Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جونہی ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو آپ ﷺ کی قوم کے لوگ اس سے چلا اٹھے2
78 منکرین کی شرانگیزی کا ایک نمونہ و مظہر : روایات میں وارد ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ { اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وَارِدُوْنَ } ۔ (الانبیائ : 98) یعنی " تم بھی اور تمہارے وہ سب معبود بھی جن کی پوجا پاٹ تم لوگ کرتے ہو سب دوزخ کا ایندھن ہو۔ تم سب کو اس میں گرنا ہوگا تو اس پر کفار قریش میں سے عبد اللہ بن الزبعری نام کے ایک شخص نے کہا کہ اچھا تو پھر عیسیٰ بن مریم کے بارے میں آپ لوگوں کا کیا خیال ہے ؟ کہ ان کی بھی تو پوجا کی گئی ہے۔ اگر ہمارے معبودوں کے ساتھ وہ بھی دوزخ میں چلے گئے تو یہ ہمارے لئے کوئی پریشانی کی بات نہیں کہ آخر ہمارے معبود ان سے بڑھ کر تو نہیں۔ اس پر کفار قریش نے زور دار قہقہہ لگایا اور ایک شور مچا واہ واہ کیا کہ کیا کہنے ! ! کیسا تیر مارا ! ! کیا لاجواب بات کہی ! ! وغیرہ وغیرہ۔ تو اس سلسلے میں سورة انبیاء کی یہ آیت کریمہ بھی نازل ہوئی ۔ { اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنٰی اُوْلٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ } ۔ (الانبیائ : 101) ۔ اور سورة زخرف کی زیربحث یہ آیات کریمہ بھی اس سلسلے میں اسی موضوع سے متعلق نازل ہوئیں۔ کیونکہ یہاں اوپر آیت نمبر 45 میں یہ ارشاد فرمایا جا چکا ہے کہ پوچھ دیکھو ہمارے ان رسولوں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے۔ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا کچھ ایسے معبود مقرر کئے تھے جن کی پوجا کی جائے ؟ تو اس پر عبد اللہ بن الزبعری کے نام کے اس شخص نے یہی اعتراض جڑ دیا جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ لیکن اس کا یہ اعتراض چونکہ ایک لچر اور بےہودہ اعتراض تھا اس لئے اس پر سلسلہ کلام کو توڑا نہیں گیا۔ بلکہ جو مضمون چلا آ رہا تھا اس کو مکمل کرنے سے پہلے اس کی اس بات کی طرف توجہ نہیں فرمائی گئی۔ اور اب اوپر والے مضمون کو پورا فرمانے کے بعد اس کے اس اعتراض کا ذکر فرمایا گیا۔ بہرکیف جن پاکیزہ ہستیوں کی ان کی موت کے بعد پوجا کی گئی ان کا چونکہ اس میں کوئی قصور نہیں اس لئے ان پر کوئی الزام نہیں۔ قصور تو اس میں ان لوگوں کا ہے جنہوں نے ان بزرگ ہستیوں کے مرنے کے بعد اپنی عقیدت کے غلو میں ان کی پرستش کی۔ سو یہاں پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق اسی قصے کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہی عبد اللہ بن الزبعری بعد میں اسلام لا کر اسلام کے سچے جاں نثاروں میں شامل ہوگئے تھے۔ (حاشیہ جامع البیان وغیرہ) ۔ بہرکیف اس آیت کریمہ میں مشرکین کے اسی مذکورہ بالا واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ (جامع البیان، ابن کثیر، روح، محاسن، مدارک، خازن اور معارف وغیرہ) ۔ { یَصدُّوْنَ } کے معنیٰ چیخنے چلانے کے آتے ہیں۔ یعنی ابن زبعری کی یہ بات سنتے ہی وہ لوگ چلا اٹھے اور انہوں نے اس پر واہ واہ کے ڈونگرے برسانے شروع کر دئیے۔ سو اہل ھویٰ اور اصحاب زیغ و ضلال کا طریقہ و وطیرہ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ چناچہ آج بھی ایسے لوگ طرح طرح کے شرکیہ نعرے بلند کرتے اور چیخ و پکار اور شورا شوری سے کام لے کر اپنے باطل کو غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ { تَشَابَہَتْ قُلُوْبُہُمْ } ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا -
Top