی اس عظیم الشان راہ پر لے کر چلے گی، جو دنیا و آخرت کی سعادت و کامرانی اور فوز و فلاح سے ہمکنار کرنے والی راہ ہے ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ عَلٰی مَا شَرَّفَنَا بِہ مِنْ ہٰذَا الْکِتَاب الْعَزِیْز الْحَکِیْم الْمُبَارَک الْمُبِیْن وَبِالْاِیْمَان بِہٖ ۔ اللّٰھُمَّ فَزِدْنَا اِیْمَانًا بِہٖ وَصِدْقًا وَیَقِیْنًا وَتَوْفِیْقًا لِخِدِْمَتِہٖ وَالتَّمسُّک بِتَعاِلیْمِہٖ ۔ آمین ثم آمین۔ پس جو لوگ اس کتاب مبین کے نور سے محروم ہیں وہ سراسر اندھیروں میں ہیں نہ وہ اپنی زندگی کے مقصد سے واقف ہیں اور نہ صراط مستقیم سے آگاہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 279 ایک عظیم الشان نصیحت : ایسی عظیم الشان و بےمثل نصیحت، جس میں کسی خطاء و تقصیر کا کوئی خدشہ و امکان نہیں۔ جو دنیا کی اس عارضی وفانی زندگی کے علاوہ آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی میں بھی حقیقی کامیابی سے ہمکنار کرنے والی ہے، اور جس جیسی دوسری کوئی نصیحت و موعظت نہ کبھی کوئی ہوئی ہے، اور نہ قیامت تک کبھی ممکن ہے۔ پس اس عظیم الشان نصیحت کو صدق دل سے اپنانا دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرنا ہے اور اس سے اعراض و روگردانی دارین کی ہلاکت و تباہی کی راہ کو اپنانا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ اعراض و روگردانی کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 280 ہدایت قرآنی سے سرفرازی کے لیے اولین شرط تقویٰ و پرہیزگاری : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ہدایت قرآنی سے استفادہ کیلئے اولین شرط تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ کہ اس سے فائدہ ایسے ہی خوش نصیبوں اور سعادت مندوں کو حاصل ہوگا۔ ورنہ اس کی ہدایت تو سب دنیا جہاں کیلئے عام ہے۔ مگر جو بدنصیب اس کی طرف توجہ ہی نہ کریں، اور اس سے منہ ہی موڑے رہیں، وہ اس سے کیونکر مستفید و فیضیاب ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { اَنُلْزِمُکُمُوْہَا وَاَنْتُمْ لَہَا کَارِہُوْنَ } (ہود۔ 28) یعنی " کیا ہم اس نصیحت کو تمہارے سرمڑھ دینگے اگرچہ تم اس کو ناپسند سمجھتے رہو ؟ " یعنی ایسا نہیں ہونے کا۔ ہدایت کی یہ عظیم الشان اور انمول دولت، سب سے بڑی اور عظیم الشان دولت ہونے کے باوجود، ہے تو اس واہب مطلق ۔ جل جلالہ ۔ کی طرف سے مفت ہی بٹنے کے لئے، مگر اس سے سرفراز و بہرہ ور ہونے کے لئے اولین شرط ہے طلب صادق۔ پس جو لوگ اس کے سچے دل سے طالب نہیں ہوں گے، وہ اس سے سرفراز نہیں ہو سکیں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو انسان کے صلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے۔
Top